Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. PIA Aur Pakistan

PIA Aur Pakistan

ایک تو کورونا کا عذاب تھا اور دوسرے عید سے ایک آدھ دن پہلے ایک ایسا قومی سانحہ ہو گیا جس نے پوری قوم کو مزید مغموم کر دیا۔ پی آئی اے کے طیارے کو اس نوعیت کا حادثہ پیش آیا کہ ا س نے شہری ہوا بازی کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اسے بھی سیاست کی نذرکر دیتے ہیں۔ ایک تو دکھ اس بات کا تھا کہ اس حادثے پر سربراہ حکومت کی حیثیت سے جو ردعمل عمران خاں کی طرف سے آنا چاہیے تھا ویسا نہیں آیا۔ دوسری اذیت اس وقت پہنچی جب سندھ کی صوبائی حکومت کے دو پہلوان اکھاڑے میں اتر کر زور آزمائی کرنے لگے۔ یوں لگا کہ یہ بھی کورونا کا مسئلہ ہے کہ طے ہونا ہے کہ پیش قدمی پہلے کس نے کی۔ کون سچ پر تھا کون جھوٹ چلا رہا تھا۔ یقینا تکلیف دہ بات ہے۔ ان کی زبانیں جس طرح کورونا کے معاملے پر رواں تھیں، ویسی ہی اب چلنے لگیں۔ ایسے لگا کہ جیسے کوئی پائلٹ کو مطعون کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور سندھ کی حکومت کو اس سے صدمہ پہنچا اتنے لوگوں کی جانیں گئیں۔ آپ مگر سیاست سے باز نہ آئے۔ اعلان کر دیا ہمیں تفتیشی کمیٹی قبول نہیں۔ ذرا بتا دیجیے آپ کس حیثیت سے بول رہے ہیں۔ پارٹی پوزیشن ہے یا صوبائی خود مختاری کا مسئلہ ہے ساتھ ہی اصرار کیا جو نام ہم دے رہے ہیں، انہیں تفتیشی کمیٹی میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔ غالباً مطلب یہ تھا کہ پائلٹوں کی ایسوسی ایشن جسے پالپا کہتے ہیں اس کو اس میں نمائندگی دی جائے کوئی پوچھ لے کیوں صرف پالپا ہی کو کیوں؟ آج مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔

کس کس کی زبان روکنے جائوں تری خاطر

کس کی کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے

پی آئی اے کی کہانی اس ملک کے عروج و آزادی کی داستان ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو اسلام کے علاوہ دو چیزوں نے متحد رکھا ہوا ہے۔ ایک اردو زبان اور دوسری پی آئی اے۔ قوم اپنی قومی پرچم برادر فضائی کمپنی پر فخر کرتی تھی۔ دنیا میں کئی ایئر لائنیں پی آئی اے کی مرہون منت ہیں۔ دور نہ جائیے یہ جو امارات ہے جس نے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس کا آغاز پی آئی اے کے طفیل ہوا۔ دو طیارے ہماری قومی ایئر لائن نے ویٹ لیز پر متحدہ عرب امارات کو دیے تھے۔ ویٹ لیز کا مطلب ہے کہ اس کا عملہ، پائلٹ، کیبن کریو، انجینئر سمیت سب پی آئی کا تھا۔ ان کے مستقبل کے سٹاف کی ہم نے کراچی میں تربیت کی۔ مرے ایک دوست امارات میں خدمات انجام دے کر واپس لوٹے ہیں۔ وہ انجینئر ہیں۔ ایک دن خود کلامی کے انداز میں فخریہ کہنے لگے جب میں امارات گیا تھا تو ایک یا دو جہاز تھے۔ اب واپس آیا ہوں کہ 269ہیں اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی خریداری سے پہلے ایویلیوایشن میں مرے دستخط نہ ہوں۔ ہم ایسے لوگ تھے ہمارے پائلٹ ہمارا انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں۔ ہماری انتظامی مشنری بھی دنیا میں مانی ہوئی تھی۔ آج کل سمارٹ کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے یہ ایک سمارٹ ایئر لائن تھی۔ چھوٹی تھی مگر کارکردگی میں دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی۔

