دفتر قائد اعظم کے مزار کے عین سامنے تھا۔ یہ بند رروڈ کا ایک سرا ہے۔ یہاں سے ہر طرف سڑکیں نکلتی ہیں۔ بڑا ہی پررونق علاقہ ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سڑک پار کرنا اتنا مشکل تھا کہ لمبا انتظار کرنا پڑتا۔ پھر وہ زمانہ آیا جب کراچی میں روز ہڑتال ہونے لگی، کرفیو لگنے لگا۔ ہنستا بستا بلکہ چیختا چلاتا شہر سونا ہونے لگا۔ آپ آرام سے یہ سڑک بھی ایسے پار کر سکتے تھے جیسے اپنے گھر میں ٹہل رہے ہوں۔ یہ تجربہ بار بار ہونے لگا تو ایک دن دل میں ہوک سی اٹھی اور بے ساختہ یہ دعا نکلی اے خدا، میں اپنی شکایتیں واپس لیتا ہوں۔ اس سڑک کی اور اس شہر کی رونقیں بحال کر دے۔ شور شرابے کی شکایت کروں گا نہ بے ہنگم ہجوم کی۔
ویسی نہ سہی، مگر اس طرح کی کیفیت آج کل مرے دیس کے تمام شہروں کی ہو رہی ہے۔ وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔ یوں کہہ لیجیے کہ ایسی خاموشی ہے کہ دعا نکلتی ہے کہ یا رب میرے شہر کی رونقیں بحال کر اور یہ سوچ کر تو خوف آنے لگتا ہے کہ اگر اس وبا پر فوری قابو نہ پایا جا سکا تو یہ سناٹا بہت بڑھ جائے گا۔ اب تو شکائتیں آ رہی ہیں کہ خلق خدا چل پھر کیوں رہی ہے۔ پھر یہ نہ ہو کہ ہم کوئی اپنے اکیلے پن سے ڈرنے لگیں۔
ہم کہا کرتے تھے کہ یہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے مگر اس کا مطلب اب سمجھ آیا کہ کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا ایک باہمی درد میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس میں سب سے انہونی بات یہ ہوئی ہے کہ امیر غریب کے سارے فرق مٹ گئے۔ جن ملکوں کے پاس بے پناہ وسائل ہیں اور جو سائنس اور ٹیکنالوجی بھی بہت آگے ہیں، وہ بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ یہی نہیں کہ پاکستان رو رہا ہے کہ ہمارے پاس وافر مقدار میں وینٹی لیٹر نہیں ہیں بلکہ نیو یارک کا میئر بھی اعلان کر رہا ہے کہ بیماری اور پھیلی تو اطلاع دے رہا ہوں میرے پاس اتنے وینٹی لیٹر نہیں کہ شہر کو اس مشکل صورت حال سے بچا سکوں۔ انسان کی عقل جواب دے جاتی ہے۔ جہاں مذہب کی جڑیں مضبوط ہیں، وہاں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ عیسائی دنیا میں روم کو ایک تقدس حاصل ہے۔ پاپائے روم یہیں رہتے ہیں۔ ملک میں گرجائوں کی تقدس مآبی بھی ہے۔ دوسری طرف ایران کا مرکزی مذہبی شہر قم ہے۔ اثنا عشری اسلام میں جو حیثیت قم اور نجف کو حاصل ہے، وہ کسی اور شہر کو نہیں۔ علم اور علماء کے مراکز ہیں۔ یہ کرونا کا مرکز بن گیا۔ میں نے اس پر ایک آدھ مضمون بھی دیکھا ہے۔ اجتہادی غلطیاں گنوائی گئی ہیں۔ تو کیا ٹرمپ کی اجتہادی غلطیاں اس معاملے میں کچھ کم ہیں۔ بہرحال یہی نہیں اب حجاز مقدس میں بھی مسجدیں ویران ہو گئی ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ حج کی رسم ادا نہ ہو پائے۔ سعودی حکومتوں نے عالم اسلام کے ممالک کو مطلع کر دیا ہے کہ ابھی ہوٹلوں میں کمرے بک نہ کرائیں۔ الجزیرہ نے تو خبر بھی دے دی ہے۔ ہو سکتا ہے چند مقامی لوگوں کے ساتھ حج کی رسم ادا کر دی جائے۔ مگر وہ جسے حج کہتے ہیں، وہ شاید پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع آب و تاب سے نہ ہو پائے۔ عمرہ تو ایک طرح سے موقوف ہی ہے۔ پورے عالم اسلام میں جمعہ بہت احتیاط سے ادا ہو رہا ہے۔ مسجدوں سے اذان ہوتی ہے جس میں نماز کی طرف بلانے کے بجائے یہ الفاظ ادا کئے جاتے ہیں کہ نمازیں اپنے گھروں ہی میں ادا کریں۔ یہ بات بھی عہد نبویؐ کے ایک حکم نامے سے استنباط کی گئی ہے جب بارش کی وجہ سے مسجد نبوی میں حضورؐ کے حکم سے حضرت بلالؓ نے اس طرح اذان کے ذریعے لوگوں کو سہولت دی تھی۔
