Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Pasban e Azam

    Pasban e Azam

    اُردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی سخن شناس کے لیے فراقؔ گورکھپوری کا نامِ نامی اسمِ گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

    نام اُن کا رَگھو پَتی سہائے تخلص فراقؔ او ر وطن گورکھ پُور (یو پی) ہندوستان تھا، اگر چہ آپ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے مگر ان کو مقبولیت ِ عوام اور شہرتِ دوام اُردو شاعری کی بدولت حاصل ہوئی۔ ہندو، ہندی، ہندوستان کا نعرہ لگانے والے تعصب پسند ہندوئوں کے اُردو مخالف آندولن کے خلاف اُردو کی حمایت میں کیے گئے جہاد میں وہ شمشیر بہ کف علمبردار کی حیثیت سے ہمیشہ پیش پیش ہی رہے۔ یوں تو ان کا ہر شعر آب دار موتی سے کم نہیں لیکن یہ شعر فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔

    آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں گی ہم عصرو

    جب تم ان کو بتلائو گے ہم نے فراقؔ کو دیکھا تھا

    اگر بظاہر یہ شعر صرف فراقؔ صاحب کی ذات تک محدود نظر آتا ہے لیکن غور کیجیے تو اس کا اطلاق علامت کے طور پر ہر عظیم اور نا بغہء روز گار شخصیت پر کیا جا سکتا ہے۔

    روشن مستقبل کی تلاش انسان کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دیارِ غیر کا رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انتہایہ ہے کہ جانور بھی ہریالی سے بھری ہوئی چراگاہوں کی تلاش میں اپنے ٹھکانے چھوڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ 1947 میں قیام ِ پاکستان کے وقت سرحد کے اُس پار آباد پاکستان کی محبت سے سرشار لاکھوں مسلمان دیوانہ وار اپنے بسے بسائے گھر بار لگے لگائے روزگار اور جمے جمائے کاروبار چھوڑ کر آگ اور خون کا سیلابی دریا عبور کر کے اپنے پیاروں کی جانوں اور اپنی مائوں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کی عصمتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے نو زائید ہ وطن میں بے سرو سامانی کی حالت میں آکر ٹھر گئے۔ بقول ِ شاعر :

    ہوا سے اتنی محبت کہ ہم نے بے سوچے

    گھروں سے رکھ دیے لاکر چراغ صحرا میں

    محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا شمار بھی شمع ِ پاکستان کے انھی پروانوں میں ہوتا ہے۔ شُنید یہ ہے کہ جب وہ بھارت کی سرحد عبور کرکے پاک سرزمین کی جانب تشریف لا رہے تھے تو بھارتی سنتری نے ان کی جیب سے ان کا پین اُچک لیا تھا۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ تاریخی جملہ ارشار فرمایا تھا کہ " یاد رکھنا ایک دن میں تم لوگوں کو اسی قلم کی مار ماروں گا "۔ 28 مئی 1998 وہ تاریخی دن تھا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کر کے منہ توڑ جواب دے دیا۔ ایسا دندان شکن جواب کہ جس کو بھارت کی آیندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔

    1971 میں سانحہء مشرقی پاکستان کے بعد بھارت طاقت کے نشے میں اس قدر اندھا ہوگیا تھا کہ اُس نے پاکستان کو لقمہء تر سمجھ لیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی قوم کو اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران کا سامنا تھا اور اس کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ اُس وقت پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مسیحا کے طور پر منظر عام پرآئے اور اُمید کی کرن بن کر اُبھرے۔ ان کی ابتداء ہی سے یہ سوچ تھی کہ پاکستان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی قوت کا حصول ناگزیر تھا، لیکن پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے سخت ناپسندیدہ بات تھی۔

    چناں چہ 9 اگست1976 کو امریکا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور میں بھٹو صاحب سے ایک خصوصی ملاقات کی جس کا مقصد پاکستان کو ایٹمی تکنیک کے حصول اور فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے سودے سے روکنا تھا۔ اس ملاقات کے دوران ڈاکٹر کسنجر کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ بھٹو کا فیصلہ اٹل تھا اور وہ ہر حال میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر رہیں گے۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ وزیر اعظم بھٹو نے کہا تھا " گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے"۔

    چناں چہ مِسٹر کسنجر نے اپنی واپسی کے وقت جہاز پر سوار ہونے سے پہلے بھٹو صاحب سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ " مسٹر بھٹو ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے "اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ہنری کسنجر نے یہ مثال بھی دی کہ " مسٹر بھٹو جب سامنے سے ریل گاڑی آتی ہوئی دکھائی دے تو عقل مند آدمی پٹڑی سے ہٹ جاتا ہے " ہنری کسنجر کی دھکمی کے جواب میں ذوالفقار علی بھٹو نے صرف ایک معنی خیز مسکراہٹ پر ہی اکتفا کیا۔ پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

    یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ جب پاکستان نے چین یا فرانس کے ساتھ ایٹمی توانائی کے حصول کے بارے میں بات چیت شروع کی، امریکا اُس کے راستے میں ضرور حائل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو ہرگز گوارہ نہیں کہ پاکستان سیاسی، اقتصادی یا دفاعی میدان میں خود کفیل ہو جائے اور امریکا کے دبائو سے آزادی حاصل کر لے۔ امریکا تو بس یہی چاہتا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک ہمیشہ اُس کے دستِ نگر رہیں اور اُن کے ہاتھ میں ہمیشہ کشکول رہے۔ امریکا پاکستان کا جس طرح کا دوست ہے اُس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے :

    ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

    یہ پاکستان کی انتہائی خوش قسمتی تھی کہ اُسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا مخلص جوہر ِقابل میسر آگیا جس کی کاوشوں نے وطن ِ عزیز کو ایٹمی قوت بنا کر نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دیا بلکہ پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت اور اسلام کا ناقابلِ تسخیر قلعہ بنا دیا۔

    بہر حال یہ امر لائقِ تحسین ہے کہ بھٹو صاحب کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی ایٹمی پروگرام کو بدستور جاری رکھا جس کے نتیجے میں 28 مئی 1998 کو پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی اولین ایٹمی قوت بن گیا۔ اس کا میابی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے سر ہے جس کے لیے ڈاکٹر صاحب کو "محسنِ پاکستان" کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو ڈاکٹر صاحب " پاسبانِ اعظم " کے خطاب کے مستحق ہیں۔ کیماڑی سے خیبر تک ہر پاکستانی کے دل پر ان ہی کی حکمرانی ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا یہی جوہر ان کے حاسدوں کو کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب کو ان کا جائز مقام دینے کے بجائے انھیں معتوب کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے، بے شک عزت و ذلت دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