اس کارخیر میں قدرے تاخیر ہو گئی۔ ملکی اور ذاتی معاملات میں الجھا رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں خیر کے بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن کی بنا پر تعلیم، صحت کے معاملات خصوصی طور پر ضروریات زندگی کے دوسرے امور ایک سلیقے سے چل رہے ہیں۔ اس ملک میں جب زلزلہ یا سیلاب آیا تو یہ فلاحی تنظیمیں تھیں جو سب سے پہلے بروئے کار آئیں۔ ایک تنظیم کا تو اب نام لینا بھی جرم قرار پایا ہے مگر ایسے موقع پر حافظ سعید کے مجاہدوں نے سچ مچ خدمت کا حق ادا کیا۔
الخدمت ہی کے نام سے ایک تنظیم اب بھی ہے جسے جماعت اسلامی نے غیر سیاسی بنیادوں پر تشکیل دیا ہے۔ یتیموں، ضرورت مندوں ہی کے لئے نہیں، یہ تعلیم، صحت اور مالی تعاون کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے۔ انتہائی جدید خطوط پر استوار یہ تنظیم بتاتی ہے کہ جب کوئی خدمت کے سچے جذبے سے سرشار ہو کر کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ ایک زمانے میں نعمت اللہ خاں اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس کے روح رواں تھے، آج کل ہمارے عبدالشکور اسے چلا رہے ہیں۔ اس کے دفاتر اس کا نظام، اس کا طریقہ کار یہ بتاتا ہے کہ وہ خدمت کے جدید ترین تصورات کو لے کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک تنظیم اخوت ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اسے بالکل نئے خطوط پر استوار کیا ہے۔ یہ مسجد میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، ضرورت مندوں کو بلا سود قرض حسنہ دیتے ہیں اورانہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ان کے قرضے کے واپسی تقریباً سو فیصد ہی ہے۔ کوئی اوورسپیڈ بھی نہیں۔ اب انہوں نے مفت تعلیم کی یونیورسٹی بھی قائم کر رکھی ہے بنگلہ دیش میں ڈاکٹر یونس نے مائیکرو فنانس کے اس تصور کی بنیاد رکھی تھی مگر ان کے تصور میں سود شامل تھا۔ ان کا خیال تھا اس کے بغیر یہ کام ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس میں سے سود کو منہا کر کے ثابت کر دیاکہ یہ کام یوں بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خدمت کا جذبہ بہت سے لوگوں سے سیکھا مگر اسے اپنااسلوب بخشا۔ مثال کے طور پر کومیلا اور کورنگی پراجیکٹ والے اختر حمید خاں نے انہیں متاثر کیا مگر ان کے تصور میں وہ خامیاں نہیں جو ان کے تصور میں ہیں۔
اسی طرح یہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے بھی متاثر ہیں جنہوں نے SUITیعنی سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کی صورت میں ایک بے مثال ادارہ قائم کیا، جہاں گردے کے امراض کا ڈائیلسس سے لے کر ٹرانسپلانٹ تک مفت علاج ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کا کہنا ہے میں کیسے فیصلہ کروں کہ کون ضرورت مند ہے اور کون نہیں۔ آپ اگر صاحب ثروت ہیں تو اپنا علاج تو مفت کرائیے۔ البتہ آپ ادارے کی مالی خدمت کرنا چاہتے تو ضرور کیجیے۔ یہ کمال کا تصور ہے۔ کم از کم شوکت خانم اس ماڈل کو نہ اپنا سکا۔ وہ پہلے فیصلہ کرتے ہیں کس مریض کو کتنی چھوٹ دی جائے گی اور کس سے چارج کیا جائے گا۔
