شہزاد احمد جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی شاندار فقرے باز بھی تھے۔ تخلیق کار میں یہ صلاحیتیں مل جائیں تو کئی بار کمال اظہار پاتی ہیں چنانچہ جب 28مئی کو پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو شہزاد نے اس پر بے ساختہ تبصرہ کیا۔ اب ادب دو طرح کا ہو گا ایک وہ جو 28مئی سے پہلے کا ہے اور دوسرا جو اس کے بعد لکھا جائے گا۔ اس فقرے کو آپ اگر جغرافیائی تقسیم سمجھنے کا گناہ نہ کریں بلکہ ایک تخلیقی تقسیم کے طور پر لیں تو اس کا مفہوم درست طور پر سمجھ آ سکتا ہے۔ انسانوں کی تاریخ میں ایسے تجربات آتے ہیں جو ان کا نقطہ نظر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ پوری زندگی کو ایک نیا رنگ دے دیتے ہیں مگر اس کا اظہار صرف ادب یا فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔ آج جب میں یوم تکبیر پر لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے شہزاد کا یہ تبصرہ یاد آ رہا ہے۔
شہزاد احمد کا مجھے ایک اور نغمہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے 71ء کی جنگ میں لکھا تھا مجھے یاد ہے کہ شہزاد نے اسے بعد میں خوشدلی سے قبول نہیں کیا۔ شاید وہ اسے بھلا دینا چاہتے تھے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اسے اپنے نام سے منسوب نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ اس کا دکھ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ میں اس لئے اسے کچھ کچھ یاد رکھے ہوئے ہوں کہ دکھ یاد رکھنا بھی ایک بہت قیمتی تجربہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان کو کیسے فراموش کر دیا۔ اب ہماری تاریخ کی درسی کتابوں میں ملک ٹوٹنے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس دکھ کے سمندر میں اتر کر اس کی اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ نہ لگا سکے اور ملک کو اس سانحے کے طفیل جو روحانی اور تہذیبی احساس ملنا تھا وہ نہ مل سکا۔ اس وقت میں اس سانحہ پر نہیں لکھ رہا، یوم تکبیر کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ وگرنہ اس حوالے سے تو کہنے کو بہت کچھ ہے بہرحال عین حالت جنگ میں شہزاد احمد لکھا:
دشمن نے اس زمیں پر نیپام بم گرائے
معصوم شہریوں کے آباد گھر جلائے
تیرے قدم نہ ڈولے تو ہے جری بلا کر
ڈھاکہ، عظیم ڈھاکہ
دوسرا بے مثال بند مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے کچھ اس طرح تھا کہ تری مسجدوں کے گنبد اور شاندار مناروں سے ٹکڑا کر دشمنوں کا رخ بدل گیا۔ یہ اس زمانے کا ایک ہی ملی ترانہ ہے مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ ترانہ ریڈیو سے نشر ہوا میں ساہیوال میں تھا۔ مجید امجد سے ملنے سٹیڈیم ہوٹل گیا تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے آج آپ کے دوست کا بہت شاندار ترانہ ریڈیو پر آ رہا ہے پھر انہوں نے اس کے دو ایک بند زبانی سنا ڈالے۔ انہیں یاد تھے اور وہ بہت شاد اور مسرورتھے۔ افسوس ہم اس شادمانی اور سرور کو قائم نہ رکھ سکے مگر اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اس سانحہ کا صفحہ ہماری زندگیوں کی کتاب سے پھاڑ ڈالنا چاہا۔ تخلیقی ذہن ایسا نہیں کرتے۔ میں ہمیسہ سوچا کرتا ہوں کہ ہم تخلیقی سطح پر سانحہ مشرقی پاکستان کی بھٹی میں ڈھل کر کندن کیوں نہ بن سکے یہ ایک الگ داستان ہے۔
ہم نے تقسیم کے تجربے کو بہت تخلیقی سطح پر لیا تھا ایسی ایسی تحریریں لکھی گئیں کہ وہ تجربہ ہماری زندگی بن گیا۔ پھر ہماری زندگیوں میں ایسا لمحہ کیوں نہ آیا۔ 65ء کی جنگ بھی نہیں !اس جنگ کے بارے میں صحافتی انداز میں بہت کچھ لکھا گیا اور یہ صحافتی انداز بہت جاندار ہے۔ آنے والے مورخین کے لئے بڑا قیمتی اثاثہ ہے مگر ادبی سطح پر شاید کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ پا سکا۔ مجھے مجید امجد کی چار چھ نظمیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک تو وہ جس پر میں نے مصطفی زیدی کو لوٹتے پوٹتے دیکھا اور دوسری وہ کہ جب دو چار سال کے وقفے سے دو سرے راستے ایک دوسرے ملک سے ادبی مواد آنا جانا شروع ہوا تو بھارت کے ایک نامور افسانہ نگار رام لعل نے اس نظم "سپاہی" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جنگ نے ہمیں بہت تلخیاں دیں مگر اردو ادب کو مجید امجد سپاہی جیسی عظیم نظم بھی عطا کر دی۔
اصل میں اسے تمہید کہہ لیجیے مگر یہ اس مضمون کا ابتدائیہ ہے کہ آیا شہزاد کی یہ بات درست ثابت ہوتی کہ ادب اب دو طرح کا ہو گا ایک وہ جو 28مئی سے پہلے کا ہے دوسرا وہ جو بعد کا ہے۔ میں بار بار یاد دلاتا ہوں کہ یہ قوم بعض، بعد بہت بڑے تخلیقی تجربات سے گزری مگر تخلیقی سطح پر اس کے نقوش نہ چھوڑ سکی۔ کشمیر وغیرہ رہنے دیجیے اس پر بہت سے لوگ جذباتی ہو جائیں گے۔ ہمارے سروں پر سے افغانستان کی قیامت گزر گئی۔ کیا ہمارے ادب میں اس کا اظہار ہو پایا۔ چھوڑیے آپ طالبان کے خلاف ہی لکھ پاتے۔ اسے دہشت گردی کا خوف ناک تجربہ بنا کر دکھا دیتے۔ اہم بات یہ نہیں کہ آپ کا نظریہ کیا ہے۔ آپ کی فکر کا جھکائو کس طرف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دریائے آموسے لے کر بحرہ روم کی موجوں تک بستی یہ قوم کس طرح ایک بالکل نئے تجربات سے گزری۔ انسانی روح نے کیسے کیسے زخم برداشت کئے عالمی طاقتوں کی کشمکش اور حکمرانوں کی حماقتیں بھی نظر آ جائیں جس کی خاطر بے شمار خاندانوں کی زندگیاں بدل گئیں جس نے بے شمار لوگوں کی معاشرت کو بدل دیا۔ وہ مری روح کے تاروں کو کیوں نہ چھیڑ سکا۔
یہ جو یوم تکبیر ہے اس پر کیا بحث ہو رہی ہے کچھ بھلے مانس سارا کریڈٹ بھٹو کو دینا چاہتے ہیں کچھ سب کچھ نواز شریف کی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں بعض اے کیو خاں کے گن گانا چاہتے ہیں۔ کچھ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے تئیں آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔ فکشن کیا۔ ہم نے تو اس پر کوئی نان فکشن تک ڈھنگ سے نہیں لکھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم اس واقعے کی روح ہی کو سمجھ نہیں پائے کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں ہم نے اس کا نام یوم تکبیر درست رکھا یا اس کا نام کچھ اور ہونا چاہیے تھا۔ کیا اس میں کوئی تکبر کی بو تو نہیں آتی یا یہ نعرہ متنازعہ ہے۔ چلئے نام میں کیا رکھا ہے اسے ایک قومی معرکہ سمجھنے کے بجائے بعض لوگوں نے کفر و دین کی لڑائی بنا دیا اور ہم دھڑوں میں بٹ گئے بعض تنگ نظروں نے تلوار اٹھا لی اور چل پڑے یہ بتانے ہم یہ دھماکہ نہ کرتے تو اس کے فلاں فلاں فائدے ہوتے۔ ہم بٹ گئے سیاست کے خانوں میں۔ ایک طرف افغانستان کی جنگ جاری تھی اور ہمارے ہاں مشرف کا دور تھا۔ دوسری طرف کشمیر کا محاذ گرم تھا اور ادھر پھر مشرف ہی تھا۔ شاید میں بھی بات کو محدود کر رہا ہوں۔ یوم تکبیر کا تجربہ بھی کارگل کی برف پوش چوٹیوں ہی میں الجھ کر رہ گیا۔
پتا نہیں جنون میں کیا کیا بک گیا ہوں جس کو سچ مچ ایک تجربہ بننا تھا۔ ہم اس کا نام لینے سے بھی شرمانے لگے ہیں۔ جتنے سانحے ہم پر بیت گئے سب دانشوری کی نظر ہو گئے۔ اللہ ہمیں وہ دانشوری عطا کرے جسے اقبال نے دانش نورانی کہا ہے ناکہ دانش برہانی۔ جب سانحات واقعات الجھے اور حیرت و خوشی کے لمحات اپنی اصل ہیت کھو دیتے ہیں تو پھر وہ آپ کی روحوں کو سیراب نہیں کرتے۔ آگے گفتگو دقیق ہو جائے گی۔ یہیں بات ختم کرتے ہیں۔