ظلم یہ ہوا کہ سید علی گیلانی کی شہادت پر ابھی میں لکھ نہ پایا تھا کہ دو اور بری خبریں آ گئیں۔ جی ہاں، میں اسے شہادت ہی کہوں گا۔ یہ شخص سامراجیوں کی قیدمیں حق و صداقت کا علم بلند کرتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ جب کبھی کوئی کشمیر کی تاریخ لکھے گا تو اسے اندازہ ہو گا کہ بہت بڑے بڑے مجاہدوں کے درمیان بھی یہ کتنا بڑا مجاہد تھا۔ کشمیر میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے نیلسن منڈیلا سے سخت قید کاٹی ہے اور ظلم سہے ہیں مگر انہیں اس لئے عالمی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی کہ ابھی عالمی ضمیر جاگا نہیں ہے اور اسے اپنے اندر کی خلش کو مٹانے کے لئے اپنے گناہوں کے اعتراف کرنیکی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ ضمیر جاگا تو وہ خود بتائیں گے یہ کتنا بڑا شخص تھا۔
میں نے عرض کیا کہ اس کے ساتھ ہی دو خبریں اور آئیں۔ میں علی گیلانی پر بہت مفصل لکھنا چاہتا تھا اور لکھتا رہوں گا، کیونکہ یہ ایسی شخصیت تھے جسے مری نسل ہی نہیں آنے والی نسلیں بھی بار بار یاد کرتی رہیں گی۔ جب بھی ان سے بات ہوئی انہوں نے جس شفقت سے فون پر مرے پروگرام کے لئے رائے دی بلکہ دعائیہ انداز میں تحسین بھی کی، یہ بزرگانہ شفقت بھولنے والی نہیں ہے اور یہ محبت ان کے لئے پورے کشمیر اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لئے بھی تھی۔ ہاں تومیں ذکر کر رہا تھا ان دو بطل ہائے جلیل کا جن کا ان دنوں انتقال ہواہے۔ وہ دونوں اسی عمر کے تھے نوے سال کے قریب، مجھے نہیں معلوم کہ تاریخ ان کو اس طرح یاد رکھ پائے گی یا نہیں جیسے سید علی گیلانی کو یقینا یاد رکھے گی۔ تاہم وہ مری تاریخ کے اہم کردار تھے یوں کہیے تین مقدس روحیں ہم سے رخصت ہوئی ہیں۔
ان میں ایک عطاء اللہ مینگل تھے۔ شاید انہیں آج ہم صرف اختر مینگل کے والد کے طور پریاد رکھیں مگر وہ کئی لحاظ سے ایک ایسے پاکستانی تھے جن کی وجہ سے ہماری نسل میں روشنی کی کرن پھوٹتی تھی۔ جب بھٹو کا نیا پاکستان بنا یعنی مرے قائد اعظم کا پاکستان دولخت ہو گیا تو وہ بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے۔ پہلی بار یہ صوبہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد قائم ہوا تھا۔ یہاں اور سرحد(خیبر پختونخواہ) میں اس زمانے کی نیپ کی حکومت قائم ہوئی۔ ولی خاں کی یہ نیپ جو اباے این پی ہے صرف بائیں بازو کی جماعت نہ تھی بلکہ اس زمانے میں جمہوریت کے لئے ایک روشن امید تھی۔ پنجاب اور سندھ میں بھٹو نے حکومت بنائی تو سرحد و بلوچستان میں اس جماعت نے۔ مفتی محمود سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے توعطاء اللہ مینگل بلوچستان کے۔ غوث بخش بزنجو گورنر تھے اور خیر بخش مری گویا سرپرست تھے۔ بلوچستان اسمبلی نے اپنا سفر بڑے جمہوری انداز میں شروع کیا۔ عطاء اللہ مینگل نے اعلان کیا کہ وہ اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور یہی اعلان سرحد میں مفتی محمود نے کیا۔ جن پر علیحدگی پسندی کا الزام تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کتنے پاکستانی ہیں۔ عطاء اللہ مینگل کا یہ فقرہ تو گویا زبان زد عام تھا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ لیں گے۔
