Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Coronavirus Aur Buzurg Shehri

    Coronavirus Aur Buzurg Shehri

    کورونا وائرس محض ایک وبا نہیں بلکہ ایک بلائے ناگہانی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ بہ حیثیت انسان ہماری انتہا سے زیادہ بڑھتی ہوئی بداعمالیوں کی جزوی اور معمولی سی سزا ہے۔ بقول یگانہ یاس چنگریزی:

    خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا

    بڑے بڑے تیس مار خاں جو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے کورونا کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان اور بازار ویران ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین جو رات گئے گھر واپس آیا کرتے تھے اب اپنے اپنے گھروں کی چار دیواری میں قید ہوکر بزبان اقبال صفی پورہ یوں شکوہ کناں ہیں :

    یا ہم سے پریشان تھی خوشبو یا بند ہیں اب کلیوں کی طرح

    یامثل ضیاآوارہ تھے یا گھر سے نکلنا مشکل ہے

    انسان کو معاشرتی حیوان (Social Animal)کہا گیا ہے۔ دوسرے انسانوں کی صحبت انسان کے لیے ناگزیر ہے، لیکن کورونا وائرس کے جبر نے مجلسی انسان کو گوشہ تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ مرزا غالب کی روح حالات کے اس جبر پر تڑپ رہی ہوگی کیونکہ انجمن ساز اور مجلس باز مرزا کا شدید اصرار تھا کہ خدارا:

    قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے

    کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

    البتہ ڈاکٹر بشیر بدر کے لیے یہ بات باعث مسرت ہوگی کہ لوگوں کو مٹرگشتی ترک کرکے ان کے درج ذیل شعر پر عمل پیرا ہوکر گھر بیٹھنے کی تلقین کی جا رہی ہے :

    یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

    وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

    شدید ابتلا اور کڑی آزمائش کی اس نازک ترین گھڑی نے فیض احمد فیض کی اس دل کو چھو لینے والی نظم کی یاد تازہ کردی ہے جو انھوں نے 38 سال قبل کہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ نظم کورونا وائرس کے حوالے سے موجودہ حالات کے تناظر میں تخلیق کی گئی ہو۔ اس آفاقی نظم کے مصرعے ملاحظہ فرمائیں :

    مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے

    لیکن مرے دل، یہ تو فقط ایک گھڑی ہے

    ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

    آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا کردار بلاشبہ تعریف کے قابل اور لائق تحسین ہے۔ عوام الناس کو تازہ ترین خبروں کی ترسیل، ملکی اور غیر ملکی حالات حاضرہ سے آگاہ رکھنے اور دیگر پروگراموں کے ذریعے رہنمائی و آگاہی فراہم کرنے میں حکومت پاکستان قوم کا ترجمان ریڈیو پاکستان حسب روایت پیش پیش ہے۔ ادھر پرنٹ میڈیا کی دوڑ میں اپنا روزنامہ ایکسپریس خبروں، وقیع اداریوں، بے لاگ تبصروں اور متنوع کالموں کی بدولت آگے آگے ہے۔

    عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کے حوالے سے بھی ہمارے میڈیا کا کردار نمایاں اور لائق تحسین ہے۔ لیکن پاک فوج اور ہمارے طبی عملے کی مثالی کارکردگی سرفہرست ہے جس کی جتنی بھی تعریف و ستائش کی جائے کم ہے۔

    سب سے زیادہ حوصلہ اور امید افزا بات یہ ہے کہ مخیر حضرات اور خیراتی ادارے ضرورت مند افراد کی دل کھول کر مدد اور خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔

    باکسنگ کے سابق چیمپئن عامر خان نے پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ غریب خاندانوں کی امداد کے لیے چار کروڑ روپے کے خطیر عطیہ کا اعلان کیا ہے۔ شاہد آفریدی میدان عمل میں بے حد سرگرم ہیں۔ ادھر اربوں روپوں کے مالک پاکستان کرکٹ بورڈ نے کورونا متاثرین غریبوں کی امداد کے لیے وزیر اعظم امدادی فنڈ میں 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماردی ہے۔

    ہمارے ذاتی مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ عادی نشے باز قسم کے لوگ بے روزگار محنت کشوں کا روپ دھار کر مخیر حضرات کو دھوکا دے کر لوٹ رہے ہیں۔ مرزا غالب ان بہروپیوں سے خوب خبردار کرچکے ہیں :

    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ان ڈاکوؤں سے ہوشیار رہیں۔ ڈاکوؤں سے وہ لوگ بھی کم نہیں جو آفت کی اس گھڑی میں بھی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرکے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ بقول نظیر اکبر آبادی:

    گر تُو ہے لکھی بنجارہ

    اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے

    اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا

    اک اور بڑا بیوپاری ہے

    سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا

    جب لاد چلے گا بنجارہ

    جو زندگی کو خدا کی امانت اور دکھی انسانیت کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کورونا کے خلاف اگلے مورچوں پر پاکستان اور پاکستانی قوم کی سلامتی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہماری مراد ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈک اور ان کے معاونین پر مشتمل اس پورے عملے سے ہے جس میں صفائی کرنے والے خاکروب بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ خادم قوم نہیں فخر قوم ہیں۔ پوری قوم اپنے ان جاں باز مسیحاؤں کو سلام پیش کرتی ہے۔ یہی مسیحا ہماری قوم کے جاں فروش مجاہد اور حقیقی ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض ان میں سرفہرست ہیں۔

    کہا جا رہا ہے کہ کورونا کی وبا سے سب سے زیادہ خطرہ بزرگوں کو ہے لیکن بزرگوں کا تذکرہ محض زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ عملاً ان کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ انھیں صرف یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ ان میں بیمار، معذور اور وہ بزرگ بھی شامل ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے بچے بیرون ملک مقیم ہیں۔

    لاک ڈاؤن کی وجہ سے بعض بزرگوں کے ملازمین ان کی خدمت کے لیے اپنی ڈیوٹی پر بھی نہیں آسکتے۔ اور جو ملازمین آنے کے لیے تیار ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے جن سے اجازت حاصل کرنا ان ملازمین کے لیے آسان نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان بزرگوں کا پرسان حال کون ہوگا؟ ان بزرگوں کی حالت یہ ہے کہ بقول غالب:

    پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

    اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

    حکومت کو چاہیے کہ ان بزرگوں کی مدد کے لیے فوری اقدامات کرے۔