آج انگریزی کے ایک مضمون پر نظر پڑی تو ایک خواہش دوبارہ جاگ اٹھی۔ یہ مضمون تو خیر قومیت یا نیشنلزم کے بارے میں تھا۔ مگر جو خواہش جاگی وہ اردو میں چند قاعدے مرتب کرنے کا شوق تھا۔ یہ شوق حسن عسکری صاحب کی خاص طور پر اس تحریر سے پیدا ہوا تھا جو انہوں نے دینی مدارس کے طلبہ کو علم جدید کی گمراہیاں بتانے کے لئے ایک خاکے کی شکل میں تیار کی تھی۔ مگر اس میں اتنے سوال پیدا کر دیے تھے کہ آدمی ان کے سادہ فہم جواب تلاش کرے تواس کا سارا زاویہ نگاہ ہی بدل جاتاہے۔ مثال کے طور پر یہی نیشنلزم کا لفظ ہے جو اپنے ساتھ کئی زاویے لئے ہوتا ہے۔ اس کو چھوڑیے خود ہیومن ازم کے بارے میں ہمارے ہاں اہل علم کا ایک طبقہ منفی رجحان رکھتا ہے۔ جو مثبت رویہ رکھتے ہیں انہوں نے اسے غالباً انسان دوستی کے مترادف قرار دے رکھا ہے اور جنہوں نے اس کے منفی معنی لئے ہیں انہوں نے اسے انسان پرستی کا مفہوم دے دیا ہے۔ اقبال نے کچھ رعایت دے رکھی ہے جب کہ شواںاور رینے گینوںوغیرہ اسے مسترد کرتے ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ انسان کو کائنات کا مرکز و محور قرار دینے کا آغاز تب ہوا جب نطشے نے خدا کے متعلق اپنا تصور پیش کیا۔ غالباً اس وقت کا مغربی انسان اپنے مخصوص پس منظر کی وجہ سے اس بات کا قابل ہو گیا تھا کہ مذہب نے ان کے لئے بہت خرابیاں پیدا کی ہیں مذہب کی جگہ فلسفے کو دے دی گئی اور یہ طے پا گیا کہ انسان کے لئے مرکز نگاہ انسان ہی ہونا چاہیے۔ اسے اپنے فیصلے بھی خود ہی کرناہیں اپنی عقل کے زور سے، کسی وحی پر اعتبار نہیں کرنا، اپنی عقل کو اصل کسوٹی قرار دینا ہے اور انسان کو خوامخواہ کائناتی مسائل میں الجھنے کے بجائے اپنے مسائل ہی پر توجہ دینا چاہیے۔ یہاں سے ہیومن ازم کی پیدائش ہوئی۔ اب ذرا اس انسان دوستی یا انسان پرستی کا تجزیہ کر لیجیے جس کی بنیاد اس اعلان پر ہو کہ خدا مر چکا ہے۔ یہ بالکل ایک مختلف معاشرہ تھا۔ اس سے پہلے مغرب میں اور کئی تبدیلیاں بھی آ چکی تھیں۔ مغرب میں ان تبدیلیوں کا آغاز نشاۃ ثانیہ سے ہوا جس نے مثال کے طور پر ترقی کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ نشاۃ ثانیہ سے پہلے کا انسان ترقی کو روحانی ترقی کے معنوں میں لیتا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد اس کا مطلب مادی ترقی ہو گیا۔ اب سوچ لیجیے انسان جو اب ہماری سوچ و فکر کا محور و مرکز ٹھہرا اس کے بارے میں غور و فکر کے پیمانے کیاہوں گے۔ وہ انسان اب کتنا مختلف ہو گا نتیجہ یہ نکلا کہ اس فکر کے بطن سے کئی نئی نئی جانیں پیدا ہونے لگیں۔ ہر ایک کا یہی پس منظر تھا۔ مثال کے طور پر میں نے ایک آدھ بار انسانی حقوق کے تصور پر اعتراض کیا ہے۔ اس پر بڑا ہنگامہ ہوا کہ دقیانوس شخص ہے۔ مری وضاحت یہ تھی کہ میں انسانی حقوق نہیں، حقوق العباد کا قائل ہوں۔ ذرا غور کیجیے اس میں کیا فرق ہے۔ انسانی حقوق میں خدا غائب ہے۔ انسان کے خود ساختہ حقوق جو اس نے خود اپنے لئے بنائے ہیں اور حقوق العباد میں خدا کا تصور شامل ہے یعنی وہ حقوق جو اللہ کے بندوں کو حاصل ہیں جب ہم نے کائنات کے مرکزسے خدا کو فارغ کر کے وہاں انسان کا بت نصب کر دیا ہے تو نئے فکری اور عملی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ وگرنہ اب جنہیں انسانی حقوق کہتے ہیں، اس میں کیا کچھ نہیں جو اسلام کا طرہ امتیاز نہ ہو۔ گورے کو کالے پر فوقیت نہیں، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔ برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے صرف آخری خطبہ پڑھ لیجیے۔ سارا پیراڈائم ہی بدل جاتا ہے اور اس کے بدلنے سے بہت کچھ تلپٹ ہو جاتا ہے اس لئے ان انسانی حقوق پر اعتراض کرنے والے اقوام متحدہ کے چارٹر اور امریکی آئین میں درج ان حقوق کے بخیے ادھیڑتے ہیں اور کہتے ہیں اصل فساد کی جڑ یہی ہے۔
یہ بہت دلچسپ بحث ہے اس طرح نیشنلزم یا قومیت کا مسئلہ ہے اقبال کو مغربی نیشنلزم کا سب سے بڑا ناقد کہا جاتا ہے اور بلا شبہ وہ ہے۔ یہی وہ نیشنلزم تھی جس نے فاشزم، نازی ازم اور ایسے برتری کے سارے خیالات کو جنم دیا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ اس خیال نے کیسے جڑ پکڑی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جدید معاشرے میں صرف نیشنلزم ہی نہیں اس کے بطن سے پھوٹنے والی نیشن سٹیٹ خود ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ موجودہ حالات میں نہ اس کے بغیر گزارہ ہے نہ اس کی خرابیوں سے مفر۔ ہمارے ہاں اس پر بات کرنے والے مقابلے میں مثال کے طور پر خلافت کا تصور لاتے ہیں تو آدمی سوچتا ہے کہ امہ کے اتحاد کے چکر میں پاکستان کا کیا بنے گا وہ بھی تو ایک نیشن سٹیٹ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی ترکیب خاص ہے۔ وہی یعنی خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ اقبال کے ہاں اس کا جواب موجود ہے مگر میں اتنی دور نہیں جانا چاہتا جب 1920ء میں 42اقوام نے مل کر جمعیت اقوام یا لیگ آف نیشن بنائی تھی تو گویا قوم کے تصور کو مخصوص معنی دے دیے تھے۔ جغرافیے میں بٹی ہوئی انسانیت پا سپورٹوں اور ویزوں کے جھنجھٹ میں پڑ گئی۔ ہمارے اقبال نے اس پر کیا خوبصورت بات کی ہے ع جمعیت اقوام یا جمعیت آدم یعنی اس پر خوش نہ ہو جائو کہ قوموںمیں اتحاد ہو گیاہے اس کا مطلب ہے انسان پہلے قوموں میں بٹتا ہے۔ پھر اتحاد کرتا ہے۔ اصل اتحاد وہ ہے جو انسانوں کے درمیان ہو قوموں کے درمیان نہیں۔ جی جمعیت آدم کا یہی مطلب ہے۔ مگر کیا کیا جائے اب دنیا اقوام میں بٹ چکی ہے اوراس کوشش میں ہے کہ قومیں ہی باقی رہ جائیں تو غنیمت ہے۔ ان کی دولت مشترکہ یا یونین وغیرہ بنا لی جائیں یا کوئی اورمقامی اتحاد۔ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہاں بڑی بڑی اقوام کے اندر قومیت کی بنیادیں مضبوط کرنے کی جنگیں جاری ہیں۔ آج آغاز میں جس مضمون کا حوالہ دیا ہے اس میں ایک ممتاز فرانسیسی مفکر ریناں کا قول نقل کیا گیا ہے۔ بہت ہی دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ قوموں کو قوم بننے کے لئے بہت کچھ بھلانا پڑتا ہے۔ اس عمل میں جو باقی بچتا ہے وہ مشترک اثاثہ ہوتا ہے اور یہی قوم کی بنیاد بنتا ہے، مثالیں بے شمار ہیں۔ روس اور امریکہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ روس کے اندر بکھرنے کا عمل تو ہم میں اکثر نے اپنی زندگیوں میں دیکھا ہے۔ یوگو سلاویہ ایک قوم تھی۔ اس میں بوسنیائی مسلمان تھے۔ کروٹس جو کیتھولک عیسائی تھے اور سرب تھے جو آرتھوڈاکس کرسچن تھے۔ یہ یورپ کا ماضی ہے جو یوگو سلاویہ میں اکٹھا ہو گیا تھا۔ کمیونزم نے اس کو اکٹھا باندھ رکھا تھا۔ مارشل ٹیٹورخصت ہوئے اور یہاں تاریخ کی ایسی شدید جنگ چھڑی کہ پوری دنیا اس سے لرز کر رہ گئی۔ وہ جو ماضی بھولے ہوئے تھے وہ زندہ ہو گیا۔
امریکہ میں یوں تو بہت کچھ ہے۔ کالے اور گورے کے فرق نے اس وقت امریکہ کو کیسے تقسیم کیا ہے کہ ساری تہذیب چوکڑی بھول کر رفو چکر ہو گئی ہے۔ کالوں کی شہری آزادیوں کی تحریک تو اب پرانی ہو گئی اب تو سفید فام نسل پرستوں کا دورہے۔ یہ تہذیبوں کے تصادم والا سمیوئیل پی ہنٹگنٹن اپنی ایک کتاب میں اس تلاش میں نکلتا ہے کہ ہم یعنی امریکی کون ہیں۔ آغاز میں ایک فٹ بال میچ سے ہوتا ہے جس میں میکسیکو اور امریکہ کے درمیان ایک جنوبی ریاست میں مقابلہ ہے۔ وہاں کے امریکیوں کی ایک بڑی تعداد میکسیکو کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہے کیونکہ ان کی اصل وہاں سے ہے۔ اسے مشترکہ قومیت تلاش کرنے میں خاصا زورلگانا پڑتا ہے۔ یہ لوگ ماضی کو نظر انداز نہ کر سکے تھے۔
اس نیشنلزم کے اندر بہت سی بحثیں ہمارے ہاں بھی ہیں۔ آخر پاکستان کے قیام کی بحث اور کیا تھی۔ قومیت ہی کی بحث تھی۔ میرے ایک دوست اور ممتاز ماہر عمرانیات ڈاکٹر عبدالقادر خان نے اس پر ایک بڑی مبسوط کتاب لکھ رکھی ہے جس کا آغاز ہی اس بحث سے ہے کہ امت، ملت اور قوم میں کیا فرق ہے اور یہ جو ہم انگریزی کا نیشن استعمال کرتے ہیں وہ کس معنی میں ہے۔
ویسے ہم تو ذات برادری کے معنوں میں بھی قوم کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ ساری بحثیں اضافی ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ آپ کی بحث کا پس منظر کیا ہے۔ آپ کن معنی میں نیشنلزم " ہیومن ازم، فیمن ازم کو لیتے ہیں۔ یاد آیا جب ہمارے ہاں اس feminismکا چرچا ہوا تو ایک طرف وومن لب کی بات ہوتی تھی تو دوسری طرف وومن Emancipationکا لفظ استعمال ہوتا۔ ہمارے پس منظر میں تو خیر یہ اس سے بھی طویل تر پس منظر رکھتی ہے دل تو کرتا ہے ایسے آٹھ دس تصورات پر الگ الگ قاعدے مرتب کئے جائیں۔ یہی کوئی سو دو صفحات پر مشتمل قاعدہ۔ ہمارے ذہنوں میں بہت فتور ہے۔ ہم لبرل ازم، روشن خیال انفرادیت سب لفظ اس طرح بولتے ہیں جیسے اس کا کوئی پس منظر نہ ہو۔ کشمیر نے مشرف کو ماڈریٹ اینلائٹنمنٹ کا لفظ سکھایا مگر یہ نہیں بتایا کہ تاریخ میں یہ دونوں لفظ کب کب اور کس کس مفہوم میں استعمال ہوتے تھے۔ صرف اتنا کہوں گا لفظوں سے ہشیار، ان کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہوتی ہے جس ے ایک حصہ کو اپنانے کے لئے بہت کچھ بھلانا ضروری ہوتا ہے امید ہے کہ اس قلم برداشتہ لکھی ہوئی سطروں سے چند باتیں تو واضح ہو گئی ہوں گی۔