اب نہ کسی دلیل کی ضرورت ہے نہ کسی بحث مباحثے کی، یہ ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔ یہ جو ریلیف پیکیج دیا ہے، اس کا مذاق تو اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے جب پتا چلتا ہے کہ ملک کی آبادی کا ساٹھ(60) فیصد اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے اور حکومت بھی اسے اتنا ریلیف فراہم کرتی ہے جو 5روپے فی کس روزانہ بنتا ہے۔ گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا۔ یہ پناہ گاہیں۔ یہ دستر خوان، یہ ریلیف پیکیج اچھی چیز سہی، مگر یہ وافر بھی ہوں تو اس سے معیشت کا بھلا نہیں ہوتا۔ یہاں تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اس کا معیشت پر کیا اثر پڑتا ہے، وہ تو بعد کی بات ہے۔ فوری طور پر دیکھ لیجیے کہ اس پیکیج کے اعلان کے دو تین روز کے اندر ہی اشیائے ضروریات میں ہرشے کی قیمت بڑھ چکی ہے۔
چلئے سائنٹیفک بنیادوں پر بھی اسے پرکھ لیجیے۔ یہ ٹارگٹڈ سبسڈی کا تصور ہی مفلسی کی علامت ہے اور اپنے اندر بہت سی خرابیاں رکھتا ہے۔ ہمارے معیشت دان بھی مغربی معیشت کے دریوزہ گر ہیں۔ معیشت کا لفظ تو میں نے تکلفناً پیش کیا، کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ گاہے یہ غریب کے جھولی میں دو سکے ڈالنے کا تصور عالمی معیشت دانوں نے کوئی ایک عشرہ پہلے پیش کیا تھا۔ ہمارے ہاں پیپلز پارٹی کے ابتدائی نصف میں جب غربت اور مہنگائی بڑھنے لگی تو اس وقت دنیا بھر سے دبائو تھا کہ زر تلافی کا تصور ختم کیا جائے، بالخصوص ہم سے کہا جا رہا تھا کہ ہم کم از کم زراعت میں ہر طرح کی سبسڈی ختم کر دیں شاید اس لئے کہ مغرب کا کسان پھر ہمارا مقابلہ نہ کر سکے گا۔
یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ یہ زر تلافی واپس لے کر زرعی طریق پیداوار کو بہتر بنانے میں خرچ کیا جائے۔ یہ فلسفہ پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ غالباً اس وقت پاکستان میں ضیاء الحق کا دور تھا۔ اب جب پیپلز پارٹی اکیسویں صدی میں اقتدار میں آئی تو اس سبسڈی کی ممانعت تھی۔ اس وقت یہ ٹارگٹڈ سبسڈی کا تصور آیا کہ عمومی زر تلافی دینے کے بجائے صرف اس طبقے کو سبسڈی دی جائے جس کو اس کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ایک نیک نام ماہر معیشت شاید کاردار نے بات کی تو میں حیران رہ گیا۔ میں نے انہیں نیک نام اس لئے کہا کہ وہ ان دنوں سٹیٹ بنک کی گورنر اس لئے چھوڑ چکے تھے کہ حکومت کے قدم بہ قدم چلنا مشکل تھا۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر پریشان ہوا جائے۔
پیپلز پارٹی معیشت کے معاملے میں ہمیشہ پھنسی رہی ہے۔ اس لئے زرداری نے اسحق ڈار کو ادھار پر رکھنے کی بھی خواہش ظاہر کی تھی۔ جب بھٹو صاحب آئے تھے تو وہ کبھی ڈاکٹر مبشر حسن اور کبھی حنیف نامی ایک بیرسٹر کو یہ کام سونپ دیتے تھے۔ بہرحال اس وقت جب یہ تصور ہمارے معیشت دانوں میں سرایت کیا گیا، تو میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تو آپ کاہل، ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر لیتے رہنے والے، بے کار لوگوں کی ایک پوری نسل پیدا کر دیں گے اور قوم میں ترقی کا اجتماعی جذبہ غارت ہو کر رہ جائے گا۔