مجھے بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں ایک زمانہ تھا یہاں ملک میں سب سے بڑا نظریاتی معرکہ ہوا کرتا تھا اس پر ایک ٹریڈ یونین کا راج تھا۔ پکی سرخ ٹریڈ یونین۔ روس کے اثرات پورے ملک پر صاف جھلکتے دکھائی دیتے تھے۔ بھلا سا نام تھا طفیل امام کے ایک صاحب اس ٹریڈ یونین کے سربراہ تھے۔ یہ یونین نظریاتی لٹریچر بھی چھاپتی تھی۔ جانے کیسے کیسے سرخ پرچم لہراتی۔ ایسے لگتا تھا یہ ادارہ سرخ قید خانہ نہ سہی، روسی خیالات کا ترجمان تھا سوویت سفارت خانے کے ترجمان سے بھی زیادہ۔ شاید فرینڈ شپ ہائوس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا۔ یہ وہ دن تھے جب جماعت اسلامی ٹریڈ یونین کے کاموں میں ایکٹو ہوئی۔ ان کی سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ ان کی ٹریڈ یونین پیاسی نے سرخ انقلاب کو شکست فاش دے ڈالی۔ اس زمانے میں اس کے صدر حافظ اقبال تھے۔ انتہائی شریف النفس انسان۔ نظریاتی میدان میں انہوں نے ایک بے مثال کارنامہ انجام دیا تھا۔ پیاسی نے اس تنظیم کو شکست دے کر میدان مار لیا تھا۔ اس ریفرنڈم کی ایک شان ہوتی تھی پورے ملک کی نظریں اس پر لگی تھیں۔

مجھے ایک افسوسناک سانحہ بھی یاد ہے غالباً یحییٰ خاں کا زمانہ تھا۔ شاید 69ء یا 70ء کے دن ہوں گے جب مشرقی یورپ کے کسی ملک کے نائب وزیر اعظم پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے ان دنوں مسافروں کے آنے جانے کے لئے صرف سیڑھیوں کا سہارالیا جاتا تھا۔ کیسرذرنامی ایک شخص نے ایئر پورٹ پر کھڑے اس مہمان کو اس گاڑی سے کچل کر رکھ دیا جس کا وہ ڈرائیور تھا۔ مہمان کی وہیں موت واقع ہو گئی۔ اس شخص نے اپنی خطا کا اعتراف بھی کر لیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اسلامی نظریات رکھتا ہے اور کمیونزم کے بے دین نظریے سے نفرت کرتا ہے۔ یہ شوکت اسلام کا زمانہ تھا اندازہ کیجیے اس کے کیا اثرات ہوتے ہوں گے، مگر ٹریڈ یونین کے بڑھتے ہوئے اسلامی رجحانات کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اگرچہ اس واقعے کی سب نے مذمت کی اور کی بھی جانا چاہیے تھی۔

