بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کا جنازہ تو اس وقت نکل گیا تھا، جب بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی عرف بی جے پی کی مادر حقیقی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ المعروف آر ایس ایس (R.S.S) کے ایک جنونی ہندو توا پرست ناتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948کو بھارت کی سرکردہ سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے روح رواں موہن داس کرم چند گاندھی کو جو آزاد ہندوستان کے راشٹر پتا (بابائے قوم) قرار دیے جانے کے سبب باپو جی کہلاتے تھے، ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار ہونے کی بنا پر نہایت سفاکی سے قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب 6 دسمبر 1992 کے سیاہ ترین دن ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا المناک ترین سانحہ پیش آیا۔ بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ 9 نومبر کو اس وقت اپنا طویل عرصے سے محفوظ قضیہ بابری مسجد کا فیصلہ سنا کر ٹھوک دی جب ایک جانب جشن عید میلاد النبیؐ کا اہتمام کیا جا رہا تھا اور دوسری جانب حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی سکھ برادری کے لیے جذبہ خیر سگالی کے تحت سکھ مت کے پیشوا بابا گرو نانک کے دھرم استھان کی یاترا کے لیے ویزا کے بغیر آنے کے لیے کرتار پور کی راہ داری کھولنے کی افتتاحی تقریب کا پر مسرت تقریب کا انعقاد کیا جا رہا تھا جس میں شرکت کے لیے بھارت کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور جانے مانے کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
ایک جانب سیکولر بھارت تھا جہاں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد کو شہید کرنے کی مذموم کارروائی کی عدالتی فیصلے کے ذریعے پشت پناہی کی جا رہی تھی اور دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا جہاں سکھوں پر مشتمل چھوٹی سی سکھ برادری کے مقدس مقام کی یاترا کو آسان سے آسان بنانے کے لیے خصوصی سہولتوں کی فراہمی کا بندوبست کیا جا رہا تھا۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے رویوں کو دیکھ کر دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً نام نہاد مسلم ممالک پر یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہوگی کہ کون حق پر ہے اور کون جھوٹا اور عیار ہے۔ کون انسان دوست اور امن پسند ہے اور کون انسانیت کا دشمن اور امن و آشتی کا تباہ کار ہے۔
بابری مسجد کا قصہ کوئی اچانک ہوجانے والی واردات نہیں۔ یہ ہندو توا کے پجاریوں کے ازلی تعصب کی برسوں پرانی کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ جنتا پارٹی کی پہلی حکومت جو 1977 کے الیکشن میں کانگریس پارٹی کی ناکامی کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی اور 1980 کے عام انتخابات میں اس کا خاتمہ ہوگیا اور کانگریس "آئی" پھر برسر اقتدار آگئی۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی سے توقع تھی کہ وہ اپنی سابقہ شکست سے سبق حاصل کریں گی۔
لیکن بدقسمتی سے اندرا گاندھی کی نئی ہندو احیائیت (Revivalism) کی صوبائی و ملک گیر تحریکوں، بالخصوص وشوا ہندو پریشد، شیو سینا اور مہاتما گاندھی کی قاتل آر۔ ایس۔ ایس کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 7 اور 8 اپریل 1984کو وشوا ہندو پریشد نے اپنا ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا جس میں ملک بھر کے ہندو شدت پسندوں نے شرکت کی۔ اس خفیہ اجلاس میں مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی اور تباہی و بربادی کی منصوبہ بندی کی گئی اور مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا دینے کی مکروہ و مذموم تجاویز منظورکی گئیں جن میں ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے علاوہ بنارس کی گیان بانی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کو مسمارکرنے کی ناپاک تجاویز بھی شامل تھیں۔
