جمعرات 13 اگست کو آخر کار اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدہ ہوگیا۔ اس بات کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر ہے۔ اب اگلے مرحلے میں اومان اور بحیرین کا نام لیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات نہایت قریبی اور گہرے ہیں۔ اس میں تاریخ، ثقافت اور دینی عقائدکی ہم آہنگی کے علاوہ تجارت و معیشت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ تاہم اس تاریخی معاہدے کے حوالے سے کوئی فوری رد ِ عمل سامنے نہیں آیا جس وجہ سے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنامناسب نہیں ہے۔
البتہ سعودی میڈیا نے اماراتی اقدام کو ان کا " حق " تسلیم کیا ہے۔ غیر عرب ممالک میں ترکی نے اسرا ئیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ تجارتی تعلقات بھی قائم ہیں، اسرائیل کے سیاح ہرسال ترکی آتے ہیں جس سے ترکی کو کافی ذرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود ترکی نے اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان طے پائے جانے والے 13 اگست کے معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ اُدھر دیگر غیر عرب برادر مسلم ملک ایران نے نہ صرف اس معاہدے کو نہایت سختی کے ساتھ مسترد کر دیا ہے بلکہ شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان کا ردعمل خاصا محتاط اور لچکدار ہے۔
مسئلہ کشمیر اور فلسطین ایک مدت ِ دراز سے حل طلب چلا آرہا ہے۔ ان دونوں مسائل کی نوعیت ایک جیسی ہے اور بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ہی مسائل کی وجہ سے عالمی امن کو سنگین خطرات لا حق ہیں۔ اتفاق سے دونوں ہی مسئلوں کے حل کی کنجی امریکا کے پاس ہے اور او آئی سی کا اثر ورسوخ بھی ان تنازعات کا حل تلاش کرنے میں بہت زیادہ ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمیں 1980کی دہائی کے اواخر اور 1990 کی دہائی کے وسط کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب عرب ممالک میں اسرائیل کا نام لینا بھی ممنوع تھا۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ امریکا کی کوشش سے طے پایا ہے۔ سعودی عرب نے اس سلسلے میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل پہلے فلسطین کی ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کو قبول کر لے گا، بیت المقدس(یروشلم)جس کا دارالخلافہ ہوگا۔ یہ عندیہ گزشتہ21 اگست بروز جمعہ سعودی شاہی خاندان کے ایک اعلیٰ رکن کی جانب سے دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ماضی میں شاہ عبداللہ (مرحوم) نے بھی یہی شرط رکھی تھی۔
سعودی شاہی خاندان کے ان اعلیٰ رُکن کا نامِ نامی اسم ِ گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں، یہ صاحبِ موصوف ہیں شہزادہ ترکی الفیصل، سابق سعودی سفیر برائے امریکا۔ اس عہدے کے علاوہ وہ ماضی میں انٹیلی جنس چیف(Intelligence Cheif ) کے انتہائی اہم عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک اسرائیل فسلطینوں کے ساتھ امن کے معاہدے پر دستخط نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات انھوں نے جرمنی کے حالیہ دورے میں جرمن وزیر ِ خارجہ کے ساتھ برلن میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ادھر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی یہ کہہ کر اپنے ملک کا موقف بیان کر دیا ہے کہ جب تک فلسطین کی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا اُس وقت تک پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسلام آباد میں فلسطین کے سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے میڈیا بیان میں حکومت ِ فلسطین اور فلسطینی عوام نے وزیر ِ اعظم عمران خان کو پرُ زور الفاظ میں خراج ِ تحسین ادا کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی عوام پاکستان کواپنا دوسرا گھر اور پاکستان کے لوگوں کو اپنے برادرانِ عزیز مانتے ہیں۔
وزیر ِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر ہمارا موقف بالکل واضح اور بانیِ پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح ؒ کے نقطہ نظر کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو ہمیں بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرِ تسلط مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنے موقف اور دعویٰ سے دستبر دار ہونا پڑے گا۔
حقیقت بھی یہی ہے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین میں بڑی گہری مماثلت ہے۔ بس دونوں میں فرق صرف اتنا سا ہے کہ اول الذکر میں غاصب ِ ہنود ہیں جب کہ دوسرے مسئلے میں غاصبِ یہود ہیں اور دونوں کا آپس میں بڑا زبردست گٹھ جوڑ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے لاہور میں منعقدہ تاریخی اجلاس میں بتاریخ 23مارچ 1940 میں قرار دادِ پاکستان کے ساتھ ساتھ قرار دادِ فلسطین بھی منظور کی گئی تھی۔