Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Kya Khoob They Ahfaz

    Kya Khoob They Ahfaz

    انگریزی شعر و ادب کے نابغہ روزگار ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی لاجواب و لازوال نظم "The Waste Land" کے آغاز میں ماہ اپریل کو سال کا ظالم ترین مہینہ قرار دیا ہے۔ حالات و واقعات کی روشنی میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔

    اس کی تازہ ترین تائید آزادی صحافت کے علم بردار اور اسم بامسمی محبی احفاظ الرحمن کے حالیہ سانحہ ارتحال نے کردی ہے۔ جنھیں موت کے ظالم ہاتھوں نے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ بقول شاعر:

    موت سے کس کو رستگاری ہے

    آج وہ کل ہماری باری ہے

    اپنے ذائقہ دار پیڑوں (مٹھائی کی ایک قسم) اور بدترین مسلم کش فسادات کے حوالے سے مشہور بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش (سی پی) کے مشہور شہر جبل پور میں آنکھ کھولنے والے آزاد مرد احفاظ الرحمن آزادی صحافت کی جنگ کی طرح سرطان کی جان لیوا! بیماری سے نبرد آزمائی کے بعد بالآخر شہر قائد کراچی میں آسودہ خاک ہوئے۔

    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

    اللہ تعالیٰ سے ہماری دلی دعا ہے کہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے پس ماندگان بالخصوص ان کی جاں نثار شریک حیات کو صبر جمیل اور بلند حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔ صحافت احفاظ بھائی کا محض پروفیشن نہیں بلکہ Passionتھا۔ یہ ان کی زندگی کا مشن تھا جسے انھوں نے تادم آخر جاری رکھا۔ اس کی پاداش میں انھوں نے مار بھی کھائی اور بڑے بڑے دکھ بھی اٹھائے لیکن ان کے قدم کبھی نہ لڑکھڑائے۔

    ہمارے صحافی دوست ناصر زیدی نے جب ضیا الحق کے دور میں کوڑے کھائے تو مرد آہن احفاظ ڈرنے یا گھبرانے کے بجائے ببر شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے کچھار سے باہر آئے۔ قلم فروشی ان کے نزدیک جسم فروشی سے بھی زیادہ بڑا اخلاقی جرم اور ناقابل معافی بدترین گناہ تھا۔ کالی بھیڑوں نے آمروں کے دور میں کیا کچھ فائدے نہیں اٹھائے مگر ضمیر کے قیدی احفاظ الرحمن نے ہمیشہ گھاٹے کا ہی سودا کیا۔ اس اعتبار سے وہ نثار عثمانی، شوکت صدیقی اور ضمیر نیازی جیسے صحافتی اکابرین کی صف میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا پکا اصول تھا:

    میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

    احفاظ الرحمن کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔ اول یہ کہ وہ ایک اعلیٰ گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ انھوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں شرافت اور نجابت گھر کی لونڈی ہوا کرتی تھی۔ لالچ اور طمع سے ان کا دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے سے بڑے لالچ کے دام میں کبھی نہیں آئے۔ وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ انسان دوستی ان کا مسلک اور مذہب تھا۔ تعصب کا لفظ ان کی لغت میں کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ وہ ایک باعمل صوفی تھے جس کا فلسفہ حیات درجہ ذیل شعر سے عبارت تھا:

    اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں

    ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

    اپنے بعض ہم پیشہ لوگوں کی طرح وہ دنیاوی عیش و آرام کے دل دادہ نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کی اصل عظمت کا راز سادگی اور عیش پسندی سے بے رغبتی میں پوشیدہ ہے۔ اس اعتبار سے وہ بھگت کبیر کے ہم خیال تھے:

    دیکھ پرائی چوپڑی، مت للچائے جی

    روکھی سوکھی کھائے کے، ٹھنڈا پانی پی

    انکساری اور ملنساری احفاظ صاحب کا سب سے نمایاں وصف تھی۔ وہ بے شمار اوصاف سے متصف تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے ہمیں اپنا گرویدہ کرلیا گویا کیوپڈ(Cupid) کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا۔ ہماری یہ ملاقاتیں ہمارے روزنامہ "ایکسپریس" کی مرہون منت تھیں۔ احفاظ بھائی کی شخصیت ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست اور نابغہ روزگار شاعر اور فلم ساز سرور بارہ بنکوی (مرحوم) کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر تھی:

    جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

    آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

    احفاظ الرحمن سے ہمارا غائبانہ تعارف بہت پہلے سے تھا۔ ان کی جاذبیت سے بھرپور شخصیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے قصے ہم نے اپنے احباب کی زبانی سنے تھے جن میں برادرم حیات عزیز نقوی پیش پیش ہیں۔ جہاں تک آزادی صحافت کے لیے ان کی جدوجہد کا تعلق ہے تو اس کے قصے زبان زد عام تھے لیکن ان سے بالمشافہ ملاقات کے بعد تو یہ عالم تھا کہ گویا:

    آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک

    احفاظ الرحمن نے کئی روزناموں اور رسائل میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے۔ ان کی معروف کتابوں میں "سب سے بڑی جنگ" اور جنگ جاری رہے گی" شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کالموں کا مجموعہ "سیاہ و سفید" بھی بہت مشہور ہے۔ ان کی شاعری کی کتاب "زندہ ہے زندگی" کو بھی بڑی زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔"سب سے بڑی جنگ" کی تقریب رونمائی 2017 میں آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی۔ اس عظیم الشان تقریب کا منظر آج تک لوگوں کے ذہن پر نقش ہے۔ آزادی صحافت کی تحریک کے حوالے سے یہ کتاب مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے۔ صحافت کے طالب علم اس کتاب سے خوف فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

    اپریل کا مہینہ احفاظ الرحمن کی زندگی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ 4 اپریل1942 کو اس جہان رنگ و بو میں انھوں نے قدم رنجہ فرمایا، 15 اپریل 2005 کو انھوں نے روزنامہ ایکسپریس میں میگزین ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا اور 12 اپریل کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔ ان سے اظہار عقیدت کے طور پر ایکسپریس، کراچی کے سٹی پیج پر 19 اپریل (بروز اتوار) 2020 کو شایع ہونے والی یہ تاثراتی نظم "کیا خوب تھے احفاظ!" اپنے معزز قارئین کی خدمت میں نشر مکرر کے طور پر دوبارہ پیش ہے:

    کیا خوب تھے احفاظ!

    آفاقِ صحافت میں بلند ان کی تھی پرواز

    رنگ، ان کا الگ، اور جدا، سب سے تھا، انداز

    تعریف کروں کیسے، میسر نہیں الفاظ

    کیا خوب تھے احفاظ!

    باطل کے مقابل، نہ کبھی سر کو جھکایا

    اور بادِ مخالف سے، کبھی خوف نہ کھایا

    تھے کوہِ گراں، عزم کے، جرأت میں تھے شہباز

    کیا خوب تھے احفاظ!

    آزاد صحافت کے لیے عمر گزاری

    سو ظلم سہے پھر بھی نہ ہمت کبھی ہاری

    شاعر بھی انوکھے تھے، نرالے تھے لکھاری

    مشکل سے ہی ملتے ہیں شکیل ایسے عہد ساز

    کیا خوب تھے احفاظ!