کہتے ہیں افغانستان کی جنگ ختم ہو گئی ہے۔ چالیس سال پہلے اس کا آغاز ہوا تھا۔ میری نسل تاریخ کے اس عظیم و طویل تجربے سے بڑے درد اور بڑی تمنائوں کے ساتھ گزری ہے۔ کیا میں اس تجربے کو گرفت میں لے سکا ہوں۔ میں کہا کرتا ہوں جب میں صرف اخبار نویس تھا، لے دے کر کالم لکھا کرتا تھا تو دانشور کہلاتا تھا اور جب ٹی وی کی چکا چوند نے آنکھیں چندھیا دیں تو میں تجزیہ نگار کہلانے لگا۔ میں اور میری نسل نے اس دوران بہت کچھ لکھا اور کہا مگر کیا ہم اس کا حق ادا کر سکے۔ آج کل تو ہر روز اس پر چار چھ کالم ضرور چھپتے ہیں، بہت کچھ کہا بھی جاتا ہے۔ اندازے اور تجزیے کیے جاتے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال پر بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ پرانی تاریخ، نئے اندازے، اس قوم کی عظمتیں، امریکیوں اور روسیوں کی ہزیمتیں لیکن شاید ہم اصل حقیقت کے بارے میں یکسونہیں ہیں۔ افغانستان کی صورت حال ہے کیا۔ ہو سکتا ہے مجھے یہ شکایت ہو، اس پر جم کر نہیں لکھا گیا۔ ہو سکتا ہے میرے لیے اس موضوع پر بات کرنے والے سارے ہی ماہرین قابل اعتبار نہ ہوں۔ آج بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ امریکہ کی اصل نیت کیا ہے۔ کیا یہ صدر ٹرمپ کا انتخابی سٹنٹ تو نہیں؟ کیا امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ اس عمل کے ہم رکاب ہے۔ افغان حکومت اور طالبان میں صلح ہو جائے گی؟ ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلا بیانات تو ابھی سے شروع ہو گئے ہیں۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر گہر ہونے تک۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر میرا دکھ ذرا اس سے سوا ہے۔ چلیے دکھ نہ کہیے مسئلہ کہہ لیجیے، ٹھیک ہے ہم اس مسئلے کے ماہر بن کر اپنے سروں پر کلغی سجاتے رہتے ہیں۔ چلیے ہم اس پر جم کر نہیں لکھ سکے، مگر عرض کیا کہ میرا سوال اس سے مختلف ہے اور زیادہ یہ کہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہمارے سروں پر سے گزر چکا اور ہم اس پر کوئی ادب تخلیق نہیں کر سکے۔ آپ سوچیں گے عجیب آدمی ہے۔ ادھر آگ و خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ انسانیت سسک سسک کر مر رہی ہے اور تمہیں ادب کی سوجھی ہے۔ آپ کچھ سمجھ لیجیے، میرا سوال یہی ہے، میرے سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ تجربہ ہماری روحوں کے اندر نہیں اتر پایا۔ ایسا نہ ہو تو سب کچھ اکارت جائے، یہ آپ کو اندر سے بدل نہیں پاتا۔ میں ایک طویل عرصے تک ویت نام کو دیکھتا رہا۔ اتنے بڑے عالمی المیے سے گزرنے کے بعد یہ قوم دنیا کے لیے ایک مثال کیوں نہ بن پائی۔ کچھ نہیں تو تب جب امریکہ راضی ہوا۔ ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ آج سوال ہے کہ کابل میں جو ایک سول سوسائٹی ابھر چکی ہے کیا وہ چالیس سال پرانے افغانستان کے ساتھزندگی گزار سکے گی۔ تباہ حال معیشت کے ساتھ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے گی۔ یہ سب سوال اپنی جگہ جس کے جواب ہماری دانشوری اور تجزیہ نگاری ڈھونڈتی رہے گی۔ ہو سکتا ہم میں کوئی اولوالعزم شخص اس پر کوئی قابل قدرکام بھی کر دے مرا مطلب ہے تحریری کام، ہو سکتا ہے اس تحریری کام کو پذیرائی بھی مل جائے۔ مگر اس عظیم و طویل تجربے کی رو میں اترنے والا تخلیقی کام کیوں نہیں ہو پایا، یا ہوپا رہا۔ یہ سب کچھ جو ہم کرتے ہیں وہ سیاست ہوتی ہے، میں اس کی تلاش میں ہوں جسے تجربہ کہا جا سکے۔
یہ نہ کہہ دیجیے، ہم اس کے قابل نہیں ہیں۔ تقسیم ہند کا تجربہ بہت بڑا تجربہ تھا، ہمارے تخلیقی ذہن نے اسے محفوظ کر لیا اور برسوں محفوظ کرتا گیا بلکہ ایک لمبے عرصے تک ہم اس تجربے کے سحر سے نکل ہی نہ پائے تھے۔ جب تک یہ تجربہ ہمیں گدگداتا رہا، ہم اپنا کھوج لگاتے رہے۔ ٹھیک ہے ہم بعد میں تجزیہ نگاری اور دانشوری میں پڑ گئے۔ اس کی تخلیقی جیت ذرا ماند پڑ گئی۔ مگر ہم اب تک اس تجربے کے سہارے جی رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم افغانیوں میں سے کسی نے اس تجربے پر کچھ کام کیا ہے۔ کوئی شاعری، کوئی ناول، کوئی افسانہ۔ اگر ایسا ہے تو یہ کس پائے کا ہے اور کیا یہ چھپ سکا ہے۔ نہیں چھپا ہے تو بھی کوئی فرق نہیں، اصل بات تجربے کا اظہار پانا ہے۔
