کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کے بعد عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ تاہم یہ تبدیلی جزوی ہوتی ہے۔ زندگی کے کسی ایک شعبے کے، کسی ایک حصے کے متعلق ہوتی ہے۔ مگر جو یہ سال گزرا ہے، اس نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ تہذیبی اقدار کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ جدید عہد کے انسان کو اپنی بے بسی کا یوں اندازہ ہوا ہو جیسا اس کورونا کی وبا نے کر دکھایا۔ اس نے اپنی سنت پر بلا امتیاز عمل کیا۔ کسی کا لحاظ نہ رکھا۔ صرف غیروں ہی کو نہیں اپنوں کو بھی نہ چھوڑا۔ انسانوں نے ایک ایسا کلچر بنا رکھا تھا جس میں ملنا جلنا ایک اسلوب حیات تھا۔ انسان فخر کرنے لگا تھا کہ وہ ایک گلوبل ویلیج میں رہتا ہے۔ انفرادی اور ذاتی سطح پر بھی سماجی رابطوں کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ سماجی رابطے ہی نہیں قربت کے سارے قرینے انسان کے لئے لطف کا ذریعہ تھے اور لگتا تھا اچھا اور مہذب انسان ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آیا جائے۔ میں ذرا احتیاط کر رہا ہوں۔ صاف لفظوں میں کہوں، گو یا روحانی اور ذہنی قرب سے اہم ہو گیا تھا۔ ہجر و وصال کے نئے پیمانے وضع ہو گئے تھے۔
ایسے میں شور اٹھا کہ سماجی فاصلے قائم کئے جائیں۔ اس سماجی فاصلے نے کیا کیا فاصلے ناگزیر کر دیے ہوں گے، اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ انسان ایک دوسرے سے دور رہنے لگے۔ مصافحہ اور معانقہ تک جائز نہ رہا۔ اس سے آگے کی بات کیا کروں۔ انسان ایسی صورتوں سے پہلے بھی گزرا ہے۔ ابھی کوئی پرانا قصہ نہیں کہ ایک بیماری نے انسان کو فاصلہ رکھنے پر مجبور کیا۔ ایڈز کی بیماری سے کم از کم چند دن کے لئے یہ تو ہوا کہ کہا جانے لگا کہ جنسی تعلقات کسی غیر سے قائم کرنے سے پہلے سو بار سوچا جائے، یہ آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ مگر انسان نے اس کا علاج بھی ڈھونڈ لیا۔ محفوظ جنسی تعلقات (safe sex) کا طریقہ نکال لیا گیا۔ انسان نے اپنی عادتیں نہیں بدلیں، اتنا کیا کہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم دینے لگا کہ محفوظ جنسی تعلقات کیسے قائم کئے جا سکتے ہیں اور یہ سہولتیں گھر میں فراہم کر دی گئیں۔ تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں اس کا بندوبست کر دیا گیا۔ گویا:
تو شب آفریدی چراغ آفریم
انسان نے راستہ نکال لیا اپنی عادت نہ چھوڑی۔ اب مگر ایک ایسی وبا نے پکڑا ہے جس میں حفاظت کا کوئی فارمولا ایجاد نہیں ہوا۔ صرف یہ کہ ہاتھ دھوتے رہو اور چہرے پر ماسک اوڑھے رکھو۔ وگرنہ سارے رابطے، قرب کے سارے قرینے ترک کر دو۔ نئی تہذیب نے وصل کے جو جو طریقے ایجاد کئے تھے سارے بے کار ہو گئے۔ فاصلہ رکھنا ہی رکھنا ہے۔ اب تہذیب کا بنیادی چلن فاصلے گھٹانا نہیں، فاصلے بڑھانا ہے۔ سیاسی، اقتصادی طور پر تو اس کے جو اثرات بھی ہوئے وہ اپنی جگہ مگر تہذیبی سطح پر ہم ان اقدار سے کٹ گئے جو ہم نے برسوں کی محنت کے بعد بڑے چائو سے بنائی تھیں۔ اپنے سارے ارمان سینوں ہی میں دفن کرنا پڑے۔ یہ تہذیب کا ایک بہت بڑا بحران ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انسان نے اپنی حیوانی جبلت کو ہوسناکی کی حد تک پہنچانے میں جو کام دکھایا تھا، اللہ نے اس عذاب سے اس پر قدغن لگا دی۔ میں ایسا کوئی وعظ نہیں کرنا چاہتا۔ شروع میں عرض کیا تھا کہ میرا مولا نے کسی کا لحاظ نہ کیا۔ نہ اپنوں کو چھوڑا نہ غیروں کو۔ خانہ خدا میں طواف بند ہو گیا، مسجد نبوی میں عبادت منسوخ کر دی گئی، ایران میں وبا وہاں پھیلی جہاں زائرین کا ہجوم جو تبلیغ کے لئے وقف تھے۔ اور برطانیہ میں جہاں کیتھولک کلیسا کا صدر مقام ہے، اس وبا کے اثرات سب سے زیادہ پھیلے۔ انتہا تھا یہ انسانیت کے لئے کہ جب فاصلے رکھنے کا کہہ دیا ہے، تو اپنے پرائے کا کوئی فرق نہیں، اللہ نے اپنی سنت پر سختی سے عمل کرایا، مبادا اس کی کوئی اور تعبیر کر دے۔ سماجی فاصلہ انسان کی سارے تہذیب پر ایک ضرب کاری ہے۔
