میں ان دنوں رہ رہ کر سوچ رہا ہوں کہ میری زندگی میں کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ میں یک سو ہو کر پیپلز پارٹی کو سراہ سکوں۔ جب سے نئی پی ڈی ایم بنی ہے میرے اندر ہمیشہ سے یہ کھدیڑ لگی تھی کہ ان پارٹیوں کا نباہ کیسے ہو گا۔ یہ میں اس لئے نہیں سوچتا تھا کہ میں تحریک انصاف کے حوالے سے کوئی بغض رکھتا تھا۔ بلکہ میرے لئے اصل مسئلہ پیپلز پارٹی رہی ہے، جب سے یہ پارٹی بنی ہے میری روح کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے پاکستان کے لئے یعنی باقی ماندہ پاکستان جسے ہم ان دنوں نیا پاکستان کہتے تھے، ایک چیلنج رہی ہے۔ یہ آمریت کے دور میں ایک ابال بن کر ابھری جس نے ہماری غیر متلاطم سیاست میں ایک تموج پیدا کر دیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے کہ جب باغی بھٹو ساہیوال بار میں پہلی بار بلایا گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر جس طرح نعروں کا جواب دیا وہ دل میں نقش ہو گیا۔ اس وقت میں ایک طالب علم تھا مگر ادب کا ایک ادنیٰ قاری ہونے کی حیثیت سے ایک ذہن رکھتا تھا۔ یہ ذہن ترقی پسند تحریک کو قبول نہیں کرتا تھا۔ یہ ہمارے بزرگوں کی تربیت تھی یا مطالعہ کا اثر تھا، میں کچھ نہیں کہتا چنانچہ جب بھٹو صاحب نے اپنے نظریات کا اعلان کیا تو دل نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔ ایک عرصے تک بھٹو کے حوالے سے یہ طالب علم اس ملک کے اشتراکی کوچہ گردوں سے لڑتا رہا۔ تاہم اس بات پر کبھی شک نہ رہا کہ بھٹو ہماری سیاسی زندگی میں ایک اضافہ ہے۔
جلد ہی یہ پتا چل گیا کہ بھٹو کے ہاں صرف اشتراکیت نہیں بلکہ نیشنل سوشلزم ہے جسے اس زمانے میں بھی فاشزم کہتے تھے۔ ہٹلر مسولینی کے خیالات میں بھٹو کی دلچسپیاں بھی سامنے آنے لگیں۔ اس بات پر آج بھی پختہ یقین ہے کہ انہوں نے ملکی معیشت کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ جب انہوں نے سیاست کا آغاز کیا تو دنیا میں اشتراکیت کا شور شرابا تھا مگر جب یہ لہر واپس پلٹ رہی تھی، بھٹو نے ہمیں اس میں شامل کر دیا۔ اس طرح ہماری صنعتیں قومیائی گئیں کہ کچھ بھی باقی نہ بچا۔ ان کے سیاسی طرز عمل کا ہم بھی نشانہ بنے۔ لاکھ کہیں یہ جمہوریت تھی، اگر یہ جمہوریت تھی تو آمریت کسے کہتے ہیں۔ بھٹو سول مارشل لاء ہی کے بانی نہ تھے سول آمریت کا ایک سچا نمونے تھے۔ میں اس پر زیادہ نہیں لکھنا چاہتا صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج بہت سارے لوگ بھٹو اور بے نظیر کو یاد کر کے مثبت رویہ اختیار کرتے ہیں اور طنز کرتے ہیں کہ یہ دیکھو بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی کا زرداری نے کیا حشر کیا۔ میں تکلفاً بھی یہ بات کہنے سے گریز کرتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب بھٹو کو پھانسی لگی تو میں نے بھی اس کا دکھ محسوس کیا۔ اس شام ایک ریستوران کے خاموش گوشے میں سراج منیر، شعیب بن عزیز اس دکھ کا اظہار کرتے تنہا بیٹھے رہے۔ میں ان لوگوں میں بھی نہیں جو یہ کہتے ہوں کہ بھٹو کا کوئی قصور نہیں تھا۔ یقینا تھا، ہاں یہ بات محل نظر ہے کہ اس کی سزا موت تھی یا نہیں۔ وہ اس لئے کہ قتل کرنے والے کوئی اور تھے۔
اتنی تلخ باتیں میں اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ یہ بتا سکوں کہ میں پیپلز پارٹی کے بارے میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں رہا۔ تاہم یہ کبھی پسند نہیں کیا کہ اس پارٹی کی بیخ کنی کے لئے غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیا جائے۔ جب بے نظیر ایک طویل خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ ئیں تو مجھے یاد ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ وہی پیپلز پارٹی ہو گی جو تھی تو وہ غلطی پر ہیں۔ بے نظیر نے پارٹی کو نئی شکل دی۔ مجھ جیسوں نے اس نئی شکل پر بھی بڑے چائو سے غور کیا۔ شاید بعض لوگوں کو یاد نہ ہو کہ نجکاری کا آغاز اسی زمانے میں ہو گیا تھا۔ جو کام ضیاء الحق نہ کر سکے بے نظیر نے اس کا آغاز کر دیا۔ شاید اس لئے کہ دنیا میں صدر ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے زیر اثر آزاد معیشت کی نئی شکل کا آغاز ہو چکا تھا۔ بے نظیر سمجھ چکی تھی کہ اب دنیا کی بقا قومیانے کے عمل میں نہیں ہے۔ اسی زمانے میں بنکوں کی نجکاری کا عمل شروع ہوا جو نواز شریف کے زمانے میں مکمل ہوا۔ دراصل ہماری معیشت عالمی منظر نامے کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یہ فرق نہیں پڑتا کہ اس وقت حکمران کون ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر صاحب اقتدار کا رویہ الگ الگ ہوتا ہے۔ بے نظیر ہی کے زمانے میں اس معاشی رویے کے جواب میں اندر ہی سے ٹین پرسنٹ کا چرچا شروع ہو گیا تھا۔ اشتراکیت تو چلی گئی مگر اپنے پیچھے آزاد خیالی چھوڑ گئی۔ بھٹو کے زمانے کے سارے اشتراکی کو چہ گرد امریکہ کو پیارے ہو گئے۔ ہر ایک نے این جی او کے دفاتر کھول لئے اور انقلاب کی جگہ سول سوسائٹی کا ڈھول پیٹنے لگے۔
اس کے مقابلے میں نواز شریف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرے جو شہری قیادت کی علمبردار تھی۔ بائیں بازو کے ایک نامور دانشور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اس کے جواز میں ایک بڑا زور دار کتابچہ لکھا کہ نیشنل بورژواری بہرحال فیوڈل سے بہتر ہے۔ گویا اس پر ہم بھی قائل ہو گئے۔ اس زمانے کی پیپلز پارٹی میں وہ سب خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں جو بعد میں زرداری کے زمانے میں ابھر کر سامنے آئیں۔ مالی کرپشن کی اصل بنیاد اسی زمانے میں پڑی۔ اگرچہ اس کے بیج ایوب خاں کے زمانے میں رکھ دیے گئے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں یہ پودا ایک سیاسی انداز میں پھلا پھولا، مگر اس طرح تباہ کن نہ ہوا تھا جیسا ٹین پرسنٹ کے تصور سے ہوا۔ یہ کرپشن سیاستدانوں تک محدود نہ رہی بلکہ وہاں تک پہنچی جہاں کا تذکرہ کرتے ہوئے اب بھی پرجلتے ہیں۔
زرداری صاحب آئے تو ایک تاثر ابھرا کہ وہ پاکستان کھپے کا نعرہ لے کر آئے ہیں تاہم ایک طبقہ اس وقت بھی ایسا تھا جو سمجھتا تھا کہ یہ سب اقتدار تک پہنچنے کا زینہ ہے۔ باخبر حلقے اس سے پہلے ہی یہ اطلاع دے چکے تھے کہ بے نظیر کسی صورت نہیں چاہتی کہ زرداریصاحب واپس ملکی سیاست میں آئیں۔ انہوں نے بڑے فخر سے تاثر دیا کہ دیکھو میں نے کم سیٹوں کے باوجود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وزارت عظمیٰ ہی نہیں صدارت پر بھی قبضہ کر لیا۔ وہ اب بھی اپنے بہت سے کارنامے گنواتے ہیں۔ یہ سمجھا جانے لگا وہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ غالباً ان لوگوں نے سیاسی جوڑ توڑ کرنے والے دیکھے نہیں ہیں۔ ممتاز دولتانہ، مشتاق گورمانی کون کون سا نام گنوائوں۔ وہ ذہین لوگ تھے۔ مگر ان کی ذہانت اپنی تھی۔ اس زمانے کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ سیاست دان پر مالی بے ضابطگیوں کا الزام نہیں ہے۔ وہ سیاست اور تھی۔ یہ ذہین لوگ تھے۔ شاطر اور عیار نہ تھے اگرچہ ان کی پالیسیوں سے بھی ملک کا کچھ بھلا نہ ہوا۔ خاص طور پر اقتدار سنبھالنے کے بعد جب انہوں نے ججوں کے حوالے سے معاہدہ کرنے کے بعد یہ کہا کہ معاہدے کوئی حدیث نہیں ہوتے تو میں چونکا۔ انہوں نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا۔ مشرف کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی جاری رکھی۔ ججوں کو بحال نہ کیا، آخر کیا ہوا۔ جو کچھ بھی ہوا اس میں ان کی ذہانت کا کوئی دخل نہیں، وہ مفاہمت کرنا جانتے ہیں۔ وہ اتحاد سے صرف اپنی پارٹی کا مفاد چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ان کا اپنا مفاد ہے۔ پی ڈی ایم کے قیام ہی سے بعض لوگوں کی رائے تھی کہ وہ اس اتحاد سے صرف اپنا فائدہ طلب کریں گے اس کا طریقہ یہ ہے کہ سپیکر کا متفقہ امیدوار پیپلز پارٹی کا، وزارت اعلیٰ کے لئے مگر ہم مکر جائیں گے یہ کہہ کر شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیں گے کہ یہ ہمیں قبول نہیں کہ اس نے اعلیٰ حضرت آصف زرداری کی شان میں گستاخی کی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو متفقہ امیدوار بنا کر کامیاب کرا لیا۔ اب طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ مسلم لیگ کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست نہیں دے رہا۔ اعتراض کچھ بھی ہو مگر یہ بات طے شدہ تھی۔ ایسی سیاست میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پارٹی ان کے دور اقتدار میں سمٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی۔ اس بار وہ ن لیگ سے نشستوں کی گارنٹی پنجاب میں مانگ رہے ہیں۔ ایسے میں کون ان پر یہ کرم کرے گا۔ تو کیا وہ پھر مصالحانہ طرز عمل پر گامزن ہیں کہ اب میں جیل نہیں جا سکتا۔ کیا انہوں نے ایک بار پھر اپنا وزن اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے آئندہ نقشے میں یہی ہے۔ اگر یہ طے ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف اپنی مدت پوری کرے تو زرداری صاحب اس میں مددگارہوں گے۔ بات سخت ہے مگر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں کیا خوبصورت بیانیہ ہے کہ ہم اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت پیپلز پارٹی میں اکثریت ان کارکنوں کی ہے جو جمہوری اور انقلابی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر وہ یرغمال بنے ہوئے ہیں، کبھی حسرت سے بلاول کی طرف دیکھتے ہیں کبھی پھر اپنے ہتھیار تیز کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ لوگ سندھ کی وڈیرہ شاہی کے یرغمال ہیں۔ اللہ معاف کرے۔ پی ڈی ایم ہی نہیں پیپلز پارٹی بھی ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ شاید یہ آخری چانس ہے دیکھیے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