ہمارے ہاں کشمیر پر بھی ایسا نہیں ہوا، جب تحریک پاکستان کا زمانہ تھا تو کشمیر زندہ تھا۔ منٹو، کرشن، بہت سے نام تھے جنہیں ہم پکار سکتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا، کسی نے کہا قوم کی تاریخی صلاحیتیں اس میڈیم کے ذریعے جلا پاتی ہیں جو اس قوم میں مقبول و مضبوط ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں میں مصوری کی جگہ فنِ تعمیر نے لی مسلمانوں کا ٹیلنٹ اس میں جلا پاتا تھا۔ اس وقت میڈیا سکرین ہے۔ فلم، ٹی وی، شاید ہم بوجوہ اس میں اظہار نہیں کر پاتے، کوئی ہوتا تو کشمیر اور افغانستان پر ایسی فلمیں یا ڈرامے بنتے کہ دنیا حیران رہ جاتی۔ فلم ہماری کمزوری ہے، ڈرامہ ہم کب کا چھوڑ چکے۔ ناول اور شاعری، معلوم نہیں کیا ہوا۔ اس میں اہم نہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ کے اندر تخلیق کا جوہر ہے یا نہیں۔ اب یہ نہ پوچھ لیجیے یہ کیسے پتا چلے گا۔ پتا چل جائے گا۔ جب دوسری جنگ عظیم میں فرانس پر جرمنی نے قبضہ کر لیا۔ ایک طرف ڈیگال ملک کی آزادی کے لیے لندن میں جا پہنچا۔ دوسری طرف فرانسیسی ادب پر اتنا بڑا انقلاب آیا کہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ باقیوں کو چھوڑئیے ایک سارترکیا کم تھا۔ ایک فہرست ہے۔ کچھ وہ جو معطون ٹھہرے اور کچھ وہ جو سرخرو ہوئے۔ اس وقت پورا عالم اسلام تلپٹ ہے۔ عراق، شام، لبنان، لیبیا، ایران کیا کیا جبر کی داستانیں لکھی جانا چاہیے تھیں۔ ایک ترکی کے بارے میں سنا ہے بہت کچھ لکھا گیا۔ کس سے پوچھوں، صرف فرخ سہیل گوئندی پر تو اعتبار نہیں کر سکتا۔ تحسین فراقی سے پوچھوں گا یا اظہارالحق جانتے ہوں گے کہ ایران میں کچھ ہوا یا نہیں۔ وہ ایک تخلیقی قوم ہے مگر کہیں وہ بھی تو اپنے اندرونی جبر کا شکار تو نہیں ہو گئی۔ ایک بار مجھے ن م راشد نے چند ایرانی جریدے اس ہدایت کے ساتھ بھیجے تھے کہ دیکھو ایرانی کس طرح شاعری میں نئے عہد کو نمایاں کر رہے ہیں۔ انقلاب سے بہت پہلے سارا عالم اسلام تلپٹ ہو گیا، مجھے نہیں معلوم کہ تخلیقی سطح پر کیا ہوا۔ جب خلافت اسلامیہ ٹوٹی تو ہم نے برصغیر میں کئی سطح پر بہت کچھ کیا۔ اپنے عثمانی حکمرانوں کا مذاق بھی اڑایا۔ انگریز کا جبر بھی تو تھا۔ ترکی والوں نے جو کچھ کیا، اس کا تجزیہ ہم نے کب کیا۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ کہے اور ضرور یہ کہے گا کہ سلطنتیں مٹ رہی ہیں، ملک تباہ ہو رہے ہیں، انسان مر رہے ہیں اور تمہیں ادب کی پڑی ہے۔
مجھے ادب کی نہیں پڑی، صرف اس بات کی فکر ہے کہ کہیں ہماری تخلیقی صلاحیتیں مر تو نہیں گئیں اور ہر بات جاننے کا یہی ایک بہانہ ہے جو مجھے آتا ہے۔ میرے سامنے سوال ایک ہی ہے جو شاعر کے سامنے تھا۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
مگر یہ کام بہت بڑا ہے اور نہیں تو ہم نے اپنے اوپر گزرنے والے المیے پر دو ایک فلمیں ہی بنا لی ہوتیں، ایک آدھ ڈرامہ ہی لکھ لیا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سپانسر کر دے تو یہ کام ہو جائے، مگر سپانسر کرنے سے کیا تخلیق ہو سکتی ہے۔ میرا سوال بے تکا ہی سہی، مگر
یہی سوال ہے راز غم زمان و زمیں
حضور اس کا جبیں پر شکن جواب نہیں
دنیا کی بڑی قومیں اس بات کا جائزہ لیتی رہتی ہیں کہ ان کے ہاں کہیں ذہنی تخلیق و اختراع کے سوتے خشک تو نہیں ہو رہے۔ ان کا نظام تعلیم یا نظام معاشرت اس جذبے کو زندہ رکھے ہوئے ہے یا نہیں۔ امریکیوں کو آج کل یہی تشویش ہے کہ ان کے نظام تعلیم میں Innovotionیورپ یا جاپان سے کم ہو رہی ہے۔ کیا تدبیر کی جائے، بچوں کو کس راہ پر ڈالا جائے۔ یہ لمبا موضوع ہے۔ ہم نے سب کچھ تباہ کر لیا۔ لگتا ہے اس کے ساتھ یہ اندازہ میں نے نہیں لگایا کہ کہیں ہمارے اندر کا تخلیق کار بھی اپنی موت آپ مر تو نہیں گیا۔ یہ اندازہ لگانا بہت ضروری ہے۔ یہ تخلیق کار زندہ ہے تو ہم کئی دنیائیں تخلیق کر لیں گے، وگرنہ ہم سب کچھ لٹا چکے ہیں۔