بابری مسجد کے بارے میں ہندوؤں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ رام جنم بھومی تھی اور یہاں پر ایک مندر ہوا کرتا تھا جسے منہدم کرکے مغل بادشاہ بابر کے حکم پر بابر کے نام سے موسوم بابری مسجد تعمیر کی گئی۔ اس سراسر جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے جواب میں متعدد محققوں اور ممتاز ریسرچ اسکالرز نے نہایت غیر جانب داری، انصاف پسندی اور اخلاقی جرأت مندی سے اپنا قلم اٹھایا ہے جن میں آر۔ ایل شکلا اور چیدا نند داس گپتا جیسے معروف ہندو اسکالرز سرفہرست ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کا اندوہناک سانحہ 6 دسمبر 1992کو یکدم پیش نہیں آیا۔ بی جے پی کے سرگرم قائدین بالخصوص لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اٹل بہاری واجپائی بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی آتش گیر تحریک پورے زوروشور کے ساتھ بے خطر چلا رہے تھے اور کانگریس کی مرکزی حکومت وزیر اعظم پی وی سی نرسہا راؤ کے زیر قیادت چپ سادھے ہوئے محض تماشائی بنی ہوئی تھی۔ بقول غالب:
مصلحت کچھ تو ہے جو ہم چپ ہیں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
بدنام زمانہ ہندوتوا کے پرچار کی انتہا پسند تنظیم آر۔ ایس۔ ایس نے مرکزی حکومت کی مصلحت کوشی اور خاموشی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اوررام جنم بھومی کی مذموم اور اشتعال انگیز تحریک اس زور و شور سے چلائی کہ پورے بھارت اور خصوصاً اتر پردیش میں ایک زلزلہ سا آگیا۔
اس غیر معمولی مسلم مخالف صورتحال نے ملک کی دوسری بڑی اکثریت یعنی بھارتی مسلمانوں کو کانگریس کی مرکزی حکومت سے بری طرح بد دل اور بدظن کردیا جس کا خمیازہ اسے نومبر 1989 کے جنرل الیکشن میں بی جے پی کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا جس کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہوگئی اور اس کی حکمرانی کا سورج غروب ہوگیا اور بھارت کے جانے مانے بزرگ سیاستدان سی راج گوپال آچاریہ المعروف راجا جی کی ایک جلسہ عام میں کی گئی وہ تاریخی پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوگئی جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔
کانگریس کی شکست کے بعد جنتا دل نے وی پی سنگھ کی قیادت میں بی جے پی سمیت اپنی حلیف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز میں اپنی حکومت تشکیل دی جس کے نتیجے میں وی پی سنگھ راجیو گاندھی کی جگہ پر نئے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
بابری مسجد کے بارے میں روز روشن کی طرح عیاں ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت تھی جہاں وہ ساڑھے چار سو سال کے طویل عرصے سے بلاناغہ پابندی اوقات کے مسلسل اپنی نمازیں ادا کر رہے تھے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ 9 نومبر کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 1992 میں اس 460 سال پرانی بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ عدالت اس تاریخی مسجد کی اس مقام پر دوبارہ تعمیر کے حق میں فیصلہ سناتی اور اس کے غیر قانونی انہدام کی مذموم کارروائی میں ملوث یہ کارعناصر کے خلاف قرار واقعی سزائیں تجویز کرتی اور انھیں مسجد کی ازسر نو تعمیر یا بصورت دیگر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم صادر کرتی۔ مگر افسوس کہ ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت نے اپنا بھرم قائم رکھنے کے بجائے انصاف کا جنازہ نکال دیا اور اس شعر کی صداقت پر مہر ثبوت ثبت کردی:
ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کمبخت ترا چاہنے والا نکلا
بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ذرا بھی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ اس دیش میں اب ہر ادارہ اب مسلم کش حکمران جماعت بی جے پی کے تابع فرمان ہے جس کا بنیادی ہدف ہندوستان کے مسلمانوں کو دیوار سے لگانا ہے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس کے بعد دوسری اقلیتوں کی باری آئے گی جس میں عیسائی، دلت، سکھ اور دیگر اقلیتیں شامل ہیں۔ بی جے پی کے ماسٹر پلان کا اصل ٹارگٹ تمام اقلیتوں کو باری باری ٹھکانے لگانا ہے۔ شکر ہے کہ کرتار پور راہداری کھلنے کے ساتھ سکھوں کی آنکھیں تو اب کھلنا شروع ہوگئی ہیں۔
بہتر یہی ہے کہ بھارت کے عیسائی اور دلت طبقے بھی خطرے کی گھنٹی کی آواز سن کر جاگ جائیں اور بی جے پی کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ متحد ہوکر ایک مضبوط اور مربوط پلیٹ فارم تشکیل دیں۔ بھارتی عوام کو ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ بی جے پی اور اس کی حامی دیگر انتہا پسند تنظیمیں بھارت کی ساکھ کو بگاڑ کر رسوائی اور تباہی کے راستے پر لے جا رہی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں