اسلام اور پاکستان کا بندھن اٹوٹ ہے۔ یہ تعلق روح کے ساتھ جسم کے رشتے سے عبارت ہے۔ روح کے بغیر جسم مردہ و بے کار ہو جاتا ہے۔ اسلام پاکستان کا جذبہ خالق بھی ہے اور قوت متحرکہ بھی۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ اسی جذبے کے فقدان کے سبب دشمنوں کی سازش کامیاب ہوگئی جس کے نتیجے میں ملک خداداد دولخت ہو گیا۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ اسلام نہیں تو پھر خدانخواستہ پاکستان بھی نہیں۔ اس لیے تو اسلامی اقدار کو رجعت پسندی کا نام دے کر باطل قوتیں کبھی ترقی پسندی اور کبھی روشن خیالی کے نام پر نظریہ پاکستان کی بیخ کنی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان قوتوں کو اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام کے نام سے بھی چڑ اور شدید نفرت ہے۔ ان کی آنکھوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کے ساتھ "اسلامی" کا لاحقہ کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ خوب صورت شعر بر موقع و برمحل محسوس ہوتا ہے:
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
ہم ان خوش بختوں میں شامل نہیں جو بیٹھے بیٹھے اہل پاکستان بن گئے اور اس کی خاطر جن کی ناک سے نکسیر تک نہ پھوٹی۔ یعنی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ہم نے تحریک پاکستان کی طوفانی لہروں کو اپنی آنکھوں سے امڈتے ہوئے دیکھا ہے۔"پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ" کے پرجوش اور ایمان افروز نعرے کی گونج آج تک ہمارے کانوں میں محفوظ ہے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں کے خونیں مناظر ہمارے گوشہ ذہن میں ابھی تک تازہ ہیں۔ یوپی اور بہار کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا دل خراش منظر نامہ ابھی تک ہماری یادداشت سے مٹا نہیں۔ دہلی کے مسلم کش فسادات کے ہم عینی شاہد ہیں جو آج بھی ہمارے لیے بھیانک خواب بنے ہوئے ہیں۔ ہائے ہائے:
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
پاکستان کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے پاکستان کی کشتی کو آگ اور خون کے سیلاب سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ رفتہ رفتہ ان ہم عصروں کی نسل معدوم ہو رہی ہے جس کے بعد یہ قصہ تمام ہو جائے گا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو کسی نے ان عظیم اور ناقابل فراموش قربانیوں سے پوری طرح آگاہ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جن کے نتیجے میں یہ وطن عزیز معرض وجود میں آیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ "مطالعہ پاکستان" کے عنوان سے پڑھائے جانے والے درسی مضمون میں بھی طلبا کو محض سرسری معلومات ہی فراہم کی گئی ہیں۔
افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی اس بنیادی ذمے داری کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ نئی نسل کو پاکستان کی خاطر دی گئی بے دریغ عظیم قربانیوں سے پوری طرح آگاہ کریں تاکہ انھیں اس ملک کے معرض وجود میں آنے کے حوالے سے اسلام اور نظریہ پاکستان کی حقیقت اور اساسی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر اسی جذبے سے سرشار ہوکر کام کرے جو اس وطن عزیز کی اساس اور اس کی سلامتی اور بقا کی ضامن ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کو محض اپنی حکمرانی کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔
دور حاضر کے ایک عظیم فلسفی برٹنڈر سل نے اپنے ایک مضمون "نالج اینڈ وزڈم" میں کہا ہے کہ "آج کے دور میں علم میں تو زبردست اضافہ ہوا ہے لیکن عقل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انسانوں کے مسائل حل کرنے میں عقل آج بھی اتنی ہی معذور اور لاچار ہے جتنی پہلے تھی " مسئلہ یہ ہے کہ عقل بے لگام اور عیار ہے۔ یہ اندھی اور خواہشات کی غلام ہے، اس کو صرف خوف خدا اور روز قیامت اعمال کی جواب دہی کا تصور ہی لگام دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی پریشان حال دنیا کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں ان کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام میں ہی موجود ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے غافل ہوگئے جس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اغیار نے ہماری تاریخ کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسخ کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ نے بالخصوص اور غیر اسلامی نظریات رکھنے والے استادوں نے بالعموم قیام پاکستان کی جدوجہد اور اس کے اصل مقاصد سے طلبا کو آگاہ کرنے سے نہ صرف دانستہ گریز کیا بلکہ وہ نظریہ پاکستان کی جڑیں کاٹتے رہے جس کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان کا عظیم سانحہ پیش آیا۔
حضور اکرمؐ کا یہ مبارک قول تو آپ نے بھی پڑھا یا سنا ہوگا کہ "میں مشرق میں ٹھنڈی ہوا آتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔" آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ اشارہ پاکستان کی جانب تھا۔ مطلب یہ کہ جس طرح کسی زمانے میں عرب اور اسلام لازم و ملزوم تھے اسی طرح پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ ہم نے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے قیام پاکستان کے لیے ایک جذبے اور جنون کی حالت میں یہ نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے کہ "لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان!" سچ پوچھیے تو پاکستان کی تحریک ایک جہاد تھا جو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی آزادی اور اسلام کی سربلندی کی خاطر کیا تھا۔
مسلمانوں کے مدمقابل ہندوؤں کے پاس نہ صرف وافر دولت اور افرادی قوت تھی بلکہ سیاسی شعور بھی تھا لیکن مسلمانوں کے پاس ایمان کی دولت اور جذبہ جہاد کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے برملا فرمایا تھا کہ پاکستان ان کی توقع سے بہت پہلے حاصل ہو گیا دراصل اللہ کی یہ دین برصغیر کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا نتیجہ تھی۔
ہمیں بریگیڈیئر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی، سابق چیف آف اسٹاف ڈائریکٹریٹ جنرل آئی ایس آئی کی اس رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ "اسلام وہ واحد نقطہ ہے جس پر ہماری قومی زندگی کا ہر زاویہ مرکوز ہے۔ اسلام ہی ہماری قومیت کی اصل اساس اور عظیم الشان عمارت کی بنیاد ہے۔ پاکستان کو قوموں کی برادری میں ایک نظریاتی ریاست کی شناخت حاصل ہے۔ چنانچہ ہمارے دشمنوں کا پہلا اور اہم ہدف ہمارا اسلامی تشخص ہی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں صرف بھارت ہی کا سامنا نہیں بلکہ امریکا اور اس کے یورپی حواریوں کی نگاہوں میں ہمارا ایمان، عقیدہ اور تشخص کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔
اور یہ اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ ہی سے ہماری اس بنیاد سے خائف ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان بلاشبہ اسلام کا قلعہ ہے، وہ ہمہ وقت ہماری اس قوت پر ضرب لگانے میں مصروف رہتی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ہمیں اسلامی قوت بننے سے روکنے کے لیے ہمارے اندر گروہی، لسانی، سیاسی اور ثقافتی اختلافات کو اس قدر ہوا دی جائے کہ بالآخر ہم ٹکڑوں میں بٹ جائیں اور یوں ہماری وہ قوت زائل ہو جائے جو ہماری نظریاتی اساس ہے۔"
ملک و قوم کی بقا اور سلامتی کا تقاضا یہی ہے کہ اختلاف برائے اختلاف کی منفی روش کو ترک کرکے مثبت تعمیری رویوں کو فروغ دیا جائے۔ اس کام میں ہمارے سیاسی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو قومی اتحاد کے حوالے سے کلیدی اور مثالی کردار ادا کرکے خود کو قوم کے سامنے رول ماڈل کے روپ میں پیش کرنا ہوگا۔ ملک و قوم کے مجموعی اور وسیع تر مفاد میں ہماری تمام قائدین کرام سے درد مندانہ پرزور اپیل ہے کہ وہ اختلاف برائے اختلاف اور انتقامی سیاست کی تباہ کن روش سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہو کر بالغ النظری اور وطن دوستی کا عملی ثبوت پیش کریں کہ بقول اقبال:
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے