اللہ کے بندوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ خود کو اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رکھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے ایک جگہ لکھا ہے کہ خاندان چشتیہ کے ملفوظات میں ہے کہ ہر وہ شخص جس کا نام بادشاہ کے دفتر میں لکھا گیا، اس کا نام حق سبحانہ کے دفتر سے نکال دیتے تھے۔ اس سلسلے میں سب سے خوبصورت رویہ بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا ہے۔ انہوں نے دلی اس لئے چھوڑنا ضروری سمجھا کہ وہاں اہل اللہ دربارداری کرنے لگے تھے۔ بابا صاحب انہیں روکتے تھے۔ ایک بار ایک بہت ہی جید بزرگ جنہوں نے خود کومنصب داروں کے قریب کر لیا تھا، اسی بنا پر مشکل میں پھنس گئے۔ لوگوں نے بابا صاحب سے درخواست کی کہ اس کے لئے کچھ کیا جائے۔ بابا صاحب نے کیا خوبصورت انکار کیا۔ فرمایا"ہر وہ درویش جو بادشاہوں اور امیروں سے اختلاط کا دروازہ کھولتا ہے، اس کیعاقبت خراب ہوتی ہے اور معذرت کرلی۔ ایک جگہ تو اس حوالے سے بابا صاحب کے بہت ہی سخت الفاظ مرقوم ہیں۔ دلی میں اس وقت بڑے نیک نام بادشاہ موجود تھے، مگر حضرت نظام الدین اولیا ؒنے ایسا خانقاہی نظام وضع کیا جو دربار سے الگ تھلگ تھا۔
یہ سب باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ ان دنوں حضرت طارق جمیل کی دعائوں کا بہت تذکرہ ہے۔ میں یہ چند سطریں ان کی شان میں گستاخی کے لئے نہیں لکھ رہا بلکہ اتمام حجت کی خاطر ایسا کر رہا ہوں۔ ویسے میں کیا اور میری حیثیت کیا۔ یہ نہیں کہ درویشوں کے رویے اس سے الگ نہ رہے ہوں گے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ہم عصر حضرت رکن عالم جب دلی دربار میں آئے تو حضرت نظام الدین نے شہر سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ حضرت رکن عالم کی پالکی درخواستوں سے بھری ہوئی تھی جو لوگوں نے اپنے اپنے کاموں کے سلسلے میں دے رکھی تھیں۔ وہ دربار ہی کے لئے آئے تھے یہ سب درخواستیں اس خاطر تھیں کہ لوگوں کی شکلیں آسان ہو سکیں۔ ایک اور رویہ تھا جب حضرت مجدد الف ثانی نے بااثر لوگوں کو خطوط لکھے اور فوج میں مجبوراً رہ کر لوگوں میں تبلیغ کی۔ ہر قسم کا رویہ ہے جس کے الگ الگ معانی ہیں۔
گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل کی ایک تصویر چھپی کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں وزیر اعظم سے مل رہے ہیں۔ کسی نے فیس بک پر یہ تصویر لگا کر لکھ رکھا تھا: آپ کی کیا رائے ہے۔ میں نے ایسے ہی لطف لینے کے لئے لکھا دیا کہ عمران خان یا طارق جمیل؟ کس کے بارے میں کسی شناسا نے جواب میں لکھا کہ جناب آپ کی رائے درکار ہے۔ مذاق میں نہ ٹالئے۔ دوبارہ عرض کیا کہمیں صوفیا کے اس عقیدے کا قائل ہوں کہ اللہ اللہ کو اہل اقتدار سے دور رہنا چاہیے۔ میرے پیش نظر بالخصوص حضرت بابا فرید کا رویہ تھا جنہوں نے اس خطا پر ایک بزرگ کی سفارش تک کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
ویسے ایک نکتہ ہے حضرت مولانا صوفی نہیں ہیں۔ مبلغ ہیں۔ وہ خود کو اسی حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ دعوت کا کام تو کہیں بھی ہو سکتا ہے اور اس پر اعتراض بھی نہیں ہے کہ وہ کسی اداکارہ کو بیٹی بنائیں یا دعوت حق کے لئے کہیں بھی جائیں۔ اگرچہ یہ کام بھی مشکلات لاتا ہے۔ ان سے پہلے یہ کام مولانا اکرم اعوان کیا کرتے تھے۔ ویسے میری تو ان سے بھی نیازمندی تھی۔ اس موقع پر بھی مجھے حضرت نظام الدین ؒکا رویہ یاد آیا۔ ان کے بارے میں تاریخ فیروز شاہی میں درج ہے کہ ایک زمانے میں انہوں نے بیعت کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ وہ گناہگاروں کو خرقہ پہناتے اور ان سے توبہ کراتے اور خود اپنے ارادے سے قبول کرتے۔ ہر شخص خود کو حضرت کا مرید سمجھتا، اس لئے بہت سے ناکردنی باتوں سے پرہیز کرنا۔
