منو بھائی سے مری آشنائی پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ وہ ایک نظریاتی ہنگامہ خیزی کا زمانہ تھا، مگر پاک ٹی ہائوس ایک ایسی جگہ تھی جہاں سب ایک میز پر بیٹھ کر چائے پیتے تھے۔ میں کئی برس کراچی میں گزار کر واپس لاہور آیا تو منو بھائی کو ہمیشہ کی طرح فعال پایا۔ سندس کے نام سے ایک ادارہ نظر آیا جو مرے خیال میں ایک طرح کا بلڈ بنک ہو گا۔ فنکار اور اداکار جو این جی او بناتے ہیں اس پر اہل نظر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، تاہم مجھے یقین تھا کہ ایک ادیب اور دانشور کا بنایا ہوا یہ ادارہ ضرور نیک نیتی پر مبنی ہو گا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ شوق پورا کرنے کے لئے یہ کام ادیبانہ سست روی سے چل رہا ہو گا تاآنکہ مجھے اس کے بارے میں معلومات حاصل ہونے لگیں، مگر کبھی اس کے دفتر جانا نہ ہوا تھا۔
خدا بھلا کرے ضیاء الحق نقشبندی کا وہ مجھے ایسے کاموں کے لئے مدعو کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے لالچ دیا کہ سرفراز شاہ صاحب آ رہے ہیں، آپ آ جائیں تو لطف رہے گا۔ میں نے سمجھا کوئی تقریب ہو گی، مگر وہاں تو شاہ صاحب قبلہ کو صرف ادارہ دیکھنے اور اس کے لئے دعا کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچا تو خالد عباس ڈار بھی موجود تھے۔ یقین جانیے مری تو آنکھیں کھل گئیں۔ میں ہر سال ان اداروں کا تذکرہ کرتا ہوں جو زکوٰۃ اور امداد کے مستحق ہیں۔ ان میں کسی کی مرے ساتھ کوئی پی آر نہیں ہے۔ لیکن سندس کو شاید اتنا اہم نہ سمجھ کر قدرے نظر انداز کرتا رہا ہوں۔ یہاں آ کر حیرانی ہوئی کہ یہ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ ہے۔ ادارے کے صدر محمد یٰسین خاں بھی موجود تھے اور ڈار صاحب نے مجھے ادارے کے مختلف شعبے دکھائے۔ کیا بین الاقوامی معیار کا بندوبست ہے اور سب فری۔ یہ جینیاتی تجزیے کی لیب ہے۔ ایک چھوٹی سی جگہ پر بہت سلیقے سے جدید مشینوں سے سجی ہوئی۔ انچارج نے ایک بوتل میں پڑی مائع کی طرف اشارہ کیا کہ امریکہ سے یہ محلول ہزاروں روپوں میں آتا ہے۔ ہم نے یہ ڈھائی سو روپے میں بنا لیا ہے۔ انہوں نے بتایا انہیں تربیت کے لئے دوبار امریکہ بھیجا گیاہم سب کچھ عالمی معیار کے مطابق یہاں کوڑیوں کے مول کر رہے ہیں۔ خون کی منتقلی کا بندوبست جس کمرے میں تھا اس میں ایسی خوبصورت آرام دہ نشستوں کا بندوبست تھا کہ یقین نہ آتا تھا کہ یہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے اور وہاں بھی بالکل مفت۔ یہاں علاج ہی نہیں ہوتا، تحقیق بھی ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پی ایچ ڈی عملہ مصروف کار ہے۔ ایکچھوٹے سے کمرے میں ڈینٹل سرجری کے جدید آلات تھے۔ بتایا کہ چونکہ تھلسیمیا کے مریض کا خون نہیں جمتا، اس لئے ڈر ہوتا ہے کہ دانتوں کے علاج میں کہیں خون ضائع نہ ہو جائے۔ اس لئے اس کا بندوبست یہیں کر دیا گیا ہے۔ ایک کمرے میں ری ہیبلی ٹیشن کا شعبہ تھا۔ وہاں جواں لڑکے لڑکیاں بھی تھے جو ایک عرصے سے اس ادارے کے زیر علاج ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب ان لوگوں کا ارادہ ہے کہ یہ فیروز پور روڈ پر ایک بڑے رقبے پر 10منزلہ ہسپتال تعمیر کریں۔ ان کے سنٹر ملک کے مختلف حصوں میں چل رہے ہیں اور بہت کامیابی سے لوگوں کی زندگیاں بدل رہے ہیں۔
