پتا نہیں مجھے کیوں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم امریکہ کے بلاک میں ہیں اور اس کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔ خطے کی صورت حال نئے روپ دھار رہی ہے، مگر ہم نے جو اول روز سے امریکی غلامی کا دم بھرا تھا اس پر قائم رہنے کے جتن کر رہے ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔ ہم بڑی ڈھٹائی سے اپنی پرانے روش پر ڈٹے رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی وضاحت میں گزشتہ دو کالموں میں کر چکا ہوں۔
خطے کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران جیسا ملک طالبان سے دوستی کا دم بھر رہا ہے۔ فی الحال تو ایسا ہی ہے۔ نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود ترکی قربت کے قرینے ڈھونڈ رہا ہے۔ اور ہمارا آہنی دوست چین تو خیر اعلان کر چکا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کی ہر طرح سے مدد کرے گا۔ اس نے ایک طرح سے اس حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ خیر تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ اس وقت افغانستان میں جو قانونی حکومت ہے، وہ اشرف غنی کی نہیں ہے بلکہ ان کی ہے جن سے اقتدار چھینا گیا تھا۔ وہ لوگ واپس آ گئے ہیں۔ عملی طور پر دنیا ان کے اقتدار کو تسلیم کرتی ہے اور عملی طور پر اسے ہی افغان حکومت سمجھتی ہے۔ ہر معاملہ ان سے ہو رہا ہے۔ امریکہ کے جاتے جاتے بھی یہ مان لیا تھا کہ ہم اشرف غنی کو چاہتے تھے مگر اب جو بھی ہیں وہی افغانستان کے مالک ہیں۔ اپنی اکڑ باقی رکھنے کے لئے اس نے البتہ چند شرائط رکھ ڈالی ہیں کہ ٹھیک ہیں ہم جا رہے ہیں، تم مگر ان باتوں کا خیال رکھو۔ اب بھی امریکی خفیہ ایجنسی کا سربراہ افغانستان میں جا کر کس سے مذاکرات کر رہا ہے۔ حامد کرزئی سے کر رہا ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا جتنی جلدی تسلیم کر لے اتنا بہتر ہے۔ روس سب پرانی دشمنیاں بھول کر تعاون کر رہاہے۔ وسط ایشیا کی ریاستیں یک زبان ہیں کہ اس حقیقت کو ماننا پڑے گا۔ جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت، کون سی جمہوریت، وہ جو یورپ میں بیٹھ کر حملہ آوروں نے طے کی تھی اور افغان عوام پر مسلط کی تھی۔ یا وہ نظام جو مقامی روح کے مطابق چل رہا تھا اور اب ہزار تبدیلیوں کے بعد واپس آنا چاہتا ہے۔ یہ تبدیلیاں وقت کا تقاضا ہے۔
مجھے پاکستان کے سب بیان دکھاوے کے لگتے ہیں یا سہمے سہمے سے رویے کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا ہمارا ایک کردار ہے اور ہم بہت پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیں گے۔ امریکہ سے البتہ ایسے اشارے مل رہے ہیں جیسے ہمیں کہا جا رہا ہو کہ نئی افغان حکومت سے یہ راشرئط منوائو، وگرنہ اسے تسلیم نہ کرو۔ امریکہ یہ شرائط منوا کر تسلیم کرنیوالی بات صرف ہم سے کیوں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ اور یورپ سے کیوں نہیں کہتا، کہ خبردار اس طرف قدم نہ رکھنا۔ سب افغان حکومت کی حقیقت کو تسلیم کر کے اپنی بساط بجھا رہے ہیں۔ یہ بھی تو ڈر ہو گا کہ دوسری صورت میں چین چھا جائے گا اور اب اس کے ساتھ روس بھی ہو گا اور خطے کے سب ممالک بھی۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ بیس سال اسے امریکیوں اور مغربیوں نے تاراج کیاہے۔ اس سے پہلے ایک عشرے تک روس نے اپنی سامراجی عزائم کے ساتھ اس دھرتی کو روند ڈالا تھا۔ درمیان میں جو مقامی اور دیسی اقتدار کا زمانہ آیا، چاہے وہ مجاہدین کا ہو یا طالبان کا، اسے دنیا بھر کے سازشیوں نے پائوں جمانے ہی نہ دیے۔ لے دے کر دو ڈھائی ملکوں نے اسے تسلیم کیا، بلکہ صرف ایک پاکستان تھا جو ہزار دکھوں کے باوجود اس حقیقت کو فراموش کرنے کو تیار نہ تھا کہ ہماری سرحدوں پر افغانوں کی اپنی حکومت ایک حقیقت ہے۔ آج یہ امریکی کانگرس میں کیا واویلا ہو رہا ہے کہ پاکستان کو گویا سبق سکھایا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ مانتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ سے مل کر یہاں کردار ادا کیا ہے، البتہ یہ پخ لگائی ہے کہ کبھی ہمارے مفادات امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہوتے تھے، کبھی اس سے ٹکراتے تھے۔ پاکستان کی ایک پوری نسل یہ جانتی ہے کہ ہمارے سروں پر ہمیشہ ڈومور کی تلوار لٹکتی رہی۔
یہ تلوار ی انداز دیگر پھر لٹکائی جا رہی ہے۔ جب سی آئی اے کے چیف افغانستان اور ہندوستان کے دورے کے دوران پاکستان بھی آئے اور انہوں نے ہمارے آرمی چیف سے ملاقات کی تو گمان گزرنے لگا تھا کہ امریکہ بہادر کی نسبت ٹھیک نہیں ہے۔ اب اس نے اعلان کیا ہے کہ وہافغانستان سے فارغ ہو چکا ہے اور اب اس کی جنگ چین سے ہے۔ جانے یہ احمق کس کس دیوار سے سر ٹکڑا کر ہلکان ہوتا رہے گا۔ امریکہ کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ اس کی نئی سامراجی حکمت عملی یہ ہے کہ جہاں سے جائو وہاں انتشار کے طوفان چھوڑ جائو۔ شام، عراق میں وہ داعش کے خلاف لڑا ہے یا ان ممالک کو عدم استحکام کا شکار کر گیاہے، اب یہی کچھ وہ افغانستان میں کرنا چاہتا ہے۔ اسے گوارا نہیں ہے کہ ان سے جنگ جیتنے والا افغانستان پر سکون رہے۔ وہ اردگرد کے ممالک سے افغانستان کا ٹکرائو چاہے گا۔ اپنے حلیف ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا۔ فی الحال اس کے ساتھ شکست کھا کر دم دبا کر بھاگنے والے بھارت کے سوا اس کا کوئی حلیف نہیں۔ اسے وہ اپنا سٹرٹیجک پارٹنر بھی کہہ چکا ہے اور بار بار کہہ چکا ہے۔ یہ بھی کہہ چکا ہے کہا اب اصل لڑائی چین سے ہے اد لڑائی میں وہ بھارت پر انحصار کر رہا ہے۔
صدقے جائوں تری حکمت عملی ہی غلط ہے۔ ان تلوں میں تیل نہیں۔ ایسے میں وہ ہمیں دبا رہا ہے کہ ہم خطے میں چین کے سب سے پرانے دوست ہیں، ہمیں ڈرا رہا ہے۔ جیسے ہم ڈر کر سی پیک سے بھاگے اور آئی ایم ایف کے سایہ عافیت میں پناہ ڈھونڈ کر جا بیٹھے۔ اب وہ ہم پر دبائو ڈال رہا ہے کہ ہم اس کے لئے ایک لڑائی اور لڑیں۔ کیا ہم میں بھی اتنی سکت ہے کہ اسے بتا سکیں تم نے خطے میں دوست بدل لئے ہیں۔ کبھی ہم دفاعی معاہدوں میں تمہارے شریک تھے اور کھلے عام تھے ایک طویل عرصے سے تمہاری کاسہ لیسی کرتے چلے آتے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر نے نہ صرف اس ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکالا بلکہ ہمیں سامراج کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ ہم ایسے غلام تو تب بھی نہ تھے جب اس کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شریک تھے، جیسا پرویز مشرف نے ہمیں بنا دیا تھا۔ ہم اس کی بڑی قیمت ادا کرتے رہے ہیں اتنی قیمت کہ وہ جو کہتے ہیں کہ اب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے،۔ اس وقت سچ مچ ہماری یہی صورت حال ہے۔ خطے کے حالات بدل گئے گویا جہاد کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ ہمیں یقین نہیں آتا کہ اب ہم ذرا آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکتے ہیں۔ ہم اب بھی خود کو سامراجی پنجرے کا قیدی بنا کر بیٹھے ہیں۔
ہمت کیجیے۔ آسمان بہت وسیع ہے۔ اڑان بھرنے کا وقت آ گیاہے۔ یقین کیجئیے اگر ہم نے یہ کام سلیقے سے کیا تو ہمارا شکاری ہمارا کچھ بگاڑ نہیں پائے گا۔ اسے ہماری ضرورت ہے وہ ہمیں کھونا نہیں چاہتا، جیسا اسے افغانستان کی ضرورت ہے اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتا چاہے یہ طالبان کا افغانستان ہے، ہم جس قدر اس بات کا سمجھ جائیں اتنا بہتر ہے۔ ہمیں امریکہ کے خلاف جنگ نہیں لڑنا۔ ہم برسوں اس سے مل کر لڑنے کے عادی ہو چکے ہیں مگر اب ہم نے اس کی جنگ لڑنے کی حماقت نہیں کرنا اور یہ جنگ تو ہمارے بہت عزیز دوست کے خلاف ہو گی یعنی چین کے خلاف، ہمیں افغانستان کے خلاف ہی آلہ کار نہیں بننا چاہیے تھا مگر اب ہمیں امریکی منصوبوں کا ساتھ دینے سے معذرت کر لینا چاہیے۔ اب ہم اکیلے نہیں ہیں۔ یہاں اب مرے راز دار اور بھی ہیں۔
اور ہاں یاد رکھیے اگر ہم نے ہمت کی تو دنیا ہماری قدر کرے گی۔ وہی دنیا جس کے بارے میں ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ امریکہ ناراض ہو گیا تو ساری دنیا ناراض ہو جائے گی۔ ہمت کریں ایسا نہیں ہو گا آپ کو حیرانی ہو گی۔ پھر امریکہ بھی آپ سے ناراض نہیں ہو گا۔ مشرف نے ہمارا جو امیج بناڈالا تھا اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ سمجھے نا!