دل کو ہمارے جسم میں ہی نہیں بلکہ ہماری شاعری میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ریاضی کے مشہور و معروف استاد خواجہ دل محمد نے جو ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے اور دوہا نگاری میں اپنی ایک مخصوص شناخت کے حامل ہیں اپنا تخلص بھی دل ہی رکھنا پسند کیا۔
دل کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ کوئی اسے وحشی کہتا تو کسی اور کا کہنا ہے کہ دل تو پاگل ہے۔ کسی نے اسے دریا قرار دیا ہے تو کوئی اسے پتھر یا سنگ ثابت کرنے پر مصر ہے۔ دل کے حوالے سے ریختہ کے استاد مرزا غالب کا کہنا ہے کہ:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دل کے حوالے سے ایک دلچسپ قصہ سنیے اور داد دیجیے۔ ہوا یوں کہ دلی میں استاد داغ کے دولت خانے پر شعر و شاعری کی محفل سجی ہوئی تھی اور داغ دہلوی میر محفل کے طور پر اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز تھے کہ کسی نے آکر یہ اطلاع دی کہ لکھنو سے کوئی صاحب دل سے متعلق تازہ شعر لے کر تشریف لائے ہیں اور حاضر خدمت ہوکر داد حاصل کرنے کے خواست گار ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ "دبستان لکھنو" اور "دبستان دلی" سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی اپنی اردو دانی پر بڑا ناز تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ استاد داغ نے قدرے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے نووارد کو اندر آنے اور شعر سنانے کی اجازت دے دی۔ نووارد نے داخل ہوتے ہی نہایت ادب سے سلام کیا اور استاد داغ کی اجازت سے وہ شعر پڑھ کر سنایا جو شاعر کے نزدیک بڑا شاہکار تھا۔ شعر یہ تھا:
کم سے کم دو دل تو ہوتے عشق میں
ایک رکھتے ایک کھوتے عشق میں
اہل محفل اس شعر سے بہت متاثر نظر آئے مگر استاد داغ کے چہرے سے ناگواری عیاں تھی۔ انھوں نے کاغذ کا وہ ٹکڑا جس پر شعر تحریر تھا نووارد کے ہاتھوں سے لیا اور برجستہ اصلاح فرما کر یوں کردیا جس پر سب کے سب ہکا بکا رہ گئے اور داغ دہلوی کی استادی کے قائل ہوگئے:
کم سے کم سو دل تو ہوتے عشق میں
رفتہ رفتہ سب کو کھوتے عشق میں
دل کے حوالے سے ہمارے شاعروں نے خوب طبع آزمائی کی ہے اور ہر ایک نے گویا اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ اتنے خوب صورت اشعار کا کوئی شمار نہیں۔ اگر انھیں ہماری شاعری سے خارج کر دیا جائے تو خزانہ خالی ہوجائے گا۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہماری زندگی کا انحصار اور دار و مدار دل پر ہے۔ اب اس روگ نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے، کمسن بچے بھی اس کی زد میں آرہے ہیں جن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی پیدائش اس بیماری کے ساتھ ہو رہی ہے۔ اس کے بہت سے اسباب اور عوامل ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا ہمارا مقصد اور موضوع نہیں ہے۔
امراض قلب میں اضافہ ایک تشویش ناک عالمگیر مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا پریشانی میں مبتلا ہے۔ ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر ایک گھنٹے بعد چالیس انسان اس مہلک مرض کی بھینٹ چڑھ کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اب سے تین سال پہلے دل کی بیماری سے مرنے والوں کی شرح فی گھنٹہ بارہ افراد تک محدود تھی۔
اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ عارضہ قلب کی ہلاکت خیزی میں 200 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ برسوں سے صحت عامہ پر ہونے والے اخراجات کی سرکاری شرح جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے پبلک ہیلتھ کے شعبے میں انقلابی تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے لیکن ان دعوؤں کا بھی وہی حشر ہوا ہے جو پی ٹی آئی کے دیگر وعدوں کا ہوا ہے۔ قتیل شفائی نے بالکل بجا فرمایا ہے:
لوگ اقرار وفا کرکے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سو جائیں