میں اس لئے انہیں یاد کر رہا ہوں جہاں سید علی گیلانی کا یہ نعرہ کہ ہم پاکستان ہیں، پاکستان ہمارا ہے، اس طرح عطاء اللہ مینگل کا یہ فقرہ اس زمانے میں ٹوٹے ہوئے پاکستان میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے مرہم بن گیا تھا۔ پھر کیا ہوا۔ بھٹو نے سرحد، بلوچستان کی حکومتیں توڑ دیں۔ پارٹی پر بندش لگا دی۔ حیدر آباد ٹربیونل میں ان پر غداری کے مقدمات چلائے۔ ان دنوں میں کراچی منتقل ہوا تو مینگل صاحب کو ملنے گلشن اقبال میں ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ جذبات سے معمور انہوں نے استقبال کیا اور اپنے علاقے کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ان کے لہجے میں ایک عزم اور خوش دلی تھی۔ پھر وہ دن یاد ہے جب ضیاء الحق نے انہیں بھٹو کے حیدر آباد ٹربیونل سے نجات دلائی۔ وہ جیل سے رہا ہوئے۔ انہیں سیدھا کراچی کے امراض قلب کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ علاج کے لئے انہیں باہر لے جایا جانا تھا۔ میں ان سے ملنے گیا، ان کے لہجے میں اب وہ جذبہ نہ تھا۔ انہوں نے مایوسی کے عالم میں کہا سب کچھ ہی بدل گیاہے، کیا باقی بچا ہے۔ میں بھی اس دن پہلی بار مایوس ہوا تھا۔ سارے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ یہ انہی کا اثر ہے کہ سب کچھ کے باوجود ان کا بیٹا اختر مینگل اب تک وفاق کی سیاست کر رہاہے وگرنہ ہم نے اس کے ساتھ بھی کیا کچھ نہیں کیا۔
جس تیسری مقدس روح کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ اس نوعیت کی شخصیت ہیں کہ ہم فراموش کر دینے والے لوگ شاید انہیں بھول جائیں۔ اب بھی بھول چکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایوب خاں کے زمانے میں مغربی پاکستان اسمبلی میں صرف چار چھ افراد ہوا کرتے تھے، ایم حمزہ ان میں بہت نمایاں تھے۔ فقیر منش انسان تھے۔ گوجرہ میں وہ اپنے گھر کے باہر چارپائی پر سوتے تھے تاکہ ضرورت مندوں کے لئے رات گئے بھی دستیاب رہیں۔ اسمبلی میں سائیکل پر آیا کرتے تھے مگر اقتدار کے ایوانوں میں ان کی آوازسے لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ ایسے لیجنڈپارلیمنٹرین تھے کہ جب میں یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے لاہور منتقل ہوا اور ایوب خاں کے خلاف تحریک چلی تو ایک دن ہم جلوس نکالنے والوں نے دیکھا کہ ایم حمزہ ایک پرانی سائیکل پر سر پر مخصوص ٹوپی پہنے اسمبلی کی سیڑھیوں تک آن پہنچے ہیں۔ مجمع کاجوش و جذبہ دیدنی تھا۔ ایم حمزہ کو اپنے درمیان دیکھ کر طلبہ پاگل ہوئے جا رہے تھے۔
مجھے ایک بار ان کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا جب نورالامین اپنے آٰخری عوامی دورے پرنکلے تو میں بھی ان کے ہم رکاب تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور ایم حمزہ سب ساتھ تھے۔ ہم جب ملتان پہنچے تو ایک نادار سیاسی رہنما کے ہاں ٹھہرے۔ صبح سحری میں معمول کے مطابق پراٹھے اور انڈے وغیرہ آئے۔ میں ان کے ساتھ ان کے کمرے ہی میں رہائش پذیر تھا۔ حمزہ صاحب کو یہ پریشانی تھی کہ یہ لوگ اتنا تکلف کیوں کر رہے ہیں، بس ایک سادہ روٹی اور رات کا سالن کافی تھا۔ اس سفر میں ان کی شخصیت کے کئی پہلو مرے سامنے آئے۔
مرے لئے یہ ناممکن تھا کہ میں ان مقدس روحوں کو فراموش کر جاتا۔ سید علی گیلانی کے بارے میں تو مرے جذبات سے سبھی آگاہ ہیں اور میں ان کا دوبارہ بھی ذکر کروں گا اور بار بار کروں گا۔ میرے ساتھی مجھے معاف کریں اس وقت اس کا حق ادا نہیں کر پا رہا مگر وہ کتنے خوش ہوں گے کہ میں پاکستان کی تحریک آزادی کے ان حریت پسندوں کو نہیں بھولا۔