نظریہ پاکستان فائونڈیشن میں ایسے مہمانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے، جو بہت کچھ سوچنے سمجھنے کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ آج بھی یہاں بنگلہ دیش کے ایک مہمان کی آمد تھی، محمود الرحمان پیدائشی پاکستانی ہے، یعنی پیدا تو وہ اسی جغرافیے میں ہوئے تھے، جسے آج ہم بنگلہ دیش کہتے ہیں، مگر اس وقت یہ پاکستان تھا۔ ان کا تفصیلی تعارف اور تذکرہ تو پھر کبھی سہی، مگر یہاں جو اہل فکر و نظر کی محفل تھی اس میں یہ سوال سامنے آیا کہ پاکستان جو ترقی کی شاہراہ پر چوکڑیاں بھر رہا تھا۔ پیچھے کیوں رہ گیا۔ اس پر ہزار ہا نکتہ ہائے نظر ہو سکتے ہیں، مگر اس وقت ہمیں یہ سوال بہ نظر دیگر مد پیش ہے۔ ہم پریشان ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسلام آباد میں افواہیں پھیلتی ہیں۔ پہلے انہیں افواہیں سمجھا جاتا ہے، پھر وہ حقیقت بن جاتی ہیں۔ بے نظیر کی برطرفی ہو یا نواز شریف کے خلاف مشرف کی بغاوت سب کی خبریں تاریخ تک کے ساتھ پہلے ہی آ گئی تھیں۔ گزشتہ دنوں سے بھی اسلام آباد افواہوں کی زد میں ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، یہ افواہیں لاہور تک بھی آ پہنچی تھیں، باخبر حلقے ان افواہوں کی تصدیق کر رہے تھے، تاہم حکومت نے کمال کر دکھایا کہ اس کے ترجمانوں نے صاف لفظوں میں اس کی تائید کر دی کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان آئی ایس آئی کے تقرر پر اختلافات ہیں۔ پھر بتایا گیا یہ اختلاف ختم ہو رہے ہیں۔ اب گویا تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے گویا چند دن پہلے جس تقرری کا اعلان فوج کے محکمہ اطلاعات نے کیا تھا۔ وہ قبل از وقت تھا۔ کہا جا رہا ہے۔ ہو اب بھی وہی رہا ہے جو ہو چکا ہے۔ جانے والا دوسری ذمہ داری پر چلا جائے گا اور آنے والا اپنی ذمہ داری سنبھال لے گا۔ بات کو آگے لے جانے سے پہلے ایک عرض داشت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
وہ یہ کہ شیخ رشید وغیرہ جو ایک بات کہہ رہے ہیں کہ آنے والے چار چھ ماہ اہم ہیں۔ تو وہ غلط نہیں۔ میں کھل کر یہ تو نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ وہی ہو رہا ہے جس کا اندیشہ وفاقی وزیر کو تھا صاف لفظوں میں کہوں تو امریکہ کی وزیر خارجہ چیک لسٹ لے کر پاکستان آئیں تو بھارت میں وضاحت کرتی ہوئیں آئیں کہ پاکستان سے ہمارے معاملات افغانستان تک ہیں۔ کسی باخبر صحافی نے اشارہ دیا ہے کہ معاملہ اس قدر سادہ نہیں ہے جیسا حکومت کی طرف سے بتایا جا رہا ہے۔ گھنٹوں کی میٹنگ صرف یہ مسئلہ طے کرنے کے لئے تھی۔ آئی ایم ایف بجلی، تیل اور ٹیکسوں کے حوالے سے جو نئی شرائط لئے بیٹھا ہے، وہ ملک کی کمر توڑ کر رکھ دیں گی۔ وہ چین سے ہمیں وہ قرضے بھی نہیں لینے دے رہا، جو چینی بنک ایم ایل ون کے ریلوے منصوبے کے لئے چینی بنک کی منظوری حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کی عجیب مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ ایسے میں کشمکش ہونا لازمی تھا۔
