جب مجھ سے یہ کہا جائے کہ فلاں موضوع پر کالم لکھ دو تو میری اندر کی خودسری حرکت میں آ جاتی ہے کہ کہیں یہ فرمائشی تحریری تو نہیں ہو جائے گی۔ مگر آج جب مجھ سے کہا گیا کہ تم پولیو پر کیوں نہیں لکھتے تو خیال آیا کہ یہ فرمائش نہیں، ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو اب بھی موجود ہے۔ دوسرے دو ممالک افغانستان اور نائجیریا ہیں۔ ایٹم بم بنانے والی قوم ایک چھوٹے سے ذرے کے ہاتھوں بے بس ہے۔ میں نے ذرہ کہا، وائرس ذرا بھی نہیں ہوتا۔ یہ جرثومہ بھی نہیں ہوتا اس سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور پولیو تو وائرس کی وہ قسم ہے جسے بہت ہی چھوٹا وائرس کہا جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے سائنس کی زبان میں بھی ایسا کہا جاتا ہے۔ پولیو وائرس یہ چھوٹا سا وائرس انسان کو عمر بھر کے لئے معذور کر دیتا ہے۔
ایک تو یہ بات عجیب ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا سامراج کی سازش ہے ایک ایٹمی طاقت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک میں ایسے لوگوں کا وجود حیران کن ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے لوگ صرف ان پڑھ طبقے میں نہیں پائے جاتے، بلکہ پڑھے لکھے طبقے کے اندر بھی موجود ہیں اور وہ دلائل بھی دیتے ہیں کہ یہ ویکسین دوسرے ممالک میں استعمال کیوں نہیں کی جاتی۔ یہ بات بھی غلط ہے جو ویکسین ہمارے ہاں استعمال کی جاتی ہے وہ تو منہ میں قطروں کی شکل میں ہے جبکہ امریکہ میں 2000سے یہ باقاعدہ انجکشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ ویسے معمول کے مطابق ویکسین کا پروگرام وہاں ہو گا جہاں وائرس موجود ہو گا تاکہ اس کے مزاحمت پیدا کی جا سکے۔ وگرنہ بار بار دینے کا پروگرام تو گویا اس لئے ہے کہ یہ وبا کی صورت میں موجود ہے۔
اس وقت چین میں جو کرونا وائرس نے قیامت ڈھا رکھی ہے، ہمارا وائرس کو صرف سازش قرار دینا انتہائی احمقانہ بات ہے۔ بعض لوگ تو اس میں مذہب کو بھی لے آئے ہیں۔ یہ اور بھی بڑا ظلم ہے۔ انسان نے چالیس سال اس وائرس کے تعاقب میں صرف کئے تو اسے معلوم ہوا انسان کو بے بس کر دینے والا یہ مرض ہے کیا۔ پہلے پہل1909ء میں ایک جرمن سائنسدان نے دریافت کیا۔ یہ پتا چلا کہ معدے میں کوئی وائرس ہوتا ہے جو فالج جیسی صورت حال پیدا کرتا ہے۔ چند روز بعد ایک سویڈش سائنسدان نے جو بچوں کے امراض کا ماہر تھا یہ خبر دی کہ اس کا اثر بچوں پر ہوتا ہے۔ پھر ایک پوری تاریخ ہے کہ بچوں کے فضلے سے کیسے تحقیق شروع کی گئی۔ پہلے چوہوں میں، پھر بندروں میں۔ پھر کہیں جا کر معلوم ہوا کہ یہ وائرس ہے کیا شے۔ یہ چونکہ معدے کی تیزابیت میں زندہ رہ سکتا ہے، اس لئے پہلے اس کا تعلق صرف معدے ہی سے جوڑا گیا۔ 1949ء کے بعد غالباً ایک دو سال میں ویکسین کی کوئی شکل بنتی نظر آئی تو انسانیت کو امید کی کچھ کرن نظر آئی۔ اب یہ وائرس تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ مگر ہم ان تین بدقسمت ملکوں میں ہیں جہاں یہ موجود ہے۔ اس لئے بچوں کے ویکسین پروگرام میں یہ آج بھی شامل ہے۔ ہمارے ہاں اس کی موجودگی کوئی افسانہ نہیں۔ اسے آج بھی تحقیق کے مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔
کراچی جیسے شہر کے سیوریج سسٹم میں اسے ڈھونڈا گیا تو پتہ چلا کہ گٹر میں اب بھی موجود ہے۔ یہ ہوا اور پانی سے پھیلتا ہے۔ یہ کھانے کے ذریعے جسم میں چلا جاتا ہے۔ ہماری ایک بہت پیاری بیٹی جو اس وقت ملک میں نمائندگی کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہے، اسے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک غلطی کے نتیجے میں اس مرض کے اثرات میں سے گزرتے دیکھا ہے۔ ویکسنائزیشن کروا رکھی تھی، مگر بہت عرصہ پہلے پھر بے احتیاطی سے گائوں میں ایسا پانی پی لیا کہ اس میں یہ وائرس موجود تھا۔ اس لئے بار بار ویکسینیشن کے لئے کہتے ہیں۔ یہ فوراً معدے کے ذریعے مقررہ غدودوں میں جا کر قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ یہ بہت معمولی اور ہلکی شکل میں ہوتی ہے۔ امریکہ نے اسے انجکشن میں مردہ حالت میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ فوراً ہی خون میں جا کر قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ ویکسین ہر دو شکلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ مدافعت میں یہ باتیں نہایت وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں۔ اس لئے بیان کررہا ہوں کہ میری اہلیہ وائریالوجی میں تربیت یافتہ ہیں۔ یہ تربیت چلتے پھرتے نہیں، امریکہ سے ماسٹر اور آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی اس سبجیکٹ میں کر رکھی ہے۔ جب برڈ فلو کا چرچا ہوا تھا تو پاکستان میں اس کی ویکسین بنانے کی ذمہ داری اسے سونپی گئی تھی۔ ان دنوں بڑی افواہیں تھیں۔ لوگوں نے مرغی کھانا بند کر دی تھی۔ ہم نے فریج بھر لئے تھے، کیونکہ وہ وائرس صرف 70 ڈگری پر باقی رہتا تھا۔ انڈے میں آئے تو انڈہ ٹوٹ جاتا تھا۔
ان دنوں میڈیا سے جو فون آتا میں سمجھ جاتا کہ بات مجھ سے نہیں اس سے کرنا ہے۔ سائنس کے علاوہ مذہب کا مطالعہ بھی میں نے اتنا تو کر رکھا ہے کہ بہت اعتماد سے کہہ سکتا ہوں جو لوگ پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، وہ پاکستان، اسلام اور انسانیت تینوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ دنیا میں وبائی امراض کئی بار پھیلے اور بستیاں کی بستیاں تباہ ہو گئی۔ کبھی وہ ایک شکل میں آئیں کبھی دوسری میں۔ ابھی کل ہی ہم نے مچھروں کو ڈینگی پھیلاتے دیکھا۔ ایک زمانے میں چوہوں کے ذریعے طاعون پھیلا تھا۔ ہزار سال کی تاریخ میں آپ وبائی امراض پھیلنے کے کئی واقعتا دیکھ سکتے ہیں۔ ابھی افریقہ میں کئی خطرناک وبائیں پھیلی ہیں حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب انہیں منع کیا گیا کہ وہ فلاں علاقے میں نہ جائیں کہ وہاں طعون پھیل رہا ہے تو ایک بہت ہی جلیل القدر صحابی نے کہا عمرؓ کیا عمرؓتقدیر سے بھاگ رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا تقدیر سے تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔ پہلے ان کی بھی یہ رائے تھی کہ انہیں اپنا سفر ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ اپنے مومن بندوں کو جو بصیرت عطاکرتا ہے وہ یہی ہے۔ بعض اوقات یہ بصیرت اپنے ساتھیوں سے عطا ہوتی ہے اور جو اس بصیرت سے عقل قبول کرنے کو تیار نہ ہوا، اس کی مومنانہ بصیرت پر مجھے ہمیشہ شک رہے گا۔ انفس و آفاق کے رازوں کو سمجھنا یہی ہے۔ ہمارے اندر اور اس کائنات میں بعض راز ایسے ہیں کہ خدا کی قدرت کا یقین آ جاتا ہے۔ جو ان رازوں کا راز دار بننے سے انکار کر دے۔ وہ گو یا خدا کی خدائی کا انکار کرتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا خدا کو تسلیم کرنا ہے۔ ہمارے اندر اور کائنات میں پھیلے ہوئے راز اس قدر ہیں کہ یقین آتا ہے خدا ہے۔ خدا کو مانو اور اس وبا کے خاتمے میں عقل کا ساتھ دو۔