چین، قطر اور ترکی تین ممالک ایسے تھے جنہیں ہماری موجودہ حکومت نے نواز شریف کا دوست سمجھ رکھا تھا۔ اس بات کا خیال مجھے آج ایک ایسی خبر سے آیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ وہ جو بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں مہنگے بجلی کے منصوبے لگائے ہیں، اس کا باب بند کر دیا گیا ہے۔ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ جو قیمت طے ہو چکی ہے، اس میں تبدیلی نہ ہو گی۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ پاکستان اس بات کی کوشش کر رہا تھا کہ چین کسی طرح بجلی کے منصوبوں میں طے شدہ شرائط میں نرمی کر کے مزید رعایت دے۔ یہ اس لئے تھا کہ حکومت پاکستان شور مچا سکے کہ نواز شریف ہمیں مہنگی بجلی دے گیا تھا۔ ہم نے چین سے ازسر نو مذاکرات کر کے نرخ کم کرانے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ وہ قطر کی حکومت کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ گیس کے سلسلے میں پاکستان میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ اس وجہ سے کہ موجودہ حکومت ثابت کرنا چاہتی تھی کہ پرانے والوں نے قطر سے مہنگی گیس خریدی ہے۔ اسی کشمکش میں حکومت نے انرجی سیکٹر کا ستیا ناس کر دیا۔ نہ بجلی سستی ہوئی نہ گیس وافر میسر آئی، ہم اپنے دو چار مشیر یا معاون خصوصی بھی نکال چکے ہیں۔ بالآخر ہم نے مان لیا ہے کہ ہم اب چین سے اس مسئلے پر بات نہیں کریں گے۔
شہباز شریف کا تو دعویٰ ہے کہ انہوں نے بجلی کے سستے ترین منصوبے لگائے اور شاہد خاقان عباسی اعداد و شمار سے ثابت کرتے ہیں کہ اگر ہم فرنس آئل پر چلنے والے پلانٹ چلا چلا کر مہنگی بجلی پیدا نہ کرتے اور گیس سے بننے والی بجلی میں اضافہ کرتے تو آج بجلی مزید سستی ہو جاتی۔ سستے ترین منصوبے دینے والا چین اب مزید کیسے رعایت دیتا۔ ہم نے سی پیک کو ایک طرح سے ختم کر رکھا تھا اس معاملے میں سی پیک اتھارٹی کے حالیہ سربراہ کا بیان اہم ہے کہ تین سال میں کچھ نہیں ہوا۔ اگر اس معاملے پر غور کریں تو ملک کے ساتھ اقتصادی طور پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ ہم ترقی کے سفر میں بہت آگے نکل چکے ہوتے۔ انرجی اور لاجسٹک کے مسائل ہم نے تقریباً حل کر لئے تھے۔ اب صنعتی ترقی اور نئی سرمایہ کاری کے آغاز کا وقت آ چکا تھا۔ اس معاملے میں بھی چین ہمارے ساتھ تھا۔ دنیا بھر کا سرمایہ ہمارے ہاں آنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ مجھے تو یہ خیال گزرتا ہے کہ گزشتہ حکومت کو رخصت ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ سی پیک کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ بڑی بات لگتی ہے مگر قرائن اسے درست ثابت کرتے ہیں۔
اس وقت ہمیں پھر سی پیک کی حاجت محسوس ہو رہی ہے۔ ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ یہ اب تک تکمیل کے آخری مراحل میں ہونا چاہیے تھا۔ بھاشا ڈیم سی پیک کا حصہ نہیں مگر داسو کی طرح اس سے جڑا ہوا ضرور تھا۔ ہم نے کالا باغ کو تباہ کیا، اب بھاشا پر بھی تقریباً ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یہ پاکستان کے خلاف ایک مجرمانہ غفلت ہو گی۔ کسی کو اندازہ ہے ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔ مشرف نے کالا باغ کے خلاف پروپیگنڈے کے سامنے ہتھیار ڈال کر 2010ء تک پانچ ڈیم بنانے کا اعلان کیا تھا جن میں بھاشا، داسو سمیت دو اور ڈیم بھی شامل تھے۔ کتنے برس گزرگئے، ہم کیا چاہتے ہیں۔