اللہ کی قدرت دیکھئے کہ جس مغرب میں مسلمان عورتوں کے حجاب پر پابندی تھی، وہاں غیر مسلم بھی حجاب پہننے پر مجبور ہوئے۔ اس ماسک کو حجاب ہی کہیں گے۔ کسی نے نہیں کہا کہ اس سے تو انسان کی پہچان تک چھپ جاتی ہے۔ قدرت نے اپنی شان دکھا دی۔ بتا دیا گیا ہے کہ انسان مجبور محض ہے۔ سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود وہ ہر جگہ بے بس نظر آیا۔ عجیب بات ہے کہ وبا کا نشانہ غریب لوگ نہ تھے بلکہ دنیا کی امیر ترین قومیں اس کا زیادہ شکار تھیں۔ یہ قومیں امیر ہی نہیں، سائنسی طور پر بھی زیادہ ترقی یافتہ تھیں۔ کسی کو سمجھ نہ آتا تھا کہ اس بلا کا مقابلہ کیسے کریں۔ ان کے جو بس میں تھا انہیں جو علم حاصل تھا اسے بروئے کار لانے میں بھی وقت درکار تھا، ایک سال ہونے کو آیا، ہر روز انسان بے بسی کی موت مر رہا ہے اور اس کے ماہرین کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں بلکہ وہ جو مسیحا ہیں، وہ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اللہ کی سنت سب کے لئے ایک جیسی ہے۔ کسی کو بھی کوئی چھوٹ نہیں ہے۔ اس قانون قدرت نے انسان کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ انسان انتظار میں ہے کہ کب اس کا علاج دریافت ہوتا ہے اور اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچتے ہیں۔ انسان صرف دعا کر رہا ہے کہ خدا نہ کرے یہ وبا کوئی اور شکل اختیار کرے اور علاج دریافت کرنے کی ساری کوششیں بے کار نہ جائیں۔
یہ جو سال گزرا ہے۔ انہی وسوسوں میں گزرا ہے۔ انسان بے بس ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا بنیادی تبدیلی آنی ہیں، اس کی کسی کو خبر نہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ غو ر رہے ہیں۔ وہ نظام تو پہلے ہی دم توڑ رہا تھا۔ جو فری مارکیٹ اکانومی کے نام سے گزشتہ تیس پینتیس سال سے رائج تھا۔ اسے ریگن ازم بھی کہا گیا اور تھیچر ازم بھی۔ اس لئے کہ ان کے زمانے میں یہ دنیا کا چلن بنا۔ اچانک دنیا میں ایسی آوازیں اٹھنے لگیں کہ امیر ملک اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں کیوں لگاتے ہیں۔ انہیں یہ سرمایہ واپس لانا چاہیے۔ میں اس نظام کا حامی ہوں نہ مخالف۔ بتا یہ رہا ہوں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے اس نظام کے خلاف خود انسانوں ہی نے بغاوت کر دی۔ ٹرمپ جیسے ذہنوں نے نعرہ لگایا کہ سب سے پہلے ہمارا ملک مگر اب یہ جو وبا آئی ہے، اس میں جغرافیائی سرحدیں، اس طرح بوکھلائیں ہیں کہ ایسے لگتا ہے ہوا کا ایک تیز جھونکا، اسے لے کر ایک گرد باد کی طرح تمام دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اس وبا نے دنیا کو سچ مچ گلوبل ویلیج بنا دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسان اب کے اس کا کیا علاج دریافت کرتا ہے۔ ایک نہیں کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ معاشی بھی ہیں اور سیاسی بھی، انسانی بھی ہیں اور اقتصادی بھی۔ اب انسان کو کس سمت جانا ہے، اس وقت تک ذہن مائوف ہو چکے ہیں، کہا جاتا تھا، جب ایک صدی پہلے انفلوائزا نے دنیا کو لپیٹ میں لیا تھا، تو ایک ملین افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ اس بار تو اب تک اعداد و شمار بتاتے ہیں ڈیڑھ ملین سے بھی زیادہ انسانیت کے لاڈلے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ اب کوئی ہے جو یہ راگ الاپے کہ:
انسان عظیم ہے خدایا
خدا نے بتا دیا ہے کہ عظیم تو صرف اس کی ذات ہے۔ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں، ایک عاجز ار بے بس بندے کے طور پر۔ انسانی عظمتوں کو سلام مگر حیی و قیوم صرف ذات خداوندی ہے۔ وہی عظیم ترین ہے اوروہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بات جا کر کوئی اس مجذوب فرنگی کو بتا دیے، جس نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہم اس کے ادنیٰ بندے ہیں۔ انسانوں کے ذہن میں جو غلط فہمی اس بیان سے پیدا ہوتی تھی، وہ دور ہو جانا چاہیے۔ وہ حیی و قیوم ہے۔ وہ زندہ جاوید ہے، ہم بے بس بندے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