پیاسی کی جیت ملک میں سرخ انقلاب کا رخ موڑنے کی ابتدا تھی۔ سٹیل ملز پاکستان ریلوے، کے پی ٹی ہر جگہ ایک واضح تبدیلی آنے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ 75ء تک آتے آتے ایک سروے کے مطابق ٹریڈ یونین میں دایاں بازو چھا گیا تھا۔ پھر ٹریڈ یونین میں سیاست آ گئی اس زمانے میں کیا کیا نام تھے مجید شیخ، عزیز الرحمن، شاہد اللہ خاں جو پی آئی اے کے لیڈر تھے۔ ایک پوری داستان ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ ٹریڈ یونین میں سیاست آنے لگی۔ پیپلز پارٹی آئی تو اس نے اپنی تنظیم بنا ڈالی۔ ایم کیو ایم کب پیچھے رہنے والی تھی۔ ن لیگ بھی میدان میں آ گئی۔ اب ایک بات میں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ پی آئی اے کی تباہی میں اصل ہاتھ دو جماعتوں کی ٹریڈ یونین کا تھا۔ جب پیپلز پارٹی آئی تو انہوں نے پانچ چھ ہزار لوگ جھٹ پٹ بھرتی کر ڈالے۔ یہی کام ایم کیو ایم نے کیا۔ سٹیل ملز میں بھی یہی ہوا۔ یہ دراصل ان اداروں کی تباہی کی ابتدا تھی۔ اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں ہم عوام کو نوکریاں دیتے ہیں۔ باقیوں نے بھی کچھ نہ کچھ کیا ہو گا مگر یہ دو موڑ ایسے تھے جس نے پی آئی اے کو سنبھلنے نہ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ مرے پاس بہت سے افراد وہ ڈیٹا لے کر آتے جن سے اندازہ ہوتا کہ یہ بھرتیاں کس طرح میرٹ کی دھجیاں اڑا کر کی گئیں ہیں اور ان کی بنیاد کئی بار پارٹی کے بجائے لسانی ہوا کرتی تھی۔

ایسے میں پیشہ ور تنظیمیں بھی تھیں جن میں پائلٹوں کی تنظیم ہمیشہ اہم رہی ہے۔ پالپا ہر زمانے میں جب میدان میں اترتی تو انتظامیہ مشکل میں پڑ جاتی۔ کئی بار پائلٹ باہر سے لانا پڑتے۔ ظاہر پائلٹوں کی دبائو ڈالنے کی صلاحیت سب سے زیادہ تھی۔ آج بھی بعض پرانے لیڈروں کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتامگر میری خواہش ہے کہ تفتیش صاف اور شفاف ہو بلکہ اس بات کا سروے بھی ہو کہ ہم نے اس شعبے کا کس طرح ستیا ناس کر رکھا ہے جو دیکھو ایڈہاک، کس لئے؟ اس لئے کہ بعض منصب مستقل ہوں تو اس پر براجمان شخص کو ہٹانا مشکل ہوتا ہے۔ حکومتیں یہ چاہتی ہے کہ تبادلے، بھرتیاں اس کے ہاتھ میں رہیں۔ اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ شہری ہوابازی کا سربراہ ایڈہاک ہو۔ اتنا نازک مسئلہ ہے کہ ہم اس شعبے کو وزارت دفاع کا حصہ بناتے چلے آئے ہیں۔ اچھے دن تھے جب یہاں بڑے نازک معاملات بھی انجام دیے جاتے تھے۔ انجینئرنگ کا ایک الگ شعبہ بھی تھا۔ چلیے رہنے دیجیے۔ نورخاں کے زمانے میں کرکٹ، ہاکی، سکواش تینوں کی سرپرستی پی آئی اے کے سپرد تھی۔ اصغر خاں، نور خاں ہی نہیں پی آئی اے کے اپنے اندر سے بھی جو سربراہ بنے ان کا میرٹ یہ نہیں کہ وہ ایئر پورٹس کے سب سے سینئر ملازم تھے۔ ایک کا نمبر ایک تھا تو دوسرے کا دو۔ اس معاملے میں کسی کو بری الذمہ نہیں سمجھا۔ ہر پارٹی نے اعلیٰ ترین تقرریاں میرٹ پر نہیں کیں۔ بلکہ اپنے اپنے چہیتوں کو نوازاہم نے یہ ملک اس طرح تباہ کیا ہے۔

پاکستان اور پی آئی اے کے عروج دونوں کی کہانی ایک جیسی ہے۔ ہم نے چونکہ پاکستان کو سربلندیوں پر سرفراز کرنا ہے اس لئے عذر نہ ہو گا اگر ہم پی آئی اے کی بحالی کا خواب بھی دیکھیں۔