حضور اکرمؐ نے رمضان کریم کو برکتوں والا مہینہ بیان فرمایا ہے۔ نبیؐ کا فرمان یہ بھی ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور فریب کاری کو نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ روزہ رکھ کر بھی دھڑلے سے جھوٹ بول رہے ہیں، رشوتیں لے رہے ہیں، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور سودی کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان کو نہ تو خدا کا خوف ہے اور نہ ہی فرمان نبویؐ کا کوئی احساس۔ اقبال نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ بھی کیا حسن اتفاق ہے کہ پاکستان بھی رمضان ہی کے مبارک مہینے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ مبارک مہینہ ہمارے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یوں تو آمد رمضان کے ساتھ پورے ملک کا منظرنامہ ہی یکسر تبدیل ہو جاتا ہے لیکن عروس البلاد کراچی کا تو گویا نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سال رمضان المبارک کے موقع پر شہر قائد کی رونقیں کورونا کی وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ برنس روڈ کا مشہور علاقہ جو کراچی کی پرانی فوڈ اسٹریٹ کے نام سے موسوم ہے ویران اور سنسان ہے۔ جہاں کھوے سے کھوا چھلا کرتا تھا وہاں امسال اُلّو بول رہا ہے۔
درست اعداد و شمار کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بس ایک سیلاب بلا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کراچی پورے پاکستان کے لیے سونے کی چڑیا ہے۔ یہ وہ بہتی ہوئی گنگا ہے جس میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس دودھ دینے والی گائے کا ہر کوئی دودھ نچوڑنے پر تلا ہوا ہے لیکن اس بے چاری کو چارہ ڈالنے کی فکر کسی کو بھی دامن گیر نہیں۔ عملاً اس شہر قائد کی حیثیت ایک شہر ناپرساں کی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر مسلسل نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں وطن عزیز کا یہ سابق دارالخلافہ موئن جو دڑو میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کراچی کی تباہی و بربادی دو چار دن کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک طویل داستان ہے۔ بقول شاعر:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قیام پاکستان سے قبل کراچی قدرتی بندرگاہ کی نعمت سے آراستہ صوبہ سندھ کا صاف ستھرا کاروباری مرکز اور سندھ کا صوبائی دارالخلافہ ہوا کرتا تھا اور اس کا پھیلاؤ بھی انتہائی محدود تھا۔ لیکن 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سرحد پار کرکے آنے والے مہاجرین کی کراچی آمد اور سکونت نے شہر قائد کا پورا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ سخاوت میں حاتم طائی کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ یہ بندگان خدا خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہیں اور ان کا راسخ یقین ہے کہ:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
اہل کراچی پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فضل و کرم ہے کہ وہ خیرات، صدقات، زکوٰۃ اور عطیات دینے والوں میں ہمیشہ سے پیش پیش ہیں۔ ماشا اللہ! رمضان المبارک کے مہینے میں کراچی کے سیکڑوں رفاہی اداروں، خاندانوں، گھرانوں اور اہل دل غریب نواز مخیرافراد کی جانب سے زکوٰۃ، خیرات، صدقات اور فدیات کی صورت میں پانچ لاکھ سے بھی زیادہ مستحق خاندانوں کو راشن مہیا کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب کراچی کے رجسٹرڈ رفاہی ادارے صرف رمضان المبارک کے مہینے میں تقریباً 17 ارب روپے کی زکوٰۃ جمع کرتے ہیں جب کہ انفرادی طور پر اکٹھی کرکے تقسیم کی جانے والی زکوٰۃ اس کے علاوہ ہے جس کا اندازہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ بھی کراچی کے مختلف رفاہی ادارے مثلاً ایدھی، چھیپا اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ وغیرہ کی جانب سے دکانوں اور اسپتالوں و دوا فروشوں کے کاؤنٹرز پر رکھے گئے چندہ بکسوں سے یومیہ لاکھوں روپے کے عطیات و صدقات اس کے علاوہ ہیں جن کا نہ کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی کوئی شمار۔ اللہ کی راہ میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے والے ان نیکوں کا اصرار یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے نام ظاہر نہ کیے جائیں۔ علامہ اقبال نے "یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے" کہہ کر غالباً اسی قبیل کے لوگوں کی جانب اشارہ کیا ہوگا۔ ہر سال یکم رمضان کو بینک اپنے کھاتہ داروں کے سیونگ اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی مد میں جو کٹوتی کرتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے۔
ابتدا میں گنتی کے محض چند اداروں نے ہی خدمت خلق کے اس مشکل اور عظیم کارنامہ کو سرانجام دینے کا بیڑہ اٹھایا تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بعض دیگر لوگ بھی اس میدان میں اترتے چلے گئے۔ بقول شاعر:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
راہ رو آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا
ماشا اللہ اب وطن عزیز میں خدمت خلق کے رجسٹرڈ اداروں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور اس کی فہرست میں ہر روز نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو ایک خوش آیند پیش رفت اور اچھا اور امید افزا شگون ہے۔ دلچسپ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ جدید موسیقی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فنکار پورے جوش و خروش اور بلند عزائم کے ساتھ اس میدان کا رخ کر رہے ہیں۔
یہ بات حوصلہ افزا اور باعث اطمینان ہے کہ کئی رفاہی ادارے تعلیم، صحت اور بے روزگاری کے خاتمے جیسے اہم شعبوں میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ برساتی مینڈکوں کی طرح تیزی سے جنم لینے والے بے شمار جعلی رفاہی ادارے غریبوں کا درد رکھنے والے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹ رہے ہیں۔ اسی طرح خوف خدا سے عاری بے شمار لوگ زکوٰۃ اور خیرات کے مستحق بن کر سیدھے سادھے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔
ان ہوس کے ماروں کو نہ تو شرم و حیا ہے اور نہ ہی خوف خدا ہے۔ ان بے حسوں کو یہ احساس بھی نہیں کو اندیشہ مرگ کورونا کی مہلک وبا کی صورت میں ہر وقت سب کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
اس وقت ساری دنیا کورونا کے عذاب کی لپیٹ میں ہے اور ہر ایک کو اپنی سلامتی اور بقا کی فکر لاحق ہے۔ کرہ ارض کے اس اور اس چھور تک ماحول پر ایک پرہول خموشی طاری ہے۔ سماجی فاصلے ہر آن بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور کورونا کے جبر نے ہر شخص کو قید تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ قتیل شفائی بہت پہلے یہ کہہ چکے ہیں :
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
اگرچہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان کے بعد بازار کھل گئے ہیں لیکن وہ رونق، وہ گہما گہمی نظر نہیں آرہی جو عید کے قریب جلوہ افروز ہوا کرتی تھی۔ گرمی بازار کی جگہ مئی کی گرمی ستا رہی ہے، لگتا ہے اس بار عید بھی میٹھی نہیں پھیکی ہوگی، ہو سکتا ہے کہ انتہائی احتیاط کے طور پر عید کے روز اس مشہور گانے پر بھی پابندی عائد کردی جائے جو مہدی حسن کا شاہکار اور چمتکار ہے:
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے
رسم دنیا بھی ہے، موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے