میں سینٹ کے نتائج سے زیادہ اس بات کا منتظر تھا کہ ہمارے وزیراعظم کا رویہ ان نتائج کے بعدکیا ہوتا ہے۔ جب یہ اعلان ہوا کہ وہ قوم سے خطاب کریں گے تو مرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے یہ خوف ستانے جا رہا تھا کہ کہیں وہ اپنے پرانے رویے پر ہی قائم نہ رہیں اور اتنے بڑے واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھیں۔ جب ایسا ہی ہوا تو ظاہر ہے تشویش بے محل نہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا یہ انداز ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو حتمی سمجھتے ہیں اور اپنے سے ہٹ کر کسی کی رائے کو بالا تر نہیں گردانتے۔ مثال کے طور پر وہ اکثر کہتے ہیں میں آپ کو سمجھاتا ہوں یا میں آپ کوبتاتا ہوں۔ ایک اتنی سی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ یہ کسی کے لیے بھی اچھی بات نہیں ہے چہ جائیکہ ایک منتخب جمہوری حکمران یہ رویہ اختیار کرے۔ ابھی کل ہی وہ فرما رہے تھے کہ مجھ سے بڑا ماحولیات کا ماہر کوئی نہیں۔ اکثر کہتے ہیں میں جتنا مغرب کو سمجھتا ہوں کوئی نہیں سمجھتا۔ یا یہ بھی کہہ دیں گے پاکستان جتنا میں گھوما ہوں کوئی نہیں گھوما۔ یہ بات ذرا مختلف طریقے سے کہی جا سکتی ہے مگر یہ ان کا اسلوب بیان ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ان کی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جناب آپ وزیراعظم ہیں۔ اس رویے کی سب سے بڑی خامی یہ ہوا کرتی ہے کہ آدمی کو ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے۔
یہ تو اچھا ہوا کہ انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ کم سے کم بات تھی جو انہیں ہر حال میں کرنا چاہیے تھی۔ تاہم اپنی تقریر میں اس بات پر اصرار قائم رکھا کہ میں ہی درست ہوں باقی سب غلط ہیں۔ اپنی رائے پر اتنا اعتماد ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف بھی چارج شیٹ بنائی ہے، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جا کر کیوں کہا کہ خفیہ رائے شماری ترک کردینا چاہیے جبکہ بہت سے شواہد سے پتا چل گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ کون سا موقف درست ہے، رائے شماری خفیہ ہونا چاہیے یا کھلے عام۔ اصل بات غور کرنے کی تھی کہ الیکشن کمیشن اس کے علاوہ اور کیا موقف اختیار کرتا جو اس نے کہا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ رائے شماری خفیہ نہ کرائی جائے۔ آئین میں تبدیلی کرلی جائے تو دوسری بات ہے۔ اور یہ کہ آئین میں تبدیلی پارلیمان ہی کرتی ہے کسی عدالت کی رائے یا فیصلہ نہیں۔ اس میں کون سی غلط بات ہے کہ آپ نے الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگا دیا۔ بات تو وہی ہوئی کہ جو بات آپ کے حق میں نہ جائے وہ غلط ہے اور یہ کہ صرف آپ کی سوچ صائب ہے۔ میں یہاں یہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا کہ کن مقاصد کے لیے سیاسی جماعتیں کوئی موقف اختیار کرتی ہیں اور ان کے پچھلے ان کی کیا غرض مندیاں ہوتی ہیں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ بھی ہمارے وزیراعظم دل سے سمجھ رہے ہوں گے کہ الیکشن کمیشن غلط جارہا ہے، ایسے ہی جیسے نیب ٹھیک جارہا ہے۔
سینٹ کی اس نشست پر انتخاب کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جا رہی تھیں۔ مثال کے طور پر ایک یہ کہ اس کا مقصد عمران خان کو سبق سکھانا تھا، انہیں احساس دلانا تھا کہ آپ کے اردگرد د نیا بدل رہی ہے۔ اپنی اس دنیا کو اپنے چند یاروں تک محدود نہ رکھو جو آپ کی ہر بات پر ہاں سے ہاں ملاتے ہیں لیکن ایک اچھے لیڈر کی طرح اس بات پر غور کرو کہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کر کے آپ حالات کا رخ بدل سکتے ہو۔ ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہ لوگ بھی جو آپ کو بہت چائو سے لا ئے تھے اب یہ کہتے جا رہے ہیں۔ بہت محبت ہو گی تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال پورے تو کرلینے دو۔ آپ کو احساس ہے کہ وقت گزرتا جارہا ہے مگر آپ کا ذہن اس کا حل یہ نکالتا ہے یہ جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد عوام کے پا س جانا پڑتا ہے۔ خدا کے لیے سوچو، طاقت کے زور پر حالات کو بلڈوز تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کے نتیجے میں کچھ باقی نہیں بچتا۔ پوری طرز فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کل ہی کوئی کہہ ر ہا تھا کہ ابھی تک یہ یہی کہے جا رہے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا حالانکہ حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ اب انہیں اس سے ہٹ کر یہ کہیں کہ این آر دوں گا نہ لوں گا۔ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ ہر روز عسکری حکام سے ملنا، پھر اس کے بعد یہ اعلان کرنا کہ ملکی صورتحال اور سلامتی کے معاملات پر غور کیا گیا یہ اشارہ دینے کے لیے کافی ہے کہ ہماری مقتدر قوتیں بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ درست ہوگا کہ وہاں کسی تبدیلی کا نہیں سوچا جارہا ہوگا مگر حالات کوقابو رکھنے کے بارے میں تو غور کیا جارہا ہوگا۔ حالات اس وقت قطعاً قابو میں نہیں ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت کا گھوڑا سرپٹ بھاگا جارہا ہے اور اس پر بیٹھا سوار بے بس نظر آتا ہے جبکہ اس کا اصرار ہے کہ وہ شہہ سوار ہے۔ اب لوگ یہ بات سننے کو تیار نہیں کہ گھبرانا نہیں، میں جو ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ہر محب وطن پاکستانی گھبرا رہا ہے کہ ملک کا کیا بنے گا۔
اسلام آباد کے انتخاب کا اور کوئی مطلب ہو یا نہ ہو کم از کم اس سے یہ تو طے ہے کہ لوگ آپ کی حمایتی ٹیم سے مطمئن نہیں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ لوگ آپ سے تو توقع رکھتے ہیں مگر آپ کی موجودہ ٹیم کے ہوتے ہوئے انہیں کسی بہتری کی امید نہیں۔ لوگ کسی فیصل واوڈا کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ آپ کو آپ کی پارٹی نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ آپ زلفی بخاری، شہزاد اکبر، شہباز گل جیسوں کو آگے لا سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص اپنے اردگرد کے احباب سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک لیڈر کو خاص طور پر اس ٹیم سے پہچانا جاتا ہے جو اس نے اپنے اردگرد اکٹھاکر رکھی ہے۔ یہ آپ نے اچھا کہا کہ آپ اپنے ساتھیوں اور پارٹی کے لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں تاہم آپ کو شایداپنے مخالفوں تک بھی رسائی درکار ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ آپ انصاف و احتساب کی راہ میں رکاوٹ بنیں مگر آپ کو کوئی حق نہیں کہ اس راہ کا تعین اپنی مرضی سے کریں اور بغیر کسی منصفانہ عمل کے سب کو چور ڈاکو کہنے لگیں۔ سرکاری خزانے سے پلنے والے چند لوگ بغیر عوامی نمائندگی کے صرف اس کام پر مامور ہیں۔ سچ پوچھئے تو شاید لوگوں کو کسی پر بھی اتنا اعتبار نہیں جتنا ایک لیڈر پر ہونا چاہیے مگر وہ برداشت کرنے آتے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست کا اپنا کلچر ہے۔ اسے اپنائے بغیر آپ آگے نہیں چل سکتے۔ ہمارے رول ماڈل اس حوالے سے اس عہد میں ہمارے قائداعظم تھے۔ ان کی زندگی میں صرف معاشی دیانت نہ تھی بلکہ اخلاق کی وہ سطح بھی تھی جو ایک مسلمان میں ہونا چاہیے۔ وہ بھی جھوٹ نہ بولتے تھے، صادق تھے۔ کبھی خیانت نہ کرتے تھے، قومی امانتوں کے محافظ تھے، امین تھے۔ اس کے علاوہ پارٹی کی ایک عمدہ مثال تھے۔ ان کے بارے میں کبھی کوئی سکینڈل نہیں آیا جیساکہ نہرو تک کی زندگی کے بارے میں عام ہوا۔ وہ ایک اچھے مسلمان سیاستدان کی مثال تھے۔ یہ وقت ہے کہ سب کو اپنے انداز فکر پر غور کرنا چاہیے۔ میرے لیے اپوزیشن کے انداز کو بھی کلی طور پر سراہنا مشکل ہے تاہم اس وقت جو بھی بہتر اخلاقی معیار کو اپنائے گا اور جمہوری سیاست کو فروغ دے گا، وہی بچ پائے گا وگرنہ وقت کا سیل رواں سب بہا کر لے جائے گا۔
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے!