دبئی میں موسم بہت خوشگوار ہے جسے اپنے پیاروں کی موجودگی نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔ وقاص میاں کا اپارٹمنٹ بھی خوب ہے۔ روشن، کشادہ اور ہوا دار، شمال کی سمت خوب صورت لاؤنج سے دبئی کے مرکزی علاقے کا منظر دیدنی ہے جہاں بلند و بالا برج خلیفہ بالکل ناک کی سیدھ میں واقع ہے۔ بڑا شان دار Panoramic View ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔ بس Seeing is Believing۔
رات کا منظر سحر انگیز ہوتا ہے۔ تاحد نظر رنگ بدلتی ہوئی جھلملاتی روشنیاں دبئی کو جادونگری میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ شنیدن کے بود مانند دیدن۔ دبئی سیاحوں کی جنت ہے۔ یہاں آپ کو دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے بھانت بھانت کے لوگ گھومتے پھرتے نظر آئیں گے لیکن ہر کوئی اپنی دھن میں مگن اور اپنی دنیا میں گم۔ کیا مجال جو کوئی چھیڑ چھاڑ کرسکے یا کسی کو گھور کر دیکھنے کی جرأت کر سکے۔ ہر طرف قانون کی حکمرانی ہے۔
آپ آدھی رات کو بھی سونا اچھالتے ہوئے بے خوف و خطر کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ دبئی کے مال اسی کا طرہ امتیاز ہیں جہاں دنیا جہان کی چیزیں دستیاب ہیں۔ انھیں خریدنے کے لیے قارون کا خزانہ بھی ناکافی ہوگا۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال ہے۔ اسے گھوم پھر کر دیکھنے کے لیے بے تحاشا وقت اور فولادی ٹانگیں درکار ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہاں محض سیر و تفریح یا ونڈو شاپنگ کی غرض سے آتے ہیں اور یہاں کے فوڈ کورٹس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یہاں تعمیر و ترقی کا عمل ہر آن اور ہر لمحہ مسلسل جاری وساری ہے۔ دبئی کے وژنری حکمرانوں کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے عمل میں پاکستان کے محنت کش اور ہنرمند کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ پاکستان کے ان کماؤ پوتوں کی نہ تو حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی پشت پناہی اور رہنمائی۔ اس کے برعکس مودی سرکار کی متحرک سفارت کاری کی بدولت دبئی ہی نہیں بلکہ پورے متحدہ عرب امارات میں ان بھارتیوں کا غلبہ ہے۔
درحقیقت اگر مسلم ممالک میں پاکستان کے سفارت خانے فعال اور متحرک کردار ادا کریں تو مودی سرکار کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں اور مسئلہ کشمیر بھی حل کروایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں سے لاہور میں تاریخ ساز اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اور اس کے ثمرات کی جانب محض ایک اشارہ ہی کافی ہوگا۔ کاش حب الوطنی کے دعویدار ہمارے برسر پیکار قائدین وطن عزیز سے اپنی محبت کا کوئی عملی ثبوت پیش کرسکیں۔
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
ذکر ہو رہا تھا دبئی کا اور بات کہیں سے کہیں نکل کر کہیں اور تک جا پہنچی۔ آمدم برسر مطلب، برخوردار وقاص فاروقی نے اختتام ہفتہ 6 فروری شب جمعرات دبئی بائی نائٹ کا پروگرام بنایا۔ طے پایا کہ سب سے پہلے کسی اچھی جگہ جاکر رات کا کھانا کھایا جائے۔ نظر انتخاب "وکھّہ" نامی پاکستانی ریسٹورنٹ پر پڑی جس کا کھانا لاجواب اور میزبانی بے حساب ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ریسٹورنٹ کے شریک ملکیت نوجوان وقاص جو ہمارے صاحبزادے کے ہم نام نکلے بہ نفس نفیس ہماری میزبانی کے لیے ہمہ وقت حاضر تھے، جس نے کھانے کا لطف دوبالا کردیا۔ دبئی جانے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ دبئی جائیں تو "وکھّہ" کا کھانا ضرور کھائیں۔
کھانے سے فارغ ہوتے ہی ہم جمیرہ اسٹریٹ پر ڈرائیو کے لیے نکل پڑے۔ ایسا لگتا تھا گویا دبئی کا سارا حسن بس یہیں پر سمٹ آیا ہے۔ یہ وہ توبہ شکن مقام ہے جہاں اشجار ممنوعہ کی ایسی فراوانی ہے کہ اگر مغل شہنشاہ بابر کی روح کا یہاں سے گزر ہو تو بے ساختہ کہہ اٹھے "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست"۔ مرزا غالب کی تاکید بھی یہی ہے کہ:
جس کو ہو دین و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں
ساحل سمندر سے متصل جمیرہ کی جنت نظیر عروسی حسن کی شاہکار شاہراہ کا رات کا منظر بیان سے باہر ہے۔ جگمگاتی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ مجاز نے ایسے ہی منظر کے لیے کہا ہوگا:
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پر آوارہ پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
جمیرہ اسٹریٹ کے دونوں اطراف کھانے پینے کے دلکش مراکز، بیوٹی پارلرز، ہیلتھ سینٹرز، ہائپر اسٹورز، کمرشل سینٹرز، انواع و اقسام کی اشیا سے بھرے سجے شاپنگ مالز اور دعوت عیش دیتے ہوئے کلب واقع ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ تھوڑے فاصلوں پر اہل ایمان اور خدا پرستوں کے لیے فن تعمیر کا شاہکار دور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ مساجد کا بھی اہتمام ہے جس کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ دنیاداری بھی رہے اور یاد باری بھی رہے۔
جمعہ اور ہفتہ کو متحدہ عرب امارات میں عام چھٹی ہوتی ہے۔ لہٰذا طے شدہ پروگرام کے مطابق نماز جمعہ سے فارغ ہوکر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد العین میں واقع چڑیا گھر کا رخ کیا اور سہ پہر کے ٹھیک تین بجے اپنی قیام گاہ سے روانہ ہوئے۔ تقریباً دس منٹ کے بعد ہماری گاڑی العین جانے والی سہہ رویہ کشادہ شاہراہ پر فراٹے بھر رہی تھی۔ چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم دبئی کی حدود سے نکل کر العین کے خطے میں داخل ہوئے تو تبدیلی کا احساس ہوا۔ سبزہ، کھلی ہوا اور کثیرالمنزلہ عمارتوں اور صنعتی ماحول سے آزاد تازگی بخش فرحت آمیز قدرتی فضا۔
چند منٹ بعد ہم العین کے خوبصورت اور وسیع و عریض چڑیا گھر کے احاطے میں داخل ہوگئے۔ دبئی میں اپنی قیام گاہ سے یہاں تک 126کلومیٹر کی مسافت طے کرنے میں ایک گھنٹہ 15منٹ لگے۔ چڑیا گھر قابل دید اور اس کا انتظام لائق تعریف تھا۔ کم عمر بچوں اور معذور افراد کا داخلہ بالکل مفت تھا۔ معذور افراد کے لیے مفت وہیل چیئرز بھی فراہم کی گئی تھیں۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ کہ وزیٹرز کی سہولت کے لیے کرائے کی گاڑیاں بھی موجود ہیں۔
العین کے وسیع و عریض چڑیا گھر کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تمام جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول میں رکھا گیا ہے۔ ان جانوروں میں شیروں اور چیتوں کے علاوہ دیگر بہت سے چرند پرند شامل ہیں جن کی مجموعی تعداد 4000 سے زیادہ ہے۔ تاحال ان میں ہاتھی اور ریچھ شامل نہیں جن کا اضافہ جلد متوقع ہے۔ یہ چڑیا گھر جبل حفیت کے زیریں حصے میں 990 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ چڑیا گھر کی سیر کرتے کرتے مغرب کا وقت ہو گیا۔ تقریباً تین گھنٹے کا طویل عرصہ گویا پلک جھپکتے میں گزر گیا۔