Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Uncle Sam Ki Barbariat

    Uncle Sam Ki Barbariat

    چِٹّی چمڑی کی بنیا دپر خود کو دنیا کی دوسری قوموں سے بالا اور بر تر سمجھنا گوروں کے خمیر میں شامل ہے۔ یہی احساس برتری دنیا پر گوروں کی حکمرانی کا سب سے بڑا اور بنیادی محرک ثابت ہوا۔

    White men’s burdenکا نظریۂ حکمرانی یا سیاہ فاموں کو اپنا غلام بنا کر رکھنے کا خبط اسی خام خیالی کی پیدوار ہے۔ گوروں کو ’صاحب، اور ان کی خواتین کو ’میم صاحب، کہہ کر مخاطب کرنے کی بدعت کا نقطۂ آغاز بھی یہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند پر گوروں کے دورِ حکمرنی کی آخری جھلک کے ہم عینی شاہد ہیں جب فرنگی حکمرانوں کی نظروں میں محکوم ہندوستانیوں کی حیثیت کتوں کے برابر تھی۔

    