ہم توہم پرست کبھی نہیں رہے اور نہ آیندہ کبھی ہوں گے۔ البتہ محض برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بچپن میں ایک جیوتش نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ ہم سفر بہت کریں گے جس میں سمندر پار کے سفر بھی شامل تھے۔ گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہم ایک چھوٹے سے قصبے میں زیر پرورش تھے اور پانی کے خوف کا عالم یہ تھا کہ ہم جوہڑ میں پاؤں رکھتے ہوئے بھی تھر تھر کانپتے تھے۔
رہی بات سفر کی تو اس کا دور پرے کا بھی کوئی امکان اس لیے نہیں تھا کہ ہمارا دائرہ کار گھر سے لے کر اسکول تک محدود تھا۔ مگر جب ہم ابتدائی تعلیم سے فارغ ہوئے تو ہمیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یوپی کے اپنے ننھیال قصبے کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر دلی کا رخ کرنا پڑا جہاں ہمارے والدین مقیم تھے۔
بس یہی ہمارے اسفارِ زندگی کا نقطہ آغاز تھا۔ اب اور کتنے اور کہاں کہاں کے سفر زندگی میں باقی ہیں ان کا علم صرف اس خالق کو ہے جس نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ درحقیقت ہماری زندگی خود ایک سفر ہے جس کا اظہار اس برجستہ شعر کی صورت میں ہوا ہے۔
کون کہتا ہے اپنے گھر میں ہیں
جب سے پیدا ہوئے سفر میں ہیں
اور جب یہ زندگی کا سفر تمام ہوگا، آخرت کا سفر شروع ہوجائے گا جس کا انت کبھی نہیں ہوگا اور جو خدا جانے کب تک جاری و ساری رہے گا۔ فانی نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
قصہ مختصر، ہمارے سفروں کا سلسلہ بیل گاڑیوں سے شروع ہوا کیونکہ کسان گھرانے کی سواری یہی ہوا کرتی تھی۔ دوسری سواری تانگہ یا ٹم ٹم تھی جسے گاؤں سے شہر تک آنے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر بسیں اور موٹر گاڑیاں آگئیں۔ ریل گاڑیاں دور دراز کے سفر اور مخصوص علاقوں تک ہی محدود تھیں۔ ہوائی اور بحری سفرکا تصور عام نہیں تھا۔ اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ فضائی سفر ہمارا معمول بن جائے گا۔ کوچہ جوانی میں قدم رکھا تو یہ شعر ہماری نظر سے گزرا:
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگانی بھی رہی تو نوجوانی پھر کہاں
اس وقت جسم میں بڑا دم خم بھی تھا اور گھومنے پھرنے کا بہت شوق اور ولولہ بھی تھا۔ لیکن افسوس کہ معاشی حالات سازگار نہ تھے۔ گویا منہ میں دانت تو تھے لیکن چبانے کے لیے چنے میسر نہیں تھے۔ یوں نوجوانی کے سنہرے ایام غم روزگار اور گردش زمانہ کی نذر ہوگئے۔ آپ بیتی مختصراً یہ کہ:
ہم رہ گئے حیات کے گیسو سنوارتے
عہدِ شباب چپکے سے ہوکر گزر گیا
یہ مشہور کہاوت تو آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی کہ "خدا جب دینے پر آتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے۔" ہمارے ساتھ بھی سچ مچ اس وقت یہی ہوا جب دوران ملازمت ہمیں جاپان جانے کا نادر موقع میسر آیا۔ پھر جب ہمیں حج اور اس کے بعد عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تو گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اس کے بعد تو گویا اسفار کا بند دروازہ کھل گیا۔ مسقط اور دبئی ہمارے لیے گھر آنگن بن گئے جہاں ہماری صاحبزادی اور لخت جگر مدت دراز سے مقیم ہیں۔
گزشتہ ماہ دسمبر کے اختتام پر ہم ابھی مسقط سے واپس ہی آئے تھے کہ دبئی کا پروگرام بن گیا۔ کسی نے واقعی کیا خوب کہا ہے:
ملک خدا تنگ نیست
پاء گدا لنگ نیست
چنانچہ جلد جلد تیاری کی اور نئے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس مرتبہ ہماری منزل مقصود دبئی تھا۔ 19جنوری کی صبح جب ہم کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تو وہاں روز محشر کا سا سماں تھا۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بدانتظامی کی انتہا تھی۔ ہم اور ہماری اہلیہ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے سخت پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا؟ اگرچہ ہماری پرواز کے لیے چیک اِن شروع ہوچکی تھی لیکن اندر داخل ہونے کے دور پرے تک کوئی آثار نہیں تھے۔ شاید ہمارا ڈرائیور پورٹر کی تلاش میں سرگرداں تھا لیکن کامیابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔
اچانک امید کی کرن پھوٹی اور شاہد کوشش بسیار کے بعد ایئرلائن کے دو وہیل چیئر والوں کو کھوج کر لانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ تھا "نیا پاکستان" کا نیا منظر نامہ۔ بے چارے وہیل چیئر والے نوجوان سعادت نے کہیں سے سامان کی ٹرالی تلاش کرکے اپنے اسم بامسمی ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا اور اپنے ساتھی ماجد کے تعاون سے بورڈنگ تک کے تمام مراحل کمال چابک دستی اور آسانی سے طے کرا کر ہمیں حق خدمت اور دعائیں دینے پر مجبور کردیا۔ اس مرتبہ ہم نے سفر کے لیے دبئی کی مشہور و معروف ایئرلائن کا انتخاب کیا تھا تو فرق صاف نظر آیا۔ سب سے پہلے وہیل چیئر والے مسافروں کو جہاز پر سوار کرایا گیا۔ جہاز کے عملے کی میزبانی بھی قابل تعریف تھی۔
اگرچہ بوجوہ جہاز کی پرواز میں 15 منٹ کی تاخیر ہوگئی تھی تاہم جہاز ٹھیک وقت پر ہوائی اڈے پر اترا۔ دبئی میں چونکہ آج کل ٹورازم کا سیزن ہے اس لیے دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح دبئی کا رخ کر رہے ہیں اور یہاں جشن کا سماں ہے۔ بزرگ شہریوں اور وہیل چیئر کے مسافروں کے لیے ہر مرحلے میں خصوصی انتظامات تھے، اس پر عملے کا برتاؤ سبحان اللہ!
دبئی کا پاکستان سے موازنہ دلچسپ بھی ہے اور باعث تکلیف بھی۔ اہل نظر قیادت نے لق و دق صحرا کو نہ صرف گلزار بنا دیا ہے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لیے بھی مقناطیسی کشش کا مرکز بنا دیا ہے۔ جسے دیکھو دبئی چلا آرہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ دبئی کی تعمیر و ترقی میں پاکستان کے محنت کشوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان بدحال اور روبہ زوال ہے جہاں عام آدمی کا جینا بھی محال ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے، یہی سب سے بڑا سوال ہے؟ اس بڑے سوال کا چھوٹا سا جواب ہے بے لوث اور اہل نظر قیادت کا کال یا شدید فقدان۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
اقوام عالم کی خوشحالی اور ترقی و کمال کا اصل راز طرز حکمرانی میں نہیں بلکہ مخلص اور باکمال قیادت میں مضمر ہے جس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس حوالے سے انگریزی زبان کے ایک نام ور شاعر اور دانش ور ایلگزینڈر پوپ کا یہ قول زریں یاد آرہا ہے:
"for forms of government let fools contest whatever admistered best is the best"
مفہوم: طرز حکومت کی بحث میں احمقوں کو الجھنے دیں۔ بہتر طرز حکومت وہی ہے جس کا انتظام و انصرام بہترین ہے۔ دبئی اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے کسی شاعر کا کہا ہوا درج ذیل شعر برجستہ نوک زبان پر آ جاتا ہے:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصور بنا آتی ہے
دبئی ایئرپورٹ کے پیسنجر لاؤنج سے نکل کر باہر آئے تو صاحبزادے انجینئر وقاص فاروقی اور ان کی اہلیہ بیٹی ڈاکٹر ندا کو اپنے کم سن پوتے سعد فاروقی کے ہمراہ سراپا انتظار پایا۔ بے قراری کی یہ کیفیت بیان سے باہر تھی۔ بس عالم یہ تھا کہ:
"آملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک"
تقریباً نصف گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم گھر پہنچ چکے تھے۔ دو سال قبل جب ہم پہلی مرتبہ یہاں آئے تھے تو بہت سے میدان خالی پڑے تھے مگر اب وہاں بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چکی تھیں۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اگر سمت درست ہو اور عزم محکم ہو تو کوئی رکاوٹ ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آسکتی۔
(جاری ہے)