ہمارا یہ کالم محض قلم برداشتہ ہی نہیں دل برداشتہ بھی ہے، فرط جذبات سے طبیعت نڈھال ہے۔ آزادیِ اظہارکی آڑ لے کر ایک فرانسیسی جریدے نے محسن انسانیت، ہادیِ برحق اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان ِ اقدس میں گستاخی کی جسارت کرکے خود کو ذلیل وخوار اور اپنے ملک و قوم کو رُسوا اور عالم اسلام کو آزردہ وافسردہ اور دل گرفتہ کیا ہے۔
اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں فرانس کے ایک بد بخت اسکول ٹیچر نے اپنے طلباء کو توہین آمیز خاکے دکھا کر دنیا بھرکے مسلمانوں کی شدید دل آزاری کی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس گستاخانہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے رُوسیاہ کو قرار واقعی سزا دینے کے بجائے فرانس کے صدر نے ایسے ملعونوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر ان کی حمایت اور پشت پناہی کی ہے۔
فرانس کے صدر ایمنوئیل میکرون نے توہین رسالت کے مرتکب ٹیچرکو مجرم قرار دینے کے بجائے اپنے ملک کے سب سے بڑے سِویلین اعزاز سے نوازکر اپنی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے شدید نفرت اور بغض و عناد پر مہرِثبوت ثبت کردی ہے۔ فرانس کے صدرکی اس دیدہ دلیری کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں غم و غصہ کی ایک زبردست لہر دوڑگئی ہے اور بہت سے مسلم ممالک نے فرانس کے سفیروں کو ملک بدرکردیا ہے اور فرانس سے اپنے سفیروں کو وطن واپس بلا لیا ہے۔
اس کے علاوہ بیشتر مسلم ممالک نے شدید ردِ عمل کے طور پر فرانس کی مصنوعات پر پابندی عائد کرکے فرانس کا ناطقہ بندکردیا ہے جس کی تاب نہ لاکر فرانس والوں پر ہیبت طاری ہے اور ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے اور وہ اس اقتصادی بائیکاٹ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رہی بات اس شاتم ِ رسولﷺ ٹیچرکی تو اس مردود اور ملعون کو عبدا للہ نامی ایک 18 سالہ چیچن طالب علم نے واصل ِ جہنم کرکے حضور ِ پاکﷺ سے اپنی سچی عقیدت اور بے پایاں محبت کا حق ادا کردیا۔
دینِ اسلام اور مسلمانوں سے فرانس کے صدر میکرون کی نفرت وعداوت کے اظہارکا یہ پہلا موقعہ یا واقعہ نہیں ہے، تعصب کا یہ زہرقاتل ان کی گھٹّی اور خون میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قارورہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قارورہ سے ملتا ہے۔ گویا دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ اسی لیے دونوں کی خوب گاڑھی چھن رہی ہے۔" رب ملائی جوڑی، ایک اندھا دوسرا کوڑھی" یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب صدر میکرون نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس حوالے سے وہ ایک زہریلے ناگ اور پرانے پاپی کی شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اب سے چند روز قبل یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ " اسلام بطور مذہب دنیا میں بحران کا شکار ہے اور اسلام پسند فرانس پر قبضہ کرناچاہتے ہیں " انھوں نے فرانس کے اسکولوں کی سخت نگرانی، مسجدوں کی غیر ملکی فنڈنگ پرکنٹرول سخت کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ انھوں نے عارضی طور پر وہ مسجد بھی بند کرا دی جہاں سے توہین رسالت کے مرتکب ملعون واصلِ جہنم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی تھی۔
فرانس میں توہین ِ رسالت مآپﷺ اور صدر میکرون کی جانب سے اس کی حمایت واسلام دشمنی کی پالیسی کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں شدید ردِ عمل کے طور پر احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کی مصنوعات کی خریداری نہ کرنے کی صورت میں معاشی بائیکاٹ کی پالیسی بھی روز بروز زور پکڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں فرانس کی معیشت کا بھٹّہ بیٹھ جائے گااور اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
