کل کی سی بات لگتی ہے کہ جب عمران خان نے اپنے کیریئر کا آغاز کرکٹ کے میدان سے کیا تھا۔ اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ ہما ان کے سر پر آ کر بیٹھ جائے گا اور وہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی گدی پر براجمان ہو جائیں گے۔ دنیائے کرکٹ میں بڑے بڑے کرکٹر گزرے ہیں لیکن جو بلند مقام عمران خان نے حاصل کیا ہے وہ کسی کو بھی نہیں ملا اور شاید آیندہ بھی نہ ملے۔ بھارت کے کئی عظیم کرکٹ کھلاڑی بشمول سنیل گواسکر اور سچن ٹنڈولکر اس بلند کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عمران خان کے ہمعصر بھارت کے بہترین کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو زیادہ سے زیادہ بھارتی پنجاب کے صوبائی وزیر ہی بن سکے۔
عمران خان کے کرکٹ کیریئر کا آغاز حوصلہ افزا نہ تھا۔ بحیثیت باؤلر ان کی کارکردگی ابتدا میں اچھی نہ تھی۔ یہ صورت حال مایوس کن تھی۔ کوئی اور کھلاڑی ہوتا تو میدان چھوڑ جاتا لیکن یہ عمران خان تھا، میدان چھوڑ کر بھاگنا جس کا شیوہ نہ تھا۔
عمران خان نے ہمت نہیں ہاری اور نہ صرف زیرو سے ہیرو بن گئے بلکہ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان بھی بن گئے، یہی ان کی زندگی کا Turnning Point تھا جس کا نتیجہ شوکت خانم اسپتال کی صورت میں نمودار ہوا۔ غالباً خدمت خلق کے اسی جذبے کی غیر معمولی کامیابی انھیں میدان سیاست میں لائی، جس نے پاکستان تحریک انصاف کی صورت اختیار کرکے پاکستان کی سیاست میں امید کی ایک نئی کرن روشن کی اور "نیا پاکستان" کا تصور پیش کیا۔
کرکٹ کی طرح سیاست کے میدان میں بھی پاکستان کو ابتداً بڑی دشواریاں پیش آئیں مگر مرد آہن نے اس بار بھی ہار نہیں مانی اور میدان سیاست سے گھبرا کر راہ فرار حاصل نہیں کی۔ آخر کار 22 برس کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور پاکستانی عوام نے ان کے انقلابی نعروں اور قوم و ملک کی تقدیر کو بدل دینے کے دعوے پر بھروسہ کرکے اپنے ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیے اور ان کی پارٹی کو عام انتخابات میں کامیابی دلا کر کرسی اقتدار تک پہنچا دیا۔
انھیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ بال اب عمران خان کے کورٹ میں آگئی اور بہ حیثیت وزیر اعظم ان کی سیاسی اننگز کا آغاز ہوگیا۔ ان کے وعدے کے مطابق ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور عوام کی زندگی میں تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو جانا چاہیے تھا مگر اچھا خاصا عرصہ گزر جانے کے باوجود عوام کی حالت سدھرنے کے دور دور تک کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ سچ پوچھیے تو عوام کی زندگی کا رہا سہا سکھ چین بھی چھن گیا اور بے لگام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پیش آنے والی دشواریوں کا درست اندازہ لگانے میں ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
اسی طرح ان سے ٹیم سلیکشن میں بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوسکے۔ کپتان کی ایک بنیادی خامی یہ بھی ہے کہ جب کوئی بات ان کے من میں سما جاتی ہے تو پھر وہ کسی کی بھی نہیں سنتے۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کرکٹ کا کھلاڑی سیاست کی پچ (Pitch) کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کپتان نے نوکر شاہی کو چھیڑ کر بڑی بھاری غلطی کی ہے اور اب شاید میڈیا کی باری ہے۔
کپتان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ کہ وہ سیانوں کی اس نصیحت کو یاد رکھیں کہ "نادان دوستوں سے دانا دشمن بہتر ہوتے ہیں " بہتر ہوگا کہ وہ اپنے گرد و پیش کا بغور جائزہ لیں اور اس بات کا درست اندازہ کریں کہ کون لائق اور مخلص ہے اور کون نالائق اور چاپلوس ہے۔ جب تک کپتان کی ٹیم سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوگی تب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے اور عوام ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا نشانہ بنتے رہیں گے جس کا انجام حکومت سے بے زاری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے مسائل سے لاعلمی اور ان مسائل کو حل کرنے میں عدم دلچسپی و غیر ضروری تاخیر ہر حکومت کے زوال کا بنیادی سبب رہا ہے۔ جو لوگ حکومت کو میڈیا پر قدغن لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ شاید نادان دوست ہیں۔
بہتر ہوگا کہ کپتان ایسا کرنے کے بجائے میڈیا کو اعتماد میں لیں تاکہ رسہ کشی کے بجائے میڈیا کا تعاون حاصل ہو۔ ہمارا کپتان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی شدید مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر عوام کے مسائل اور شکایات سے براہ راست باخبر رہنے کے لیے بلاناغہ اخبارات اور بالخصوص قومی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات کا پابندی سے مطالعہ کیا کریں تاکہ "سب اچھا ہے" کا راگ الاپ کر گمراہ کرنے والوں کے بہکاوے میں آکر ناحق عوامی ناپسندیدگی کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔ ہم اپنے پیارے وزیر اعظم کے خیر خواہ کی حیثیت سے ان کی خدمت میں عرض گزار ہیں کہ اچھی اور پائیدار حکمرانی کا راز عوام کے دلوں پر حکمرانی میں پوشیدہ ہے جس کی جیتی جاگتی مثال ہم نے عمان کے ہر دل عزیز حکمران سلطان قابوس (مرحوم) کی صورت میں دیکھی تھی۔ جن کی رعایا سے محبت کو عمان کی عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اچھا راجا وہی ہے جو اپنی پرجا کا خیال کرے۔
وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں سبزیوں کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کی نوید سنائی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سبزیوں کی قیمتوں میں کمی آنے کا اصل سبب یہ ہے کہ نئی فصل کے آنے کی وجہ سے ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ حکومت لینا چاہ رہی ہے۔ پٹرول کی حالیہ قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر کی کمی کرکے حکومت نے اپنے تئیں حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں جو کمی آئی ہے اسے وطن عزیز میں سو فیصد کم کرنے میں بھی ارباب اختیار کی جانب سے ڈنڈی ماری گئی ہے۔
اس پر ہمیں انگریزی کا ایک محاورہ یاد آرہا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ چند لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بناسکتے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اس وقت کہاں تھی جب آٹے کی ملوں والے آٹے کی قیمت بڑھا رہے تھے اور شوگر ملوں کے مالکان چینی کی قیمت بڑھانے پر تلے ہوئے تھے؟ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بعض دوسرے مینوفیکچررز بے لگام ہوکر اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے میں مصروف ہیں اور حکومت ان کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔ افسوس کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
کم سے کم حکومت اتنا تو کر ہی سکتی ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بناسکے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر مشرف کے دور میں ذخیرہ اندوز مجسٹریٹوں کے خوف سے بے لگام نہیں تھے لیکن اب تو انھیں نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی حکومت وقت کا خوف۔ حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ حکومت کی پائیداری کا راز عوامی مقبولیت میں مضمر ہے۔ اگر ملک کے عوام آسودہ اور خوشحال ہوں گے تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا کرسکے۔ دلوں پر حکمرانی ہی بہترین حکمرانی ہے۔