Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Professor Sharif Al Mujahid

Professor Sharif Al Mujahid

میں نے ان سے براہ راست پڑھا ہے نہ سیکھا ہے۔ تاہم مرے لئے وہ استادوں کی جگہ تھے۔ عجیب رشتہ تھا، شفقت بھی فرماتے اور احترام بھی کرتے۔ پروفیسر شریف المجاہد بلاشبہ ان افراد میں سے تھے جن کا بہت سے لوگوں سے ایسا ہی رشتہ ہو گا۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے۔ اس سال جب پاکستان کا پہلا دستور بنا پاکستان کی اس عظیم درسگاہ میں صحافت کی تدریس شروع کر دی گئی تھی۔ پھر جب حکومت پاکستان نے قائد اعظم اکیڈمی بنانے کا فیصلہ کیا تو وہ اس سے پہلے بانی کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔ مرا ان سے ایک ذاتی سا رشتہ تھا جس کا تذکرہ میں بڑے افتخار کے ساتھ ذرا بعد میں کروں گا۔ وہ یقینا پاکستان کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پاکستان کی تہذیبی اور علمی بنیادیں استوار کیں۔

مری کراچی کی زندگی میں ڈاکٹر ممتاز احمد کو بڑی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بہت سے احباب جن کا ممتاز سے بہت گہرا تعلق تھا، وہ جب یہ کہتے کہ تمہیں دیکھ کر ممتاز اور ممتاز کو دیکھ کر تم یاد آ جاتے ہو تو انتہائی مسرت ہوتی۔ اب ڈاکٹر ظفر اسحق سے ممتاز کا برسوں پرانا رشتہ تھا۔ مرے لئے بھی وہ مولانا ظفر انصاری کے بیٹے اور اعلیٰ ترین علمی و فکری شخصیت تھے۔ ذاتی طور پر بھی بڑا قریب تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی جب بے ساختہ یہ کہا کہ تمہیں دیکھ کر ممتاز اور ممتاز کو دیکھ کر تم یاد آ جاتے ہو تو عجب انبساط کی لہر پورے جسم میں دوڑ گئی۔ شریف المجاہد بھی ان لوگوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر منظور احمد، اللہ ان کو صحت اور زندگی دے انہی لوگوں میں سے ہیں۔ ممتاز امریکہ چلے گئے، مگر جب بھی آتے مرے پاس ہی ٹھہرتے۔ کوئی ان پر اپنا حق نہ جتاتا۔ جب ممتاز آتے تو شریف المجاہد انہیں ضرور کھانے پر بلاتے۔ عام طور پر گھر کے قریب ہی کسی ریستوران میں اور ہدایت کرتے کہ مجھے لے کر آئیں۔ گھنٹوں کی نشست رہتی اور جاتے ہوئے وہ ممتاز احمد کو کوئی تحفہ، کوئی شرٹ وغیرہ ضرور دیتے۔ کہتے تھے اور میں اس کا گواہ ہوں کہ ممتاز احمد مشرق وسطیٰ پر اس وقت دنیا میں سب سے بڑی اتھارٹی ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں ان دنوں مشرق وسطیٰ میں پاکستان بھی شامل تھا۔ درمیان میں بھی کوئی پیام بھیجنا ہوتا تو مجھے ضرور یاد کرتے۔ علم کے میدان میں دوست سنجیدہ تھے اور ایک طرح کی علمی انتہا perfectionist۔ ہر چیز کو اس کی ہر ہر سمت سے دیکھتے۔ ایک ایک کام پر لمبا وقت لگاتے اس لئے دوست احتاب کہتے کہ اگر وہ اتنی عرق ریزی نہ کرتے تو شاید بہت کچھ اور کر گزرتے، مگر پھر وہ شریف المجاہد تو نہ ہوتے۔ میں نے جب پہلی بار ان کی کتاب انڈین سیکولرازم پر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ وہ نظریہ پاکستان کو کیسے سمجھتے ہیں۔ اسے علمی مصلحت کا تقاضا سمجھ لیجیے کہ اب اس کتاب کا تذکرہ کم ہوتا ہے پھر ایسا ہوا کہ قائد اعظم اکیڈمی سے ان کی وابستگی کی وجہ سے انہوں نے تحریک پاکستان اور قائد اعظم پر بہت کام کیا پھر یہی ان کا خصوصی میدان ٹھہرا۔