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اس سال کے بجٹ میں کوئی اضافہ کرنے کے بجائے الٹا کٹوتی کردی ہے جب کہ یہی حال ان دیگر صوبوں کا بھی ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکمرانی ہے۔ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔ اس لیے ڈنکے کی چوٹ پر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ یہ پی پی پی کی عوامی حکومت سندھ کا بہت بڑا اور قابل تعریف کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی عوام دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے عوامی صحت کے لیے مختص بجٹ میں 19 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس حوالے سے کراچی کے کم آمدنی والے علاقے اورنگی ٹاؤن میں امراض قلب کے قومی ادارے NICVD کے زیر انتظام سینے میں درد کے علاج کے لیے Chest Pain Unit کا حالیہ قیام حکومت سندھ کی عوام دوستی کا ایک قابل ستائش کارنامہ ہے جو بلاشک و شبہ صدقہ جاریہ ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے قانونی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے NICVD کے زیر انتظام قائم ہونے والے CPU کا گزشتہ دنوں مبارک افتتاح کیا۔ پروقار افتتاحی تقریب میں NICVD کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر کے علاوہ NICVD کے ایمرجنسی سروسز انچارج ڈاکٹر زائر حسین اور ماہرین امراض قلب کے علاوہ علاقے کے لوکل گورنمنٹ کے نمایندوں نے بھی شرکت کی۔ اس ایونٹ کے دوران ڈاکٹروں اور اسٹاف کے ممبران نے نئے CPU میں دل کے 37 مریضوں کو مطلوبہ طبی سہولیات بھی فراہم کیں جن کی حالت بحال ہونے کے بعد انھیں مزید علاج کے لیے NICVD روانہ کردیا گیا۔
اس موقع پر کراچی کے مشہور و معروف علاقے لیاری میں بھی NICVD کے زیر انتظام CPU کے بارے میں بھی یہ امید افزا خوش خبریاں سننے کو ملیں کہ بہت جلد امراض قلب کے اس مرکز پر انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی سہولتیں بھی دستیاب ہوں گی جس سے NICVD کے مین مرکز پر مریضوں کے بے پناہ ہجوم میں کمی واقع ہوگی جہاں آج کل ایک میلے کا سماں ہوتا ہے اور تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔
خواتین اور بزرگ شہریوں کو اس بھیڑ بھاڑ سے سب سے زیادہ پریشانی اور زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہمیں 1970 کی دہائی کی ابتدا میں اپنے والد نسبتی (سسر) کے علاج معالجے کے سلسلے میں پہلی مرتبہ NICVD جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت یہ ادارہ چھوٹا سا ہوا کرتا تھا اور مریضوں کی تعداد بھی محدود ہوا کرتی تھی اور اسپتال عملہ اور دائرہ کار بھی کافی محدود ہوا کرتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ یہاں انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کی سہولیات کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا جب کہ اوپن ہارٹ سرجری بھی دنیا میں نئی نئی متعارف ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ ماہ اگست کے دوران جب اپنی اہلیہ محترمہ کی اچانک طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مدت دراز بعد ایک مرتبہ پھر NICVD کا رخ کرنا پڑا تو اس ادارے کا نقشہ ہی بدلا ہوا پایا۔ کیفیت ایک انار سو بیمار والی نظر آئی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امراض قلب کا قومی ادارہ دل کے مریضوں کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر گراں قدر خدمات انجام دینے میں دن رات مصروف ہے۔ اس ادارے کے ذریعے نہ صرف صاحب ثروت بلکہ مفلس و نادار مریض بھی اس کے مسیحا صفت ڈاکٹروں کے ہاتھوں ایک نئی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ اس ادارے کا دائرہ کار بنیادی طور پر صوبہ سندھ کے باسیوں تک محدود ہے تاہم اس کی خدمات سے صوبہ بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ اور کشمیر بلکہ بعض بیرونی ممالک خصوصاً پڑوسی ملک افغانستان سے تعلق رکھنے والے دل کے مریض بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارہ کام کے زبردست اور شدید دباؤ کا شکار ہے۔
اس کے مسائل لامحدود اور وسائل محدود ہیں۔ اس کے باوجود اس کا طبی عملہ اور پیرا میڈیکل اسٹاف انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر امیر و غریب کی تفریق سے بالاتر ہوکر دل کے نازک طبع مریضوں کی بے لوث خدمات انجام دے رہا ہے۔ یوں تو ماہرین پر مشتمل تمام ڈاکٹرز لائق تحسین ہیں تاہم دل کے مریضوں کو Pace Maker لگانے والے ماہر سرجن پروفیسر سید زاہد جمال اپنے تجربے اور مہارت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔
Acute Bay نامی آئی سی یو کے نرسنگ اسٹاف کو بھی ہم نے اپنی اہلیہ کی دو روزہ نگہداشت کے دوران انتہائی مستعد اور فرض شناس پایا جن میں سسٹر ذکیہ انور اور سسٹر مارگریٹ حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔
یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ امراض قلب کے قومی ادارے کی توسیع و ترقی میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں جس کا تازہ ترین ثبوت ان کی جانب سے اس عظیم ادارے کے لیے گزشتہ 25 جولائی کو 600 ملین روپے کی خطیر رقم کی منظوری اور ریلیز کے احکامات صادر کیے جانے کی صورت میں صاف نظر آتا ہے۔