Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khidmat e Khalq Ke Idare

Khidmat e Khalq Ke Idare

ایک فرض ہے جو میں ہر سال ادا کرتا ہوں۔ ان اداروں کا تذکرہ کرتا ہوں جو خدمت خلق کے کار خیر میں مصروف ہوتے ہیں۔ میں اپنے ایمان کے مطابق گواہی دیا کرتا ہوں کہ یہ وہ ادارے ہیں جو آپ کے عطیات کے منتظر ہیں۔ ان میں ہر سال اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ چند بنیادی ادارے ایسے ہیں جو مبالغے کے انداز میں بیان کروں تو یوں کہوں کہ ازل سے قائم ہیں اور ابد تک انسانیت کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ہر سال کی طرح برادر عزیز عامر خاکوانی بھی اس موضوع پر ضرور لکھتے ہیں۔ ہماری فہرست ملتی جلتی ہوتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ کون پہلے نیکی کما جاتا ہے۔ کون بعد میں۔

ان اداروں میں تسلسل کے ساتھ ہی جن اداروں کا ذکر کرتا ہوں ان میں ایک اخوت ہے اور دوسرا الخدمت۔ یہ دونوں کمال کے ادارے ہیں۔ اگر یہ کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتے تو ان کے انداز کارپر ریسرچ کے انبار لگ چکے ہوتے۔ مثال کے طور پر اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب ایک دبستان فکر ہیں۔ انہوں نے غریب کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے قرض حسنہ کا تصور پیش کیا۔ اس لحاظ سے بلا سود قرضے کے حوالے سے یہ دنیا کا سب سے بڑا تجربہ ہے۔ بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانس کے حوالے سے ڈاکٹر یونس کو بہت سراہا جاتا ہے، مگر یہ قرضہ اچھے خاصے سود پر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سود نہیں لیں گے تو نیٹ ورک میں توسیع کیسے آئے گی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس تصور کو یہ کہہ کر رد کیا کہ جس خدا نے سود سے منع کیا ہے، وہی مدد کرے گا۔ اب تک یہ 36ارب روپے بانٹ چکے ہیں۔ واپسی کی شرح 99.9 فیصد ہے، لاکھوں گھرانے اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ کوئی اوور ہیڈ نہیں، برائے نام ہے، مسجد میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کل ضرورت مند جب اپنے پائوں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کیوں نا میں بھی اب دوسروں کی مدد کروں۔ اب وہ اپنی آمدنی سے اس کارخیر میں حصہ لینا شروع کر دیتا ہے اور ایک چلتا پھرتا اس کام کا ایمبیسڈر بھی بن جاتا ہے۔ یہاں گنجائش نہیں کہ میں اس تصور کا مکمل تجزیہ کروں۔ مگر اس ادارے کی دیانتداری کی اتنی دھوم ہے کہ حکومت اور دوسرے ادارے بھی ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کے کام میں ان کی مدد کریں۔

دوسرا ادارہ الخدمت ٹرسٹ ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے پہلے خدمت خلق کا ایک شعبہ بنایا پھر اسے آزاد و خود مختار کر دیا۔ سیلاب، طوفان، زلزلے میں یہ لوگ ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں انہوں نے اس رضاکارانہ کام کو سائنٹیفک بنیادوں پر استوار کر دیا ہے۔ اس کا صدر دفتر ہے جہاں دن رات کام ہوتا ہے۔ پہلے ہر زلزلے، سیلاب یا قدرتی آفت پر ازسر نو خیمے، کمبل اور سامان جمع کرنا پڑتا تھا۔ اب ان کے ویئر ہائوسز ہیں۔ گلی گلی محلے محلے نیٹ ورک ہے جہاں خاموش کارکن اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ چنانچہ کورونا پھیلا تو اس ادارے کو فہرستیں بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ پورے ملک کے ضرورت مندوں کو جانتے تھے۔ ان کے تیس کے قریب ہسپتال میں یتیموں کی کفالت کا ایک بہت ہی جامع پروگرام پورے ملک میں چلا رہے ہیں۔ پھر ان کا عالمی نیٹ ورک ہے۔ انہوں نے خود کو عالمی فلاحی تنظیموں سے بھی منسلک کر رکھا ہے۔ این جی اوز کے عالمی ادارے کے بھی رکن ہیں۔ مجھے خوشی ہوتی تھی جب میں نعمت اللہ خاں کو اس کے سربراہ کے طور پر کام کرتے دیکھتا تھا۔ اب میرے یونیورسٹی کے ساتھی عبدالشکور اس کے سربراہ ہیں۔ احسان اللہ وقاص اس میں سرگرم ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک قابل ذکر ادارہ ہے۔

یہاں مجھے ایک ادارہ یاد آتا ہے جو لشکر طیبہ سے ہوتا ہوا جماعتہ الدعوۃ فلاح انسانیت کی شکل میں بے مثال کام کیا کرتا تھا۔ عالمی نوسر بازوں کی نظر اسے کھا گئی۔ جانے اس کے غیر معمولی کارکن اب کیا کر رہے ہوں گے۔ ہم نے تو اس پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پھر بھی نیکیاں کما رہے ہوں گے۔ سمجھ گئے یہ کون لوگ ہیں، حافظ سعید والے لوگ جو دنیا کے لئے ایک مثال رہے ہوں۔