ڈان اخبار اس حوالے سے بھی کہ یہ قائد اعظم کا اخبارتھا اور اس حوالے سے بھی کہ وہ معتبر اور مستند صحافت کی علامت تھا، اپنی اہمیت رکھتا تھا۔ ہر قومی دن پر اس میں پروفیسر صاحب کا ایک مضمون ضرور ہوتا۔ وہ اس میں حالات کے مطابق کوئی نیا مسئلہ اٹھانے کی سنجیدہ کوشش کرتے۔ میں اس زمانے میں ہارون ہائوس سے وابستہ تھا، ان کے اردو اخبار حریت کا ایڈیٹر تھا۔ پروفیسر صاحب مضمون کے ساتھ خود بھی آ جاتے اور حمید ہارون کے ساتھ اپنے لکھے ہوئے مضمون پر مغز ماری کرتے۔ میں نے کہا کہ اسے محض ایک صحافتی تحریر کے طور پر نہ لیجئے۔ میں نے اوپر انہیں علمی انتہا پسند (پرفکشن اسٹ کہا ہے) ان سے بات کرنے کا مزہ آتا ہے جیسے کوئی وکیل ایک استاد بن کر گفتگو کر رہا ہو۔ ہر نکتے کو کریدتے اور حتمی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ اس معاملے میں کوئی انا بھی نہ تھی۔ ایک بار 88ء میں یا شاید انہی دنوں میں اکیڈمی میں ان کے پاس گیا۔ میثاق مدینہ اور قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کےحوالے سے بعض باتیں تھیں جن کے بارے میں میرا خیال تھا یہ گویا میری ہی دریافت ہیں انہوں نے میری بات سے اتفاق نہ کیا اور اپنی تحریروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ میں بھی معاملے کی کرید چاہتا تھا تاہم 1996ء میں انہوں نے وہی بات ٹیلی ویژن پر کہی تو مجھے خوشی بھی ہوئی اور حیرانی بھی۔ لاہور آئے اور کونسل فار نیشنل آفیئر میں مہمان ہوئے تو میں نے شکایت کے انداز میں یہ بات دہرائی۔ کھلے عام فرمانے لگے یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ پھر خود تفصیل بتائی اور یہ تک کہا کہ آدمی وقت کے ساتھ سیکھتا ہے میں نے اپنی اصلاح کی ہے، جی ہاں، علمی انتہا پسند، پرفیکشن اسٹ۔ بڑی ہی سادہ اور وضع دار زندگی گزارتے تھے۔ سارا سال علمی کاموں میں مصروف رہتے، اپنے اور دوسروں کے کاموں کو سراہنے میں بھی گریز نہ کرتے۔ کراچی میں چھ سات برس پہلے میں نے انہیں نے ایک تقریب میں دیکھا تھا۔ نصیر سلیمی نے چودھری رحمت علی پر منعقدہ ایک تقریب میں انہیں بھی بلا رکھا تھا۔ سردار شیرباز مزاری بھی شریک تھے۔ ممتاز احمد بھی آئے ہوئے تھے۔ کیا شاندار تقریب تھی۔ شریف المجاہد ذرا مشکل سے سٹیج پر آئے تو خاصا دکھ ہوا۔ صحت بہت اچھی نہ تھی۔ مگر مجھے یاد ہے کہ اس دن بھی بات چیت میں وہی لگن اور عزم شامل تھا جو ہمیشہ سے ان کا طرہ امتیاز تھا۔

خیرہ وہ تو ایک صدی کی کہانی ہے۔ مجھے خیال آ رہا ہے کہ اس تاریخ کے محافظ ہم سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا تھا، بلکہ کیوں بنا تھا۔ ایک طویل عرصے سے وہ درس و تدریس سے الگ تھے۔ مگر اب تک ان کا احترام گویا استاد الاساتذہ کے طور پر ہر جگہ موجود تھا۔ وہ ایک اچھے مقرر نہ تھے۔ مگر پھر بھی وہ جب بھی بولتے ان کے علمی احترام کی وجہ سے ان کی تقریر غور سے سنی جاتی۔ کراچی کو کئی علمی شخصیات نے فیض یاب کیا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر منظور احمد، سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر محمود حسین، ایک نہیں بے شمار، ان بے شمار لوگوں میں شریف المجاہد کا فیض تو ہم نے اپنے تک پہنچتے دیکھا ہے۔ خدا مغفرت کرے، اگلے دنوں کے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں۔