میں نے کہیں یہ بھی دیکھا ہے کہ حضرت سے جب یہی بات کہی گئی تو انہوں نے یہی جواب دیا لوگ مری نسبت کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے باز رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان بزرگوں کی نسبت پر کبھی شک نہیں کیا جو تبلیغ کی نسبت سے ایسے لوگوں تک بھی جاتے ہیں جنہیں عام دنیا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی اگرچہ اس میں خطرات بہت ہوتے ہیں۔
اس وقت بات مگر ایوان اقتدار سے اہل اللہ کے رابطوں کی ہے، پھر ان کی تعریف و توصیف کی ہے۔ حضرت مولانا کا عمران خاں کی حمایت میں کھلم کھلا گفتگو کرنے کا رویہ بہت سے لوگوں کو کھلتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں کابینہمیں بیٹھ کر آپ نواز شریف کے لئے بھی ایسی دعائیں کرتے تھے۔ مجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ البتہ بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ انہوں نے ہی پڑھائی تھی۔ اگرچہ مجھے علم ہے کہ مسلک کے لحاظ سے میاں صاحبان بالکل مختلف لوگ ہیں۔ بہرحال میں نے اکثرانہیں اہم لوگوں کے جنازے میں نماز پڑھاتے دیکھا ہے۔ یہ بھی سعادت ہے جو خدا دے دیتا ہے۔ کسی نے اس پر کہا کبھی کسی غریب آدمی کے در پر بھی انہیں دیکھا ہے۔
میں ان سے سب سے پہلے کئی برس پہلے روشناس ہوا تھا جب اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کا دعوت نامہ ملا کہ چیف منسٹر ہائوس میں مولانا طارق جمیل مختصر سے اجتماع سے خطاب فرمائیں گے آپ بھی تشریف لائیں۔ جانے میں کیوں کھٹک گیا۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں۔ سچ مچ بے خبر تھا بتایا گیا یہ آج کل فنکاروں وغیرہ اور ایسے ہی طبقات میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اس میں یہ خیال رہے کہ بابا صاحب نے یہ بات ایک ایسے شخص کے بارے میں کہی جو نامور بزرگ سمجھے جاتے تھے۔
اس دن سے میں مولانا کو بہت غور سے سن رہاہوں۔ خاص کر ان کی دعائوں کو۔ میں ادب کا طالب علم ہوں۔ کہا جاتا ہے اسلوب ہی انسان ہے جس تحریر میں خطابت کا عنصر آ جائے۔ مجھے اس میں مصنوعی پن دکھائی دیتا ہے۔ تقریروں کو ذرا اور طرح سے جانچتا ہوں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کو ہم نے سنا نہیں مگر ان کے انداز سے متاثر ہونے والوں کو سنا ہے۔ وہ دوسری چیز ہے۔ مشائخ اور اللہ والوں کو سادگی سے دعائیں مانگیں دیکھا ہے ان میں رقت ہو تو بھی نہ ہو تو بھی مگر ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آسمانوں کے کنگروں کو بھی ہلا کر نہ رکھ دیتی ہو۔
ہاں ایک بات سخت گسترانہ آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا ایک ایسی جماعت کے رکن ہیں جو سیاست سے دور رہتی ہے۔ یہ بھی واقف ہوں کہ تبلیغی جماعت نے ایک طویل عرصے تک انہیں اپنا پلیٹ فارم نہیں دیا۔ اس سے بھی واقف ہوں کہ اس کے سابقہ امیر حاجی عبدالوہاب صاحب سے ان کی بنتی نہ تھی۔ ایک آدھ بار حویلی کی بیٹھک میں بات اتنی بڑھ گئی کہ بعد میں حاجی صاحب کو اپنے حامیوں کو اپنی بصیرت اور مصلحت کی وجہ سے قابو کرنا پڑا۔ چلیے یہ تو اندرونی معاملہ ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ تبلیغی جماعت ایک غیر سیاسی جماعت ہے۔ اس لئے آپ کم از کم سیاست سے باز رہیں شاید آپ اس کے اسرار درخور سے واقف نہیں۔ اس باب میں گستاخی نہ ہو تو آپ سے پہلے اہل اللہ نے دستور حیات گویا یہ کہہ کر مرتب کر دیا تھا کہ یہ زمانہ وحشت گزر رہا ہے۔ حکمران طبقے کی مخالفت کی جائے نہ موافقت۔ مگر یہ ابتدا تھی۔ انتہا میں نے بتا دی ہے۔ یہ کم سے کم شرط تھی۔ چلیے اس پر عمل کر لیجیے۔