یہ پہلی تبدیلی ہے جو آنکھوں میں جچ رہی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ایسی اتھل پتھل ہوئی تھی کہ لگتا تھا انقلاب آ گیا ہے۔ جہاں بس چلتا ہے۔ بڑے چائو سے لایا ہوا آدمی بدل دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں انتظامی سربراہ اور کوتوال اعلیٰ کئی بار تبدیلی کی زد میں آئے۔ جو بچا تو ایک عثمان بزدار۔ اللہ ان کا اقتدار سلامت رکھے۔ مگر یہ تبدیلی بہتوں کو کھا گئی۔ اب جو تبدیلی آئی ہے وہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ پہلے دن ہی سے جو میڈیا ٹیم بنائی گئی تھی وہ دھینگا مشتی کے لئے تو اچھی تھی مگر حکومت کا امیج بنانے میں ہمیشہ ناکام رہی۔ عمران خان نے پہلے روز ہی وزیر اعظم ہائوس میں ایک میڈیا گروپ تشکیل دے دیا تھا۔ جن میں کہا جاتا ہے چار افراد شامل تھے۔ طاہر اے خاں، یوسف بیگ مرزا، افتخار درانی اور نعیم الحق۔ شاید طے یہ ہوا تھا کہ صبح صبح یہ کمیٹی مشاورت کر کے طے کرے گی کہ آج کس محاذ پر کون سا گولہ بارود استعمال کرنا ہے۔ پتا نہیں عمران خان نے اس کمیٹی کو ٹاسک دیا تھا یا اس کمیٹی نے طے کیا تھا کہ دشمن کو بیک فٹ پر رکھنا ہے۔ سارا دن فواد چودھری مرکز میں اور پنجاب میں فیاض الحسن چوہان گرجتے برستے رہتے۔ ہو سکتا ہے، یہ پالیسی اس وقت کی ضرورت ہو۔ مجھے نہیں معلوم، مگر نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کی مخالفت بڑھتی گئی۔ جلد ہی اس ٹیم کو تبدیل کرنا پڑا۔ ایوان وزیر اعظم کی ٹیم تو اپنے منطقی انجام کو پہنچی مگر باہر بھی چہرے بدل گئے۔ جب اسد عمر کو بدلا گیا تو انہی دنوں فواد چودھری بھی رخصت ہوئے۔ صوبے میں شہباز گل نام کا ایک نوجوان لایا گیا۔ کہا گیا یہ گویا پڑھا لکھا شخص ہے۔ اس کی چھٹی اس طرح کرائی گئی کہ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ ایوان وزیر اعظم میں بیٹھا ہے۔ ان دنوں پھر منہ پھلا پھلا کر باتیں کر رہا تھا۔ جہانگیر ترین کی طرح کہتے ہیں اس کا بھی کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہے۔
حالات خراب سے خراب ہو رہے تھے۔ ایسے میں حکومت کے امیج کو سنبھالنے کی بہت ضرورت تھی۔ مگر افراد کے بدلنے کے باوجود پالیسی وہی گالم گلوچ کی رہی۔ وفاق میں فردوس عاشق اعوان سے اتنی حماقتیں سرزد ہوئیں کہ اسے کب کا رخصت ہو جانا چاہیے تھا۔ سنا ہے وزیر اعظم کے قریبی حلقے یہ بھی کہتے تھے کہ اس کی "کلاس"نہیں ہے۔ مجھے اس لفظ کے معنی نہیں آتے۔ آتے بھی ہوں تو بیان نہیں کروں گا۔ یہ بھی ایک راز ہے کہ وہ اتنے دن کیسے نکال گئیں۔ شاید عمران یہی انداز پسند کرتے ہیں یا کسی اور کی ضرورت تھی۔ کورونا نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ اس پورے پراسس میں اگرچہ عمران خان سیاسی طور پر مضبوط ہوئے ہیں، مگر یہ احساس شدت اختیار کر گیا کہ ہمارے سویلین حکومت کے پاس قوت فیصلہ ہی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے الجھی یا یہ ان سے جا ٹکرائے، مگر اس بات کا شدت سے احساس پیدا ہوا کہ اس ملک کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔ سول قیادت نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں جو کسی بحران میں قوم کو متحد رکھ سکے۔ ایسے میں چند اقدامات ہوئے جو معنی خیز تھے۔
قومی سلامتی کونسل کا اجلاس وبا کے مسئلے پر بلایا گیا۔ ایک کمان اینڈ کنٹرول اتھارٹی(سنٹر) بنا دیا گیا جسے ہیڈ تو ایک سویلین کر رہا تھا، مگر باقی سب کچھ سینئر فوجی افسران کے ہاتھ میں تھا جن میں دو جرنیل تھے۔ ساتھ ہی اعلان ہوا کہ دفعہ 245کے تحت فوج نے چاروں صوبوں میں کورونا کے حوالے سے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ پورے عمل کا اتنا اثر ہوا کہ ملک میں ہم آہنگی کا تاثر پیدا ہوا اور یہ لگنے لگا کہ ملک لاوارث نہیں ہے۔ میں نے کہیں لکھا ہے کہ اس پر شاید ہماری زندگیوں میں پہلی بار ہوا ہو کہ اس احساس نے جنم لیا کہ فوج نے خوامخواہ ذمہ داری نہیں سنبھالی۔ مری طرح کے جمہوریت کے چمپئن اپنی اپنی تلواریں سونت کر کھڑے نہیں ہو گئے۔ یوں لگا کہ ملک محفوظ ہو گیا ہے۔
ظاہر ہے اس پورے عمل نے تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کیا۔ ایک دن خبر آئی کہ کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کر دی گئی ہے اور یہ سب چینی، آٹا بحران کا شاخسانہ ہے۔ پہلے رپورٹ نشر کی گئی یا لیک کرائی گئی۔ پھر کمال کی تبدیلیاں کی گئیں۔ بعض جگہ تو تبدیلی کر کے بہتر محکمہ دے دیا گیا۔ کسی کو نکال کر اگلے روز دوبارہ رکھ لیا گیا۔ شور یہ مچایا گیا کہ ذمہ داروں کی چھٹی کرا دی گئی، مگر صاف نظر آتا تھا کہ وہ مزید نواز دیے گئے ہیں۔ صرف ایک آدھ قدرے کمزور بندے پکڑے گئے۔ انہوں نے بھی جو اس کی وضاحت جاری کی حکومت کا رہا سہا وقار بھی جاتا رہا۔
اب کہا گیا، انتظار کرو فرانزک رپورٹ کا انتظار کرو۔ یہ 25 اپریل کوآئے گی۔ پھر دیکھنا، کوئی بچ نہیں پائے گا۔ درمیان میں ذیلی خبریں بھی آتی رہیں۔ بے نامی ٹھیکے داروں نے لوٹ لیا۔ آڑھتیوں کا ایک الگ غیر رجسٹرڈ مافیا ہے۔ آخر وہ دن بھی آ گیا، مگر کچھ نہیں ہوا۔ ایسے میں وہ تبدیلی آ گئی جس کا میں تذکرہ کر رہا ہوں۔ پہلی بار پوری میڈیا ٹیم کو ایک امیج کے ساتھ میدان میں اتارا گیا۔ فواد چودھری کے بعد ایک مکمل وزیر اطلاعات کی تقرری ہوئی۔ شبلی فراز اس سے پہلے سینٹ کے چیئرمین کے طور پر اپنا ایک امیج بنا چکے تھے۔ میں ان سے تو واقف نہیں ہوں ان کے والد سے واقف ہوں۔ اس لئے نہیں کہ معروف شاعر تھے۔ بلکہ اس لئے بھی کہ ان سے ذاتی روابط بھی تھے۔ احمد فراز اپنے امریکہ کے آخری دورے بلکہ سفر آخرت سے پہلے کراچی آئے تھے اور وہاں انہوں نے جو دو ایک دعوتوں میں شرکت کی تھی، ان میں سے ایک میرے گھر پر تھی۔ مشتاق احمد یوسفی، زہرہ نگاہ، انور مقصود اچھے اچھے لوگ شامل تھے۔ ان کے بارے میں فقرے بازی بھی کرتا رہتا تھا۔ ایک آدھ یاد آ رہی ہے، مگر یہاں مناسب نہیں ہے۔ اس ادیبانہ نوک جھونک کا غلط مفہوم لیا جائے گا۔ شروع شروع میں ان کی صلاحیتوں کا زیادہ اندازہ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ وہ کھلنے لگے۔ اب تو اسلام آباد کا دبستان صحافت ان کی شان میں رطب اللسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ میڈیا سے اچھے تعلقات بنانے میں مدد گار ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ پڑھے لکھے آدمی ہیں، ان کے چھچھورے پن کی توقع نہیں کرنا چاہیے۔ خبر دینے والے یہ بھی اطلاع دیتے ہیں کہ پہلے شفقت محمود کو اس کام کے لئے کہا گیا، مگر انہوں نے معذرت کی کہ وہ تعلیم ہی میں رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اچھا کیا۔ وہ بھلے اور نستعلیق شخص ہیں۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ میں ان کی رعایا میں ہوں، کیونکہ میرا ووٹ اس حلقہ انتخاب میں ہے جہاں سے وہ منتخب ہو کر آتے ہیں۔
شبلی فراز اکیلے شاید اس میدان میں مشکل محسوس کرتے۔ ان کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی کے طور پر تعینات کر دیا گیا ہے۔ باجوہ صاحب بڑے دھڑلے کے ڈی جی آئی ایس پی آر رہے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی صحافیوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا جو فوجی محکمہ اطلاعات کا عرصے سے ٹوٹا ہوا تھا۔ راحیل شریف کا زمانہ تھا اور نواز شریف کے خلاف توپوں کے دہانے کھلے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان کا یہ امیج بن رہا تھا کہ وہ فوج کے چہیتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے ان مشکل حالات میں کھل کر فوج کی دبنگ نمائندگی کی۔ وہ ایک پروفیشنل آدمی ہیں۔ جب ریٹائر ہوئے تو کوئٹہ میں سدرن کمان کے کماندار تھے۔ اس پوسٹ پر جو بھی آیا ہے اسے بعد میں بھی اہمیت دی گئی ہے۔ جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین بنا دیے گئے۔ جو بلا شبہ ایک حساس اور نازک ذمہ داری ہے۔ اب انہیں جو اطلاعات کا معاون خصوصی بنایا گیا تو ساتھ وضاحت کی گئی کہ وہ یہ کام اعزازی طور پر کریں گے جس کا شاید یہ مطلب ہے کہ وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین بھی رہیں گے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا میڈیا کے روبرو رویہ فردوس عاشق اعوان کی نسبت خاصا مہذب مگر دو ٹوک ہو گا۔ بہرحال لگتا ہے عمران کو اس کام کے لئے مناسب شخص مل گیا ہے۔ شبلی فراز اور جنرل باجوہ کی ٹیم مل کر خاصا مفید اور کارآمد کام کر سکتی ہے۔
میں نے آج ہی ایک فہرست دیکھی ہے جس میں بیس پچیس ایسے اہم لوگوں کے نام ہیں جو آج کلیدی عہدوں پر ہیں مگر جن کا تعلق فوج سے رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ بات کہی جائے گی، مگر کیا کیا جائے آپ کی جھولی میں اگر کھوٹے سکے ہی ہیں تو کم از کم ان حالات میں اتنا تو ہوتا ہے۔ ویسے بھی تمام اہم کار حکومت فوج ہی نے سنبھالے ہوئے ہیں سب سے اہم تو کورونا کے خلاف جنگ ہے۔ اگرچہ کہا یہ گیا ہے کہ جنرل باجوہ کشمیر کے مسئلے پر فضا پیدا کریں گے۔ تبدیلی کے ہم بادشاہ ہیں، مگر سلیقے کی تبدیلی ہمیں ابھی تک نہیں آئی۔ یہ پہلی بار ہے کہ اس تبدیلی کی تعریف ہو رہی ہے خاص طور پر اسلام آباد والے اس سے خوش ہیں۔ میں نے اسے اسلام آباد کا دبستان صحافت کہا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں کے اردگرد خبریں زیادہ کھل کھلا کر سامنے آتی ہیں۔ بہرحال توقع رکھنا چاہیے کہ حالات بہتر ہوں گے۔