البتہ اس ماڈل پر کراچی میں انڈس ہسپتال کا آغاز کیا گیا۔ 2007ء میں جب میں لاہور منتقل ہو رہا تھا، یہ منصوبہ آغاز کر رہا تھا۔ اس لئے اسے میں نے دور سے دیکھا ہے۔ بلا شبہ یہ صحت کی ایک محیر العقول سہولت ہے جو اب پورے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔
اس طرح تعلیم کے شعبے میں ایک نادر تصور الغزالی کا ہے جنہوں نے کسی آن بان کے بغیر تعلیم کو عام کیا۔ ان کے سکول شہروں سے دور ایک طرح دیہی علاقوں میں ہیں۔ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے غریب طلبہ کو یہ بڑی سادگی سے معیاری تعلیم دیتے ہیں۔ پورے نظام کو مرکز سے مانیٹر بھی کیا جاتا ہے۔ اسی تصور کے تحت انہوں نے کئی سرکاری سکول گود لے رکھے ہیں جن کے معیار کو یہ حتی المقدور اعلیٰ تر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے ایک زمانے میں ان کے میانوالی کے نواح میں دو سکولوں کا دورہ کیا تھا۔ رشک آتا ہے ان لوگوں پر۔ کشمیر کے طلبہ کے لئے READ نام کا ایک اور ادارہ بھی جو کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ اتنے بے شمار ادارے ہیں جن کی فہرست ہی مرتب کروں تو کالم تمام ہو جائے۔ سندس نام کی تنظیم کو دیکھ لیجئے جسے منو بھائی کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ خون کا عطیہ دینے والوں کا ملک ہے۔ جہاں بہت خوبصورتی سے بچوں کی بحالی کا ایک پورا نظام موجود ہے اور بہت سے کام ہیں جن سے ہم واقف ہی نہیں۔ ایک ہسپتال دیکھا جس میں کٹے ہوئے ہونٹوں کا علاج ہوتا ہے۔ مفت علاج کرانے والے افغانستان تک سے آتے ہیں۔ اس طرح بہرہ پن کے علاج کا ایک ادارہ ہے افسوس مجھے ان کے نام فوری طور پر یاد نہیں آ رہے۔ ایک ادارہ ہمارے اخلاق صاحب آن لائن کے نام سے چلاتے ہیں یہ بھی خدمت کا کام کرتے ہیں مگر خاموشی سے۔ ایک اور ادارے سے میں متعارف ہوا تو حیران رہ گیا۔ وہ گلی محلوں میں کام کرنے والی عورتوں کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ یہ آپ سے بنیادی طو پر کچھ نہیں مانگتے۔ آپ کے گھر سے گھر کا کوڑا کرکٹ اکٹھے کرنے کا بندوبست کرتے ہیں اس سے تعلیم کے اخراجات کے لئے پیسے اکٹھے کرتے ہیں۔ لوگ ان سے ویسے بھی مالی تعاون کرتے ہیں۔
یہی دیکھئے سیلانی کا دسترخوان ہے۔ ہمارے ہاں بزرگوں کے مزاروں پر مفت لنگر کا رواج تھا۔ اہل دل نے اسے پھیلا کر پورے ملک پر محیط کر دیا ہے۔ ایک نہیں خیر کے بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی ہی کو دیکھیے جسے قومی بلکہ فوجی اعزاز سے دفنایا گیا۔ میمن برادری میں خدمت کے اداروں میں یہ ایک ادارہ تھا۔ کبھی ایدھی صاحب سیاست بھی کرتے تھے، الیکشن بھی لڑتے تھے۔ پھر جب یہ خدمت کے شعبے میں آئے تو دنیا بدل کر رکھ دی۔ چھیپا، المصطفیٰ ٹرسٹ اور جانے کتنے ادارے ہیں۔ آنکھوں کے آپریشن تو ملک کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی کئے جاتے ہیں۔ بس اس وقت میں ایک فرض ادا کر رہا ہوں وگرنہ ان اداروں کی خدمت کا بیان اتنا دنگ کر دینے والا ہے کہ کوئی بیان کرتا جائے اور لوگ سنتے جائیں۔ پاکستان میں غریب کو جو ذرا سکون ہے تو ایسے ہی اداروں کی بدولت ہے۔