میں خدانخواستہ یہ نہیں کہ رہا کہ فوج اور سول حکومت ان معاملات پر پیج پر نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ یہ وہ حالات ہیں جس نے ہر صورت میں کھچائو کو جنم دیا ہو گا۔ یہ کہا جا رہا ہے اور حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ کا کچھ عرصے کے لئے تبادلہ نہیں چاہتے تھے(حالانکہ یہ ان کے کیریئر کا سوال ہے۔ یہ ادارہ چونکہ اندرونی سکیورٹی بھی دیکھتا ہے۔ اس لئے لامحالہ اس کا کچھ اور مفہوم لیا گیا ہو گا۔ کسی نے پوچھا جانے والے پر اعتراض ہے یا آنے والے پر، یا پروسیجر پر۔ اگر اعتراض تیسرا ہے تو پھر اسے اتنا طول نہیں کھینچنا چاہیے تھا۔ اب ایک نئی تھیوری مریم نواز لے کر آئی ہے، جس سے لگتا ہے حساس تقرریاں جادو ٹونے سے کی جاتی ہیں۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے اعتراض شاید اس تاریخ پر تھا، جس پر نئی تقرری کر دی گئی۔ خدا ہی جانے!مریم نے تو یہ بھی پوچھا کہ اگر یہ جنات کی حکومت اتنی کارگر ہے تو اسے عوام کی بہبود کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا۔
خیر ایسی باتیں تو ہر دور حکومت میں ہوتی تھیں۔ بے نظیر کسی کی جھڑیاں کھایا کرتی تھیں اور زرداری کو ان کے پیر مشورہ دیتے تھے کہ انہیں سمندر کے پاس رہنا ہے یا پہاڑوں کے دامن میں۔ شریفوں کے بھی کچھ ایسے تعلقات کا تو کچھ پتا ہے مگر وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ کہنا صرف میں یہ چاہتا ہوں کہ پاکستان کے مقدر کے فیصلے کبھی پاکستان کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ مجھے نہیں معلوم ہم نے حماقتیں کی ہیں یا تاریخ نے یہ رول ہمیں عطا کر رکھا تھا، جو ہم ادا کرتے آئے ہیں۔ ہم بار بار درست راستے پر آتے آتے بھٹک جاتے ہیں۔ ہم نے کبھی آزادانہ فیصلے نہیں کئے۔ تاریخ نے جب موقع دیا ہم سے کرامتیں سرزد ہوئیں، یہ ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی مثال ہے۔
یہ صرف عبدالقدیر خان کا نام نہیں بلکہ اس میں جانے کن کن افراد نے کس کس طرح سے کام دکھایا۔ جی میں یہی کہوں گا۔ کام دکھایا ہمیں پھر راستے سے ہٹا کر ایک گمراہ کن راستے پر لگا دیا گیا۔ ہم نے اکیسویں صدی کے آغاز میں جس طرح امریکہ کی غلامی کی وہ بے پناہ شرمندگی کا معاملہ ہے۔ ہم اس سے ذرا ہٹ کر چلے تو دوبارہ رگڑ دیے گئے۔ نواز شریف، عمران خاں، زرداری مجھے کسی سے غرض نہیں، صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہم عالمی حالات کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائے جاتے رہے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ ایک بار پھر ایسا نہ ہو۔ ویسے اس وقت بھی ہم ٹکٹکی پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ ہمیں کسی سے اچھائی کی امید نہیں رکھنا چاہیے نہ اپنی قیادت سے نہ کسی اور سے۔ غیروں کی تو بات چھوڑو۔ ان خراب حالات میں کشمکش کا پیدا ہونا معمولی بات نہیں ہے، یہی کہہ سکتا ہوں، وقت دعا ہے، آئو مل کر اللہ کے حضور جھک جائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ یہ سب اسی کی سزا ہی تو ہے۔