اوپر میں نے جس جینیاتی مولیکول ٹیسٹ کا ذکر کیا، اس کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ یہ بیماری عام طور پر ان بچوں میں ہوتی ہے جن کے ماں باپ کزن ہوتے ہیں یا جن کے خون آپس میں متصادم ہوتے ہیں۔ اگر شادی سے پہلے ٹیسٹ کرا لئے جائیں تو پتا چل سکتا ہے کہ یہ جوڑا صحت مند بچے پیدا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ یا ان کی شادیاں ایک حوالے سے کرنے کے بجائے الگ الگ کی جائیں۔ خالد عباس ڈار نے بتایا کہ یہ بیماری مالدیپ اور سری لنکا میں عام تھی جہاں انہوں نے اس پر قابو پا لیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ پھیل رہی ہے۔ یہاں پہلے تو ایسے کسی ٹیسٹ کا رواج ہی نہیں ہے۔ جن کو شعور ہے وہ بھی ایسے مہنگے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔ یہاں یہ فری ٹیسٹ کر کے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ یہ جوڑا صحت مند اولاد پیدا کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
میں اس سے پہلے کراچی میں رہنے کی وجہ سے صرف فاطمید ہی سے واقف تھا۔ جنرل معین الدین حیدر اس کے لئے بڑے فعال تھے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ملک کے اس حصے میں ایک ادیب و دانشور کا لگایا ہوا یہ پودا بہت تنآور درخت ہے۔ جس کمرے میں ہم بیٹھتے تھے، وہاں چیئرمین منو بھائی کے نام کا بورڈ آج بھی لگا ہوا ہے۔ یہ گویا صدقہ جاریہ ہے جو ان کے نام سے جاری و ساری ہے۔ اب جب اس کی توسیع و ترقی کا مرحلہ درپیش ہے۔ امید ہے کہ اہل فکر و دانش ہی نہیں، اہل ثروت بھی آگے بڑھ کر اس کارخیر میں حصہ لیں گے۔ یہاں جوہر ٹائون میں فیصل بنک میں ہمارے ایک دوست دانش میر منیجر ہیں۔ وہ ہر سال اپنے دوستوں سے رقم اکٹھی کر کے سندس فائونڈیشن کو میٹریل چھپوا کر دیتے ہیں۔ اب یہی ضیا نقشبندی کو دیکھ لیجیے، وہ بھی یہاں فعال ہیں۔ یہ بھی بڑی خدمت ہے کہ سرفراز شاہ صاحب جیساصاحب نظر یہاں قدم رنجہ فرمائے اور اداروں کی بہتری کے لئے دعا کرے اور مرے جیسے فقیر بھی یہاں آ کر ششدر رہ جائیں۔ ہمارے ملک میں کئی بیماریاں ایسی ہیں جو ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ عام ہیں۔ اس میں خون کی خرابی کی یہ بیماریاں ہیں جن کا علاج بہت مہنگا ہے۔ اس طرح گردوں کی تکلیف کے لئے ڈائیلائسز کا نظام ہے ہے جو ایک زمانے میں نواز شریف نے مفت شروع کیا تھا۔ پرویز مشرف کے آتے ہی بند کر دیا تھا کہ ہمارے پاس ابھی ان کاموں کے پیسے نہیں ہیں مگر اہل خیر پھر بھی اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کراچی میں فاران کلب میں ایک ایسا ہی سنٹر ہے جسے ہمارے دوست غلام احمدبمبل چلارہے ہیں۔ وہ بھی کمال کے مخیر اور فیاض انسان ہیں۔ ضیاء نقشبندی کسی کام پر لگ جائے تو کر کے ہی رہتا ہے۔ اسے بھی مرا مشورہ ہے کہ کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ siutسے استفادہ کرے جہاں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ایسا کام کر دکھایا ہے کہ پاکستان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کام میں استعمال ہونے والا ایک سیال بھی بہت مہنگا ہے جو انہوں نے بہت کم لاگت سے تیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے 37ہزار کے ٹیسٹ کو ڈھائی سو روپے میں کر دیا تو ہو سکتا ہے کہ اس کارخیر میں بھی انہیں مدد ملے۔
میں نے سنا تھا کہ کوئی صاحب لاہور میں کوئی کینسر ہسپتال کھولنے والے ہیں۔ وہ مریض جو بیماری کے تیسرے درجے پر ہوں۔ وہ کہاں جائیں، سنا ہے وہ ایسا بندوبست کرنے جا رہے ہیں کہ مریض جس حالت میں بھی کیوں نہ ہو، اس کی دیکھ بھال کی جائے گی اس ملک میں بہت سے لوگ ہیں جو انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے دن رات وقف کر چکے ہیں۔ ملک کا جو حال ہو گیا ہے، وہاں غریب آدمی ڈسپرین کی ایک گولی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہم سرکاری ہسپتال کے نظاموں میں نئے نئے تجربے کررہے ہیں۔ سیاست نے آنکھیں بند کر دی ہیں اور ہم دیکھ نہیں پاتے کہ عام آدمی کے دکھ کیا کیا ہیں، بہتر ہے کہ آگے بڑھ کر ایسے سب اداروں سے تعاون کریں اور اس کا اجر صرف خدا سے مانگیں۔