ایک طرف تو ہم کرونا سے نپٹ رہے ہیں، دوسری طرف مذہبی حلقوں میں بحثیں چھڑی ہوئی ہیں۔ سعودی علما اس بات پر الجھے ہوئے ہیں کہ اس وبا کی وجہ سے آیا عمرہ بند کرنا جائز ہے یا نہیں۔ کہیں کہیں مذہب اور سیاست ٹکرا رہے ہیں۔ ایران کے حوالے سے تو میں نے بہت دلچسپ گفتگو پڑھی ہے جس میں ولایت فقیہہ کے پورے تصور ہی پر گفتگو ہے۔ ایران کے شہر قم میں آیت اللہ سعیدی یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا کرونا وائرس کے ڈر سے روضے پر نہ آنا ایمان کی کمزور ی ہے۔ ذرا سوچئے اس وقت پاکستان میں کتنے لوگ چاہے وہ سنی فقہ سے تعلق رکھتے ہوں یا شیعہ فقہ سے اسی قسم کا مزاج اور رویہ رکھتے ہیں اور اسی شہر قم سے آیت اللہ مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ کسی شخص تک کرونا وائرس کو منتقل کرنے کا گناہ قتل کے برابر ہے اور اس کی سزا دیت ہے۔ یہ مضمون کسی حمزہ ابراہیم کا ہے۔ یہ وہ بحث ہے مذہبی حلقوں میں بلا تفریق مسلک و فرقہ جاری ہے۔ ہو سکتا ہے اٹلی میں بھی اس طرح کی باتیں ہوتی ہوں۔ کم از کم غیر مذہبی پیراڈائم میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے۔ وہ سمجھتے رہے کہ یہ وائرس ان پر اثر نہیں کرے گا۔
اجڑی اجڑی اداس گلیاں اور سڑکیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ان کی رونقیں بھی ہمارے ذہن کو شاق کرگزرتی تھیں اور یہ کہ عملی طور پر جب معاملات بگڑتے نظر آئیں تو ان کا جواب عقل ہی سے دیا جاتا ہے۔ میں کہ عشق و عقل کی بحث میں اقبال کی طرح عقل کا مخالف ہوں عرض کر رہا ہوں کہ عقل سے فرار کا یہ مطلب نہ لیا جائے جو ہمارے بے عقل دوست عام طور پر لے لیا کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں اور اس کا ان کے پاس جواز بھی ہوتا ہے۔ اس جواز کو وہ مذہبی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس میں انتہائیں بن جاتی ہیں۔ سنا ہے، دوچار روز پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں قبلہ جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے مزاج کے مطابق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ تک کہا کہ طبی نبوی نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں ہے۔ حضورؐ ایک نبی تھے۔ طبیب نہیں تھے۔ اس طرح کے مفروضے بنانے میں وہ ماہر ہیں۔ مثلاً ایک آدھ سال پہلے انہوں نے فرمایا کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ دینی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین کا کام صرف افراد کی تربیت ہے۔ حکومت کرنے کے لئے اور لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے وبا سے بچنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تلاش کرنے کے لئے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مطلب کہ ادھر تو نظر اٹھا کر نہ دیکھو، صرف سائنس کی طرف دیکھو۔
کیا کروں یہ بات مان لیتا، مگر نری سائنس سے بھی تو کوئی رہنمائی نہیں مل رہی۔ ایسی باتوں ہی سے تو معلوم ہوا ہے کہ خدا موجود ہے۔ انسان کی ساری عقل ساری سائنس ساری ذہنی صلاحیتیں جواب دے گئی ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ مراقبے میں جا بیٹھو۔ ویسے کیا حرج ہے سماجی دوری کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے۔ دعا کرو کہ ہماری رونقیں لوٹ آئیں۔ ہم محفوظ رہیں اور وہ سب کچھ کرو جس کے کرنے کا عقل مشورہ دیتی ہے۔ عقل اس کام کے لئے تو ہے۔ بس یہیں کام اس سے لو۔ تم تو خدا کے وجود کو تلاش کرنے کے لئے اس سے مدد مانگنے لگتے ہو۔ عقل کا یہ کام نہیں ہے۔ بہت ہو گئی آئو مل کر دعا کریں کہ وقت دعا اور عقل سے کام لو کہ اس کی ضرورت ہے۔