اسی رو میں یہاں الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا ذکر ہو جائے۔ یہ صرف دیہاتوں میں کام کرتے ہیں جہاں تعلیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دور دراز کے علاقوں میں سکول قائم کر رکھے ہیں۔ ضرورت مندوں کے لئے مفت تعلیم۔ میں نے یہ سکول دیکھے ہیں۔ نصاب بھی معیار، ماحول بھی عمدہ اور ایک مرکزی نیٹ ورک جہاں سے ہر ایک ادارے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ بھی وہ لوگ ہیں جو سائنٹیفک بنیادوں پر تعلیمی دنیا میں کام کر رہے ہیں اور بڑی کامیابی سے کر رہے ہیں۔

ابھی میں نے چار اداروں کا ذکر کیا ہے۔ اب میں کراچی کے دو اداروں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہر سال SIUT کا ذکر کرتا ہوں اور اس کے ماحول کو سراہتا ہوں۔ یہ گردوں کی بیماری کا ورلڈ کلاس ادارہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوینے اسے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ وہاں مریض بغیر سفارش کے آتا ہے۔ پھر ڈیلائسز سے لے کر ٹرانسپلانٹ تک تمام اخراجات ادارہ ادا کرتا ہے۔ آپ اگر ارب پتی بھی ہیں تو بھی آپ سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ مریض اخراجات برداشت کر سکتا ہے یا نہیں offordable ہے یا نہیں۔ میں جب پہلی بار اس ادارے میں گیا تھا تو یقین نہیں آتا تھا کہ پاکستان میں اس سطح کا کوئی ادارہ مفت علاج بھی کر سکتا ہے۔ اس ماڈل پر قائم دوسرا ادارہ انڈس ہسپتال ہے جس سے میں براہ راست واقف نہیں ہوں۔ ان کا طریق کار یہ ہے کہ کوئی شخص صرف پیسوں کی وجہ سے علاج سے محروم نہ رہے۔ میں نے 2007ء میں کراچی چھوڑا، اس سال اس کی بنیاد پڑ رہی تھی۔ میرے گھر کے بالکل پڑوس میں۔ مجھے غلط یاد نہیں تو شاید انہوں نے سندھ بھر میں دس ہسپتال بنا ڈالے ہیں جہاں غریب آدمی کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اس کا بجٹ اس وقت سالانہ 18 ارب روپے ہے۔ میرا خیال ہے SIUT کا بجٹ بھی کم نہ ہو گا۔ شوکت خانم کے تازہ اعداد و شمار مجھے معلوم نہیں۔ وہ بھی ایک عمدہ ماڈل ہے، مگر وہ مریض کو لینے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس کی بیماری کی نوعیت کیا ہے۔ اس کے بچنے کے چانس کتنے ہیں تاکہ عوام کا پیسہ زیادہ مناسب جگہ استعمال ہو، پھر وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ مریض کی مالی حالت کیا ہے۔ آیا اسے مدد کی ضرورت ہے یا وہ ادائیگی کر سکتا ہے۔ یہ بھی بہرحال ایک ماڈل ہے۔

کراچی ہی سے فلاح عامہ کے کچھ ادارے پھوٹ کر پورے ملک میں پھیل گئے۔ ان میں ایک سیلانی ہے جس کا دسترخواں تو پھیلتے پھیلتے اب اقتدار کے ایوانوں کی سرپرستی تک چلا گیا۔ ایک عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ہے۔ برسوں پہلے ایک نوجوان شکیل دہلوی نے کورنگی میں کھانے پر مدعو کیا۔ معلوم ہوا وہ اپنے اندر ایک بڑا منصوبہ رکھتا ہے۔ آج یہ کراچی کے خدمت خلق کے بڑے اداروں میں ہے۔ جب کراچی میں ہوتا تھا، کسی کو صدقہ وغیرہ دینے کا خیال آتا تو اس کے دفتر میں جا کر کمپیوٹر پر رسید کٹوا لیجیے۔ کس قسم کا جانور آپ پسند کریں گے۔ چاہیں تو سڑک پار کر کے دوسری دکان میں چلے جائیے۔ اپنی پسند کا جانور منتخب کیجیے اور چاہیں تو اپنے سامنے ذبح کرا لیجیے۔ ہمارے ہاں خدمت کے کام اب بڑے سلیقے سے ہوتے ہیں۔ پھر ایدھی ہے، چھیپا ہے، حنیف طیب کا المصطفیٰ ٹرسٹ سب اس کی راہ میں کام کر رہے ہیں۔

مجھے اور بھی بے شمار ادارے یاد آ ہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کسے چھوڑوں کس کا تذکرہ کروں اور ان کے کام کی نوعیت کو کیسے سمجھائوں۔ انشاء اللہ دوبارہ لکھوں گا، الگ سے لکھوں گا۔