ہمیں اس ملک کو لولے لنگڑے اپاہج لوگوں کا ملک نہیں بنانا۔ اس قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔ خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہے۔ حکومتیں ایسا حالت مجبوری میں کرتی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے درست پوچھا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ معلوم کیا جائے کہ یہ کس مد سے نکال کر اس کام میں ڈالا جا رہا ہے۔ ایک اور سوال ہے جو کوئی نہیں پوچھتا کہ اس میں کتنا پیسہ ہے، جو عالمی طور پر ہمیں خیرات کے طور پر ملتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یہ احساس پروگرام وغیرہ کہاں سے فنانس ہوتے ہیں۔ ہم کہاں تک دوسروں کے دریوزہ گر رہیں گے اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس پر مستراد یہ کہ مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہماری معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ ایسے اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں، جو سراسر بے بنیاد ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں پٹرول بنگلہ دیش اور بھارت سے سستا ہے۔ مثلاً ہمارا کہنا ہے کہ بھارت میں پٹرول 250روپے لٹر ہے لیکن ہم وہاں کی کرنسی میں اس سے نصف ہیں۔ ہم اسے اپنے سکے میں بدل کر بیان کرتے ہیں، ہمارا سکہ جو اتنا بے توقیر ہو گیا ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ سے نصف رہ گیا ہے۔ جب افغانستان موجودہ بحران پیدا نہیں ہوا تھا، تو یہ افغانستان کے مقابلے میں بھی نصف تھا۔
جب پاکستان دولخت ہوا تھا تو بنگالی سکہ ہم سے نصف تھا، آج ہم اس سے بھی نصف ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا۔ میں اس حکومت کو دوش نہیں دیتا، مگر اتنا تو ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ تم تو معیشت درست کرنے کا اعلان کرنے آئے تھے۔ تم نے تو اس کا کباڑہ کر دیا۔ اس تباہی کی وجہ بقول شوکت ترین دو ہیں۔ ایک روپے کی قیمت میں کمی اور دوسری شرح سود میں بے تحاشا اضافہ۔ اب ہم نے شرح سود تو کم کی ہے مگر وہ بھی اب نقصان دہ ہے کیونکہ یہ شرح سود ملک میں افراط زر سے کہیں کم ہے، یعنی مہنگائی 11فیصد ہے اور شرح سود 7فیصد یعنی میرا روپیہ جو بنکوں میں ہے اس پر جو منافع ملتا ہے، وہ اس سے کم ہے۔ جتنی روپے کی قدر ہر سال کم ہوئی جا رہی۔
آپ اڑوس پڑوس سے کیا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کسی نے اعداد و شمار دیے جس کے مطابق وہاں افراط زر ہم سے کہیں کم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ڈالر کی قیمت میں ان دنوں ہمارے ہاں 12فیصد اضافہ ہوا ہے، بھارت اور بنگلہ دیش میں 158اور 152فیصد۔ ان ملکوں میں فی کس آمدنی ہم سے کم ہوا کرتی تھی۔ اب وہ بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہماری جی ڈی پی کل قومی پیداوار بھی پہلے سے کم ہوتی ہے۔ پہلے سے مراد ہے کہ جتنی موجودہ حکومت کے آنے پر تھی، اب اسے کم ہے۔
تو تم نے کیا تیر مارا ہے۔ اسے کہتے ہو ہم نے معیشت کو ٹھیک کر دیا ہے۔ بس گھبرانا نہیں۔ خدا نہ کرے ہمارا وہ حال ہو جو کسی زمانے میں آئی ایم ایف کے ہاتھوں ارجنٹائن کا ہوا تھا۔ وہ اب تک نہیں سنبھل پایا۔ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج بھی مشکلات کا شکار ہے۔ شوکت ترین نے جن دو باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا، ان کا تعلق سٹیٹ بنک سے ہے۔ اس پر ہم نے آئی ایم ایف کو بٹھا رکھا ہے۔ ویسے تو اب وزارت خزانہ بھی انہیں کے شکنجے میں ہے۔ ہمیں اس نظام سے بغاوت کرنا ہو گی۔ یہ کیسے ہو گا۔ تو کیا سب کچھ میں ہی بتائوں؟