افغانستان کی جنگ کہتے ہیں ختم ہونے والی ہے مگر لگتا ہے خطے میں اس سے بڑی جنگ کا آغاز ہوا چاہتا ہے، ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ خلیج کی جنگ تو چند روز میں ختم ہو گئی تھی مگر خطہ اب تک حالت جنگ میں ہے، عراق ہی نہیں شام بھی اس کی زد میں آیا اور جانے اس خطے کے کون کون سے ممالک نے اس کی سزا بھگتی ہے اور آج تک بھگت رہا ہے۔ امریکہ نے ابھی چند روز پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ عراق میں جنگ ختم کر رہا ہے۔ کیا مطلب؟ یہی ناکہ امریکہ نے ابھی جنگ ختم نہیں کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ القاعدہ کو مفہوم ہی بدل گیا تھا اور ایک نیا خطرہ داعش کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ ہم اہل ایمان نے اس پر بہت لڈیاں ڈالی تھیں۔ ہم آج بھی مست ہیں کہ طالبان افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس جنگ میں طالبان کے خلاف امریکہ سے مل کر لڑے ہیں۔ ہم نے اڈے دیے، ڈرون ہماری سرزمین سے اڑتے رہے، ہم نے نیٹو کی فوجوں کو راہداری دی۔ ہر طرح سے امریکہ اور اس کے حواریوں کی مدد کی مگر سکھ کا سانس لینا پھر بھی نصیب نہ ہوا۔ ہمیں بہرحال میں مشکوک سمجھا گیا اور اب بھی سمجھا جارہا ہے۔
یاد رکھیے، ہمارے ہاں جو سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں، اس کے پیچھے بہت کچھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نوازشریف کی رخصتی سی پیک کا شاخسانہ تھا اور مقصد ہمیں امریکہ اور آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈالنا تھا۔ اس وقت جنگ افغانستان میں ختم ہورہی ہے، امریکہ جا رہا ہے، اسے ہماری ضرورت ہے مگر وہ ہم پر الزام دھرے جا رہا ہے۔ ایک بار پھر مطالبے ہورہے ہیں کہ ہم کچھ کر کے دکھائیں۔ ابھی کسی نے ایک ماہر سے پوچھا اور اس نے ایک امریکی کو جواب دیا۔ پوچھا گیا، کیا امریکہ ہمارا سی پیک سے رابطہ قبول کر لے گا، اس ماہر نے کیا نپا تلا جواب دیا کہ سوال یہ ہے کہ گوادر میں چینی بحریہ کے جہاز تو نہیں آتے۔ ایسا ہوتا ہے تو امریکہ اپنے مفادات کا دفاع کرے گا۔
اور اگر امریکی جہاز ان پانیوں کا رخ کرتے ہیں جو اگرچہ پہلے بھی ہیں تو کیا چین چپ بیٹھ جائے گا۔ بتائیے ہمارے لیے ایسے میں کیا راہ عمل ہے۔ ہم ایک شاہراہ ہی نہیں کھول رہے، خطے کے لیے ایک نیا تزویراتی لائحہ عمل بھی طے کر رہے ہیں۔ معاملات بہت سنجیدہ ہیں۔ صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ ہم امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔ ایسا امریکہ سیاسی حکومت سے مانگتا بھی نہیں۔ دفاعی معاملات کہیں اور یا اور طرح طے ہوتے ہیں۔ لگتا ہے زمین کروٹ لے رہی ہے۔ یہ نہ سمجھئے حکومت بدل رہی ہے بلکہ یہ اس سرزمین کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کو سمجھنا ہوگا۔ اس چیلنج کا جواب سیدھاسادانہیں۔ یہ معمولی بات نہیں کہ امریکہ کے صدر نے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ بعد تک ہمارے وزیراعظم سے ملاقات تک نہیں کی۔ یہ نہیں کہ جوبائیڈن سمجھتے ہیں عمران خان کے ٹرمپ سے تعلقات تھے۔ سب کو ان تعلقات کی نوعیت کا پتا ہے۔ ٹرمپ کیوں اور طرح کی باتیں کرنے لگے تھے۔ جوبائیڈن بڑے کائیاں آدمی ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی طرح وہ بھی اس خطے کی سیاست اور سیاست دانوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور شاید تحفظات بھی رکھتے ہیں مگر یہ سب باتیں امریکہ کی گرینڈ سٹریٹجی کے سامنے معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔
امریکہ پر 1996ء کے آخر سے اب تک پچیس سال امریکہ کے نو قدامت پسندوں کی ذہنیت کاقبضہ رہا۔ ان کا ایک بڑا ٹارگٹ تو عراق اور افغانستان کی جنگ سے پورا ہوا۔ دوسرا ہدف چین کے راستے میں ربع صدی تک رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا، وہ کرتے رہے۔ آخر میں ہم نے بھی امریکہ کا ساتھ دیا۔ اپنے حکمران بدل ڈالے اور سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں تاہم ا مریکہ یہ جنگ اگر ہار نہیں چکا تو جیت بھی نہیں پایا۔ اس نے دوسرے متوقع نتائج حاصل نہیں کئے۔ اب ٹھیک پچیس سال بعد وہ نئی حکمت عملی بنا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے ایسا وہ علاقائی انتشار پیدا کر کے کرے گا۔ عراق، شام، افغانستان سب انتشار کا شکار ہوں گے۔ اصل نشانہ پھر چین ہوگا۔ ہم ایک تو اس انتشار سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور دوسرے پورا خطہ ایک نئی بھول بھلیوں میں کھو جائے گا۔ عرض کیا نشانہ پھر چین ہے۔ وسط ایشیا، ایران، پاکستان، کشمیر، وسط ایشیا میں ازسرنو ایک نئی ترتیب بندی درکار ہے۔ ہم طوفان کے اتنے بڑے ریلے میں کہاں کھڑے ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ اب تک فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ ہمارے امریکہ سے دفاعی معاہدے تو کب کے ختم ہو چکے مگر یوں سمجھئے دفاعی تعلقات ختم نہیں ہوئے۔ نیٹو، سیٹو، معاہدہ بغداد وغیرہ کا زمانہ گزر گیا۔ نائن الیون کے بعد جو معاہدہ ہوا تھا وہ بھی ختم ہونے والا ہوگا مگر اس خطے کی دفاعی ضرورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ اسے چنگاری دکھائی جاتی رہے گی۔ کیا چین کی آگ بجھانے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی۔ چین ایسا اس لیے چاہے گا کہ اب یہ اس کا خطہ ہے اور اس کا فائدہ اسی میں ہے۔
جانے کسی کو سمجھ آیا میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ملک کے حالات نے نوازشریف اور عمران کی جنگ سے طے نہیں ہونا، جیسا کہ پہلے بھی اسے وجہ سے طے نہیں ہوئے تھے۔ یاد ر کھیے، ہمارے ملک میں آنے والی ذرا سی تبدیلی بھی معنی خیز ہوگی۔ یہ نہ سمجھئے حکومت بدلنے کی پیش گوئی کر رہا ہوں یا اس سے متبنہ کر رہا ہوں۔ بلکہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کا ڈھانچہ، یہ سب علاقائی تزویراتی حرکیات طے کریں گی۔