صدر میکرون کو اپنی کرنی کا پھل ملنا شروع ہوگیا ہے اور وہ بری طرح بوکھلاہٹ ہوئے بیان پر بیان دے کر اپنی جانب سے صفائیوں پر صفائیاں پیش کررہے ہیں اورپینتروں پر پینترے بدل رہے ہیں۔ گویا اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں، لیکن کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آسکتا۔ اب پچھتاوت ہوَت کیا جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ اکیلا فرانس ہی نہیں بلکہ یورپ اور پورا مغرب اسلاموفوبیا کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین ِ اسلام مغربی طرزحیات سے کوئی لگّا نہیں کھاتا کیوں کہ یہ محض عقائد، رسوم و روایات کامجموعہ نہیں بلکہ ایک جامع اور مکمل نظام حیات ہے۔ یہ ایسا منفرد ضابطہ حیات ہے کہ جس میں انسان کی پیدائش سے لے کر ہر موقع اور ہر مرحلے کے لیے قوائد و ضوابط موجود ہیں۔
انتہا یہ ہے کہ اس میں کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے حتیٰ کہ بیت الخلاء میں جانے اور رفع حاجت سے فراغت پانے تک کے ضوابط موجود ہیں۔ حلال وحرام کا جو واضح فرق دین ِ اسلام میں موجود ہے اُس کا کسی اور مذہب میں تصور بھی محال ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو اہلِ مغرب اور مسلمانوں میں انسان اور حیوان کا فرق ہے، جو چیزیں اسلام میں حرام ہیں مثلاً سود، شراب، منشیات، عریانی، بے حیائی اور فحاشی وغیر ہ، وہ دینِ اسلام میں قطعاً حرام قرار پائی ہیں۔ گویا دونوں میں قُطبین کا فاصلہ ہے، یہ ایسی خلیج ہے جسے پاٹنا ناممکن ہے۔
جہاد اسلام کا طرّہ امتیاز ہے جسے اہلِ مغرب نے ہمیشہ غلط رنگ دیا ہے اور اسے دہشت گردی کے نام سے بدنام کیا ہے۔ علاوہ ازیں جہاد کو طرح طرح سے مسخ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ دنیا میں قرآن مجید وہ واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور جس میں تاقیامت کوئی تبدیلی یا ترمیم ممکن نہیں اور حضور اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جن کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح قرآن مجید کے بعد تا قیامت کوئی اور آسمانی کتاب بھی نازل نہیں ہوسکتی۔
شاہ لوئی نہم نے مسلمانوں سے رہائی پانے کے بعد اہلِ مغرب کو نصیحت کی تھی کہ "اگر تم مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو فوج کشی کے بجائے اُن کے عقیدے پر ضرب لگاؤ " تب سے آج تک مغرب کے حکمران جن میں فرانس کے حکمران بھی شامل ہیں، آج تک اِسی پر عمل پیراء ہیں۔ اس کے علاوہ اہل مغرب " تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے اصول پر ملّتِ اسلامیہ میں پھوٹ ڈال کر اُن پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔ کاش دنیا بھرکے مسلمان عالمِ کفرکے خلاف متحد ہوجائیں اور علامہ اقبال کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم ِپاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
بعض خود ساختہ دانشور اسلامو فوبیا کے حوالے سے اہل ِ مغرب کے ساتھ ڈائیلاگ یا مکالمے کی بات کررہے ہیں مگر ہم اِس سے ذرا بھی متفق نہیں ہیں کیونکہ لاتوں کے بُھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کوئی بھی مسلمان نبی اکرم ﷺ کی عظمت اورشان کے حوالے سے توہین ِ رسالت کے مرتکب کے ساتھ صلح یا سمجھوتے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسا مردود و ملعون شخص صرف کم سے کم اس سزا کا مستحق ہے کہ اس کی زبان گُدّی سے کھینچ لی جائے اور اِسے واصل ِ جہنم کردیا جائے۔