Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aham Shakhsiyat Ke Aham Doray

Aham Shakhsiyat Ke Aham Doray

گزشتہ دنوں وطن عزیز پاکستان میں دنیا کی دو اہم ترین شخصیات کی تشریف آوری کی وجہ سے بڑی رونق اور گہما گہمی بھی رہی اور ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں اس مبارک آمد آمد کا بڑے زور و شور سے خوب چرچا بھی ہوا۔

سب سے پہلے ترکی کے مرد آہن صدر رجب طیب اردوان تشریف لائے جن کا نہایت پرتپاک و پرجوش اور فقید المثال استقبال کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے معزز مہمان کی گاڑی خود ڈرائیو کرکے حق میزبانی ادا کردیا۔ کیفیت یہ تھی کہ بقول شاعر:

آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

ترکی کے صدر نے ترک عوام سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی بے لوث اور والہانہ محبت اور قربانیوں کا ذکر چھیڑ کر گویا دلوں کے تار چھیڑ دیے۔ ماضی کا وہ منظر فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گزر گیا جب ہماری ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں نے تحریک خلافت کے موقع پر اپنے ترک بھائیوں کی جدوجہد کی تہہ دل سے حمایت کی خاطر اپنے کانوں کی بالیاں تک اتار کر ان کی نظر کردی تھیں اور فضا اس بلند آواز سے گونج رہی تھی:

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

صدر اردوان نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت میں اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ تمام مصلحتوں سے بالاتر ہوکر ببانگ دہل کہا۔ بقول اقبال:

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

ان کی حق گوئی اور بے باکی سے مودی سرکار کے کرتا دھرتاؤں کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور بھارت نے ترکی کے ساتھ اپنی تجارت میں کمی کرنا شروع کردی ہے۔ صدر اردوان اس وقت پوری مسلم دنیا کے مقبول اور محبوب ترین رہنما ہیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر بائیس کروڑ پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں کہ کشمیر کے ساتھ جو تعلق آپ کا ہے وہی ہمارا بھی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم عظیم شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کی ترکوں کے بارے میں لکھی گئی نظموں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے علامہ محمد اقبال کی نظم بعنوان "حضور رسالت مآبﷺ میں " کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی اپنے خطاب میں پڑھ کر پاکستانی عوام کے دل موہ لیے۔ بلاشبہ ترکی اور پاکستان کے عوام یک جان دو قالب ہیں جن کے بارے میں بلاخوف تردید ڈنکے کی چوٹ پر بے دھڑک کہا جاسکتا ہے:

دو دل دھڑک رہے ہیں پر آواز ایک ہے

نغمے جدا جدا ہیں مگر ساز ایک ہے

ترکی زبان بہت شیریں اور الفاظ و معانی سے مالا مال ہے۔ اردو کا کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ "ہوا" بھی ترکی زبان سے ہی مستعار ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ترکوں اور ترکی سے انتہائی قربت اور محبت کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ:

زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم

ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد ہے جب ہمارے معاشرے میں شرفا ترکی ٹوپی بڑے ذوق و شوق سے استعمال کیا کرتے تھے اور اسے شرافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم تادم آخر ترکی ٹوپی اپنے سر پر بڑے فخر سے سجائے رہے۔

ترکی کے صدر کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہت فروغ اور استحکام حاصل ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس دورے کے مقاصد حاصل کرلیے گئے تو یہ دورہ اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے دونوں برادر ملکوں کے حق میں ایک Turning Point اور انقلاب آفریں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ "نشستند، گفتند و برخواستند" کی روش کو ترک کیا جائے اور عملیت پسندی کی راہ اختیار کی جائے اور مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کی نگرانی کے لیے ایک مستقل اور متحرک و فعال مانیٹرنگ کا نظام قائم کیا جائے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے کامیاب دورے کے ختم ہوتے ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس پاکستان کے 4 روزہ اہم دورے (16 تا 19 فروری 2020) پر تشریف لے آئے تو بھارت میں ایک بار پھر کھلبلی مچ گئی۔ سچ پوچھیے تو ان کا یہ دورہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کی بہترین اور مثالی خدمات کا برملا اور کھلا اعتراف تھا۔ اپنے اس دورے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بذات خود ان بہت سے معاملات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جن کے بارے میں انھوں نے اب تک صرف لوگوں کی زبانی سنا تھا یا میڈیا کے ذریعے معلوم کیا تھا۔

ان کے اس دورے سے بھارت کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول بھی کھل گیا کہ پاکستان میں آباد اقلیتوں کو ڈرایا و ستایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیکریٹری جنرل نے اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان اپنی معاشی دشواریوں کے باوجود گزشتہ چالیس سالہ طویل عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔

70 سالہ پرتگیزی شہری انتونیو گوتریس جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں بے شمار خوبیوں کے حامل ہیں، ایک عظیم مدبر ہونے کے علاوہ ایک جہاں دیدہ تجربہ کار، انصاف پسند اور دردمند انسان بھی ہیں۔ آپ سات سال تک پرتگال کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ چونکہ وہ مشرقی تیمور کے تنازع کے حل میں بنیادی کردار ادا کرچکے ہیں اس لیے انھیں مسئلہ کشمیر کے حل میں گہری دلچسپی ہے۔ مگر وہ اس سلسلے میں اپنی بے بسی کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ وہ بھارت کی جارحیت اور غاصبانہ پالیسی سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ انھیں یاد ہے کہ بھارت نے گوا (Goa) کو پرتگیزیوں سے طاقت کے بل پر چھین کر اسے جبراً بھارت کا حصہ بنایا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی بھی یہی کہانی ہے۔ قارئین کی معلومات کی خاطر عرض ہے کہ جب بھارت نے ریاست جونا گڑھ پر غاصبانہ قبضے کی طرح دسمبر 1961 میں فوج کشی کرکے گوا (Goa) پرتگیزی حکومت سے چھینا تھا تو گوا سے نکالے گئے پرتگیزی شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں کراچی میں پناہ حاصل کی تھی۔ یہ بات انتونیو گوتریس کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی نوعیت اور شدت کا بھی انھیں اسی لیے احساس ہے۔ چنانچہ افغان مہاجرین کے متعلق عالمی کانفرنس میں ان کی شرکت نے ان کے دورہ پاکستان کی اہمیت کو مزید اجاگر کردیا ہے۔

جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا سوال ہے تو سیکریٹری جنرل کا یہ برملا اور کھلا مگر تلخ اعتراف بھی مبنی برحقیقت ہے کہ اقوام متحدہ چند عالمی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جس کی وجہ سے سیکریٹری جنرل کی حیثیت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ یعنی:

تنخواہ تھوڑی کر دے

پر نام داروغہ دھر دے

اقوام متحدہ یا یو این او (UNO) کی حیثیت اور اوقات کے حوالے سے بزرگ و معروف شاعر سید محمد جعفری مرحوم کے درجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجیے:

یو، این، او کے پیٹ میں سارے جہاں کا درد ہے

وعدہ فردا پہ اڑ جانے کے فن میں مرد ہے

گرچہ پٹواتا فلسطیں میں خود اپنی نرد ہے

ایسی قوموں سے خفا ہے جن کی رنگت زرد ہے

کتنا اچھا فیصلہ کرتا رہا کشمیر کا

"کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا"

ڈالیے اس کے گزشتہ کارناموں پر نظر

وادی کشمیر کے قضیے کو ٹالا کس قدر

فیصلے کا وقت جب آیا تو بولا حیلہ گر

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ مگر

ایسی باتوں سے وہ "مہرو" بدگماں ہو جائے گا

یہ نہیں سوچا کہ بدنام جہاں ہو جائے گا