کہتے ہیں ورلڈ آرڈر بدل رہا ہے۔ عام معانی میں کہیں تو یوں کہا جاتا ہے کہ دنیا اب وہ نہیں رہے گی جو کرونا سے پہلے تھی، مگر جب ہنری کسنجریا ٹام چومسکی اس پر غور کرتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسری جنگ کے بعد 1944ء میں جو عالمی نظام طے ہوا تھا اور جس پر عمل کیا جا رہا تھا وہ اب ختم ہونے کو ہے۔ دنیا کی جیتی ہوئی اقوام نے اس وقت مل کر جو اقتصادی، سیاسی اور انتظامی فعالیت کی تھی۔ وہ اب چلنے کی نہیں۔ خیر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں کہ اس بندوبست کی تفصیل کیا ہے، تاہم یوں لگتا ہے کہ دنیا کے مدبرین یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ سارا نظام عالم بدلنا پڑے گا یا بدل جائے گا:
ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمت آدم
بسے گی اک نئی دنیا سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں گلستان میں نیا موسم
یہ خواب انسانوں نے کب سے دیکھ رکھے ہیں۔ دنیا اک بڑی تبدیلی کی منتظر ہے، مگر اس انداز سے جو تبدیلی متوقع ہے، اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اس کی سمت کیا ہو گی۔
اعجاز شفیع گیلانی کا شمار ہمارے ملک کے ممتاز اہل دانش میں ہوتا ہے۔ وہ چین کے ایک تفصیلی دورے کے بعد واپس آئے تو مجیب شامی صاحب کے ہاں ایک نشست میں انہوں نے آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کا ایک نقشہ کھینچا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ شاید اب دنیا کی تاریخ مختلف انداز سے مرتب کرنا پڑے۔ وہ پیمانے بدل جائیں جو مغرب سے ہم نے سیکھے ہیں کہ پہلے نشاۃ ثانیہ پھر انفارمیشن، اینلائٹنمنٹ صنفی انقلاب، انقلاب فرانس وغیرہ وغیرہ۔ ایک سے دوسرے پر رکھ رکھ کر قدم دنیا یہاں تک پہنچی ہے۔ اب شاید یہ سب کچھ باطل یا بے معنی ہو جائے۔ اب اسے اور طرح رکھنا پڑے۔ شاید یہ سامراج کی تاریخ تھی۔ ایک وقت تھا دنیا کی ایک چوتھائی دولت کا مالک یہ برصغیر تھا۔ جی ہاں۔ اس بادشاہ کے زمانے میں جسے مغرب زدہ تاریخ داں نے متعصب سمجھا جس کا نام اورنگزیب عالمگیر تھا۔ سامراج نے اس کے بعد جب اس برصغیر کو لوٹا تو باقی کیا چھوڑا، ہم صرف اس سے واقف ہیں۔ چین تو ایک سربستہ راز تھا اور شاید اب بھی ہے۔ سامراج نے دنیا کی تاریخ کو اپنے ڈھب پر رکھنے کے لئے گزشتہ صدی میں کم از کم دو بڑی جنگیں لڑی ہیں جس کے نتیجے کے طور پر آج کا نظام تشکیل پایا۔
مگر اب یہ تیسری جنگ سامراج کی مرضی کے بغیر اس پر مسلط ہو گئی ہے۔ پتا نہیں کہ یہ نقارہ خدا ہے یا اسے کیا نام دوں۔ کوئی سوچ سکتا تھا تیل کی قیمت چند دنوں میں یوں گر جائے گی۔ کسی کو خیال تھا کہ دنیا کی واحد سپر پاور یوں بے بس ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ سارا نظام ہانپ رہا ہے۔ اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ناز کرنے والا نظام بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا یقینا کروٹ لے رہی ہے۔ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
یہ جو میں نے اوپر مضمون باندھا ہے۔ یہ تمہید ہے اس بات کی ہے جو میں کہنے والا ہوں اور اس بات کا تعلق اس قدر عالمی، آفاقی یا کائناتی نہیں ہے۔ ، اس بات کا تعلق میرے وطن پاکستان سے ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ میرے ملک میں بھی سامراج کا نظام دم توڑ گیا ہے۔ یہ مقامی سامراج ہے جو عرصے سے یہاں حکومت کر رہا ہے جو عالمی سامراج کا گماشتہ ہے۔ ابھی اس وبا سے نجات نہیں ملی اور خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے اور ہم یہ طے کرنے بیٹھ گئے ہیں کہ اس نے چینی اور آٹے کے بل بوتے پر کتنا کمایا ہے۔ کیا اس میں کوئی بات بھی مخفی ہے۔ سب کھلا ہوا راز ہے۔ ہم اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایک طرف یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اس گروہ کے کم از کم تین بڑوں کا تعلق حکومت سے ہے تو دوسری طرف یہ بھی بتا رہے ہیں کہ عمران انہیں چھوڑے گا نہیں۔ اسے انتظار کس بات کا ہے؟ صرف اس بات کا کہ 25اپریل آ جائے، اصل رپورٹ تب آئے گی۔ یہ وہی تاریخ ہے جو ہم نے سپریم کورٹ کو دی ہے کہ اس تاریخ کے بعد اس کرونا نامی جرثومے کی تباہ کاریاں پاکستان میں بڑھ سکتی ہیں۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ آج نہیں ہوا۔ یہ درست ہے کہ منافع خوری کے اس بل بوتے پر ایک طرف ہماری ٹیکسٹائل صنعت کو تباہ کیاگیا، دوسری طرف ہمارے عوام کو لوٹا۔ زرتلافی اور سبسڈی کب نہیں دی جاتی تھی۔ کس کس چیز پر دی جاتی تھی۔ یہ الگ بات ہے یہ صرف حسن اتفاق نہیں کہ آج ہر پارٹی میں لوٹنے والوں میں سرفہرست کا تعلق اس صنعت سے ہے۔ ایسا کیسے ہوا۔ ہم نے یہ سب کچھ ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ کر کے کیا۔ کیوں کیا ہم اس بات کا تجزیہ کرنے کبھی بیٹھے ہیں کہ آٹے بحران میں کس کی نالائقی کا دخل ہے۔ ہم سیاست سیاست کھیلتے رہے اور صورت حال یہاں تک جا پہنچی کہ لوگ اپنی بنیادی غذا یعنی آٹے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔ درست کرونا نے سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے، مگر کیا یہ اس وبا کے پھوٹ پڑنے سے پہلے ہوا ہے یا اس سے پہلے ہی عوام لائنوں میں لگ گئے تھے۔
ابھی ایک اندر کا علم رکھنے والے بتا رہے تھے کہ یہ سب اندرونی لڑائی ہے۔ اسد عمر کے بیانات پڑھ لیجیے، لگتا ہے وہ اپنا بدلہ لے رہے ہیں۔ خطرہ سروں پر ہے اور ہم اپنا حساب چکانے بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن کا بھی عجیب حال ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں وہ بھی اندرونی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ اگر میں مسلم لیگ میں ہوں تو کس کا ساتھ دوں۔ پہلے تو صرف اتنی بات تھی کہ میں نواز شریف کے بیانئے کے ساتھ ہوں یا شہباز شریف کے۔ اب بہت کچھ ہے، سب فعال ہیں، مگر ٹارگٹ کیا ہے۔ سول انتظامیہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو مدد بھی پہنچائیں تو کس کے ہاتھوں۔ کون یہ بوجھ اٹھانے آئے۔ چلو ٹائیگر فورس بناتے ہیں۔ کم از کم کمپیوٹر پر ہی سہی۔ وہ تو ہم نے بنا دی۔ اس میں چھ لاکھ یا سات لاکھ لوگ آ گئے۔ مگر لوگوں تک امداد پہنچانے کا کام کمپیوٹر پر بیٹھ کر یا ایپ بنانے سے نہیں ہوا کرتا۔ پھر اس کام کے لئے اعتماد کے لوگ درکار ہیں۔ یہ ٹائیگر نام کی مخلوق اگر کوئی ہے تو لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں۔ صاف لفظوں میں لکھ چکا ہوں کہ جب سے کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی بنی ہے، فوج نے آئین کی شق نمبر 245کے تحت اختیارات سنبھالے ہیں اور چیف آف سٹاف نے کہا ہے کہ قوم کو ایک عالمی وبا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سب سے لگتا ہے ہم اب نسبتاً محفوظ ہاتھوں میں ہیں ورنہ پارٹیاں ہی نہیں، صوبے بھی لڑ رہے تھے۔ ارے بھئی پہلے اس بلا سے تو نپٹ لیجیے۔ بلدیاتی نظام ہم نے پہلے ہی گول کر رکھا تھا۔ اب اپنے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ تم خوش قسمت ہو کہ حکومت میں ہو، آئو مرے ٹائیگرو۔ سارا کریڈٹ تمہاری جھولی میں جائے گا۔ لاحول ولا قوۃ۔ اتنا کھل کر کسی نے اس صورت حال کو سیاسی نہیں بنایا ہو گا۔ اوپر سے دعویٰ یہ ہے کہ اس ملک میں فلاحی کاموں کی بنیاد شوکت خانم نے رکھی۔ ارے بھئی آپ اس ملک کی تاریخ سے واقف نہیں ہو۔ آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ کیا ہے۔ اوقات، مواخات، اخوت کے جو تصور اور ادارے ہمارے ہاں ہیں وہ کہیں اور نہیں۔ ہمارے ہاں راہ خدا جتنا اہل ثروت خرچ کرتے ہیں وہ دنیا میں سب سے زیادہ گنا جاتا ہے۔ اس وقت بھی وہی لوگ بروئے کار آئے ہیں۔