افغان مسئلے پر خطے کی بدلی ہوئی صورت حال کی وجہ سے امریکہ کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر ہمیں پھر سی پیک کی یاد آتی ہے، چین کے ساتھ دوستی یاد آتی ہے۔ ہم نے بالآخر یہ بات تسلیم کر لی کہ ہم خوامخواہ بجلی کے منصوبوں کے خلاف صف آرا رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پن بجلی سب سے سستی ہے مگر کیا وہ اس دور سیاہ میں ہمیں دستیاب تھی۔ ایک رکا ہوا منصوبہ تھا بلکہ ایک طرح سے ہم اسے ترک کر چکے تھے۔ باقی تو ہم انتظار میں ہیں۔
ہمارے دوست اور ملک کے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے مرے ساتھ ایک پروگرام میں تخمینہ پیش کیا کہ پاکستان کی اس سال شرح نمو2.9فیصد ہو گی اور جب اس حکومت کا آخری سال ہو گا تو 3.3فیصد۔ اس پر کبھی ہم ہندوگروتھ ریٹ کی پھبتی کسا کرتے تھے۔ ہم خطے کے ممالک سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس سال بنگلہ دیش کی شرح نمو 6.5فیصد اور بھارت کی 7.5فیصد ہے۔ ہم آبادی بڑھائے جا رہے ہیں۔ ترقی کی رفتار کو بریکیں لگائے ہوئے ہیں۔ میں جب بھی کسی ماہر معاشیات سے بات کرتا ہوں تو کانپ کانپ جاتا ہوں۔ معیشت لونڈے لپاڑوں کی بھڑکوں سے سدھرنے والی نہیں۔ اس کے لئے ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے۔
ہم امریکہ کے شکنجے میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ امریکہ میں ان دنوں اس خطے کے چار اتحادیوں کا اجلاس ہو رہا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت نے اپنے مفاد ایک کر لئے ہیں۔ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا امریکہ سے دشمنی مول لو، مگر یہ بات طے کر لو کہ اب آپ خطے میں امریکہ کے اتحادی نہیں ہیں۔ ایوب خاں نے جب فرنیڈز، ناٹ ماسٹرز لکھی تھی تو اس وقت یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ اول روز سے ہم کس حکمت عملی پر گامزن ہیں اور اس نے بلا شبہ ہمیں غلام بنا کر رکھ ڈالا ہے۔
خارجہ پالیسی تو اس کا نام ہے کہ ہمیں اس وقت جس تلوار کی دھار سے بھی باریک پل پر چلنا پڑ رہا ہے۔ اس کا بندوبست کیسے کریں۔ یہ سفر تو طے کرنا ہے۔ بہرحال یہ ہم نے درست کیاکہ خواہمخواہ چین سے جھگڑتے رہنے کے بجائے اس معاملے کو طے کر لیا۔ اگر ہم پرانوں پر کرپشن ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے دوستوں کو بھی ناراض کر لیں۔ جنہوں نے بڑے مشکل وقت میں آپ کی مدد کی۔ ان کے خلاف ہی لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں پورٹ قاسم کے پاس جو پہلا کوئلے کا کارخانہ لگا وہ چین کی ٹیکنالوجی اور قطر کا سرمایہ تھا ہم نے قطری خط کہہ کہہ کر قطر کو مذاق بنا دیا۔ آپ کو اب پتا چلا کہ عرب کن باتوں کا برا مانتے ہیں، آپ کو مزید علم ہو جائے گا کہ ہم سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر ہمیں پہلے احساس نہ تھا کہ تاریخ کا دھارا کس رخ بہہ رہا ہے تو اب اندازہ ہو جانا چاہیے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اور ہم پہلے یہ بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ مزید قطعاً گنجائش نہیں ہے۔