Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Thes Na Lag Jaye Aabgino Ko

    Thes Na Lag Jaye Aabgino Ko

    جسمانی ساخت کے علاوہ جو چیز بنی آدم کو دیگر مخلوقات کے مقابل ممتاز کرتی ہے وہ ہے منہ کے اندر رکھا ہوا گوشت کا و ہ چھوٹا سا ٹکڑا جو زبان کہلاتا ہے، اسی کی بنیاد پر انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے۔ بتیس دانتوں کے درمیان محفوظ گوشت کا یہ بظاہر یہ چھوٹا سا ٹکڑا ریشم سے زیاد ہ نرم و ملائم اور کانٹے سے بھی زیادہ سخت و کرخت بھی ہے۔

    یہ کاری زخم لگانے والا آلہ تیز دھار بھی ہے اور کاری سے کاری زخم کو مندمل کرنے دینے کی خاصیت رکھنے والا شفاء بخش مرہم بھی۔ اس کے صحیح استعمال سے پرائی بیٹی اپنی اور غلط استعمال سے اپنی بیٹی بھی پرائی ہوسکتی ہے۔ یہ ہماری زبان بڑی ہی عجیب شے ہے۔ شہد اور مصری کی ڈلی سے زیادہ شیریں اور نیم کی نبولی سے زیادہ تلخ اور کریلے سے سوا کڑوی۔ جگر مراد ؔآبادی کے بقول :۔

    یہ شاخِ گل بھی ہے تلوار بھی ہے

    بزرگوں کی نصیحت ہے کہ" پہلے تولو اس کے بعد بولوـ" جیسا موقع محل بس ویسی ہی زبان اور لب و لہجہ۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ " دُکان داری نرمی سے اور تھانہ داری گرمی سے " جہاں بات پر زبان کٹنے کا اندیشہ لا حق ہو وہاں خاموش رہنا ہی بہتر ہے کہ مصلحت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ غالب نے خوب کہا ہے!

    مصلحت کچھ تو ہے جوہم چُپ ہیں

    ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

    زبان اظہار کا سب سے بڑا اور موثر کارگر ذریعہ ہے۔ یہ انسان کی قوت ِ گویائی کی سب سے بڑی اور نمایاں ترین علامت کرشمہ و گراں مایہ عطیہ قدرت ہے۔ یہ ابلاغ کا سب سے طاقتور اور زود اثر وسیلہ ہیں جو ایک انسان کے دل میں چھپی ہوئی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا کام انجام دیتا ہے۔ اسی لیے تو غالب نے کہا ہے کہ :۔

    میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں

    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    عموماً جو لوگ کم بولتے ہیں " انھیں بے زبان" اور جو بے تکان بولتے ہیں "انھیں چرب زبان کہا جاتاہے" جن کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے وہ "زبان دراز" کا خطاب پاتے ہیں۔ عام لوگ جو الفاظ کے انتخاب میں غیر محتاط ہوتے ہیں جاہل اور پھکڑ کہلاتے ہیں اور جو اپنے لفظوں کے موتی پروتے ہیں مہذ ب تمیز دار کہلاتے ہیں، زبان کے ساتھ ساتھ لب و لہجہ کی اہمیت بھی اپنی جگہ کچھ کم نہیں۔ اندازِ بیان سے سارا معاملہ اور مفہوم ہی کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے بقولِ غالبؔ:

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

    "ہم نے اپنے بزرگوں کی زبانی یہ نصیحت سنی تھی "زباں شیریں ملک گیری۔ زباں ٹیڑھی ملک با نکاہ "۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے پدرِ نسبتی( خُلد آشیانی )کی زبان مبارک سے ا کثر نصیحت آمیز فقرہ بھی ادا ہوتے ہوئے سنا تھا کہ "اگر منہ ٹیڑھا ہے تو کیا ہوا، اپنی زبان تو سیدھی رکھو"اچھا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ "زباں بگڑی دہن بگڑا"۔ مرزا صاحب نے تو یہ فرما کر کمال ہی کردیا کہ :

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

    گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہُوا

    آٹھ عشروں پر محیط اپنی زندگی کے دلچسپ، سبق آموز، تنوع آمیز، تجربوں سے لبریز اور ہنگامہ خیز طویل سفر کے دوران ہمیں دیس بد یس گھومنے پھرنے، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جن کے محض تذکرے کا بھی یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان میں کئی حکمراں، نامور سیاست داں، قانون داں، اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے دار، بڑے بڑے صنعت کار، ساہو کار، ڈاکٹرز، انجنیئرز، فنکار، اُد باء شعراء اور علمائے کرام غرض یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نابغہ روز گار حضرات کے نام شامل ہیں۔

    ان میں سے سب سے زیادہ کامیاب اور ہر دل عزیز انھیں ہی پایا جو نرم مزاج خوش گفتار اور پیکر عجزو انکسار تھے۔ بے شک عاجزی اور انکساری خدائے بزرگ و برتر کو بہت زیادہ پسند ہے اور ایسے لوگوں کو وہ نوازتا بھی بہت ہے۔ ہمارے ایک بزرگ شاہ حبیب الرحمن نورِ مرقدہ اُٹھتے بیٹھتے، حتیٰ کہ کروٹ بدلتے وقت بھی لفظ "بادشاہ" ضرور اپنی زبان سے بے ساختہ ادا کیا کرتے تھے، یہ ہمارے بچپن کا واقعہ ہے کہ ہم نے معصومانہ سوال کیا کہ نانا جان باد شاہ کون؟ تو مسکرا کر بولے " اللہ تعالیٰ"۔

    اس پر ہمیں خیال آیا کہ بڑے ماموں رات کو کہانی کے شروع میں یہ کیوں کہتے ہیں کہ " بچو ایک تھا باد شاہ " پھر اُسی سانس میں فوراً ہی پلٹ کر یہ کہنا بھی نہیں بھولتے کہ " ہمارا تمہاراسب کا خدا بادشاہ "۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ باد شاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں جس کی وجہ سے ہم آدمی کہلاتے ہیں۔ نظیر اکبرؔ آبادی نے اسی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے ہی تو اپنی بے مثل نظم "آدمی نامہ " میں کہا ہے کہ :

    دنیا میں باد شاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    اس سے آگے کی بات مرزا غالب ؔ نے یہ کہہ کر صاف کر دی :

    بس کہ دشوار ہے کہ ہر کام کا آساں ہونا

    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

    اور رہی سہی کسر علامہ اقبال نے یہ کہہ کر پوری کر دی کہ

    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

    نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

    مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران ہمارے ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے حوالے سے ایک متنازعہ بات کردی۔ پھر کچھ افراد نے رائی کا پہاڑ بنا دیا جس کے نتیجے میں خواہ مخواہ کی بدگمانی پیدا ہوئی اور دونوں برادر ملکوں کے درینہ تعلقات اچانک کشیدہ ہوگئے۔ ہم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے الفاظ پر بار بار غور کیا مگر بے ادبی یا گستاخی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا تو زبان پر یہ شعر آ گیا :

    وہ بات سارے فسانہ میں جس کا ذکر نہ تھا

    وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

    کاش!ہمارے وزیر خارجہ نے جو ایک آزمودہ کار وزیر ِ باتدبیر اور ایک ثقہ اور منجھے ہوئے سفارتکار بھی ہیں۔ میر ببر علی انیسؔ کے اس نصیحت آمیز شعر کو مدِ نظر رکھا ہوتا تو یہ شائد نوبت نہ آتی :

    خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم

    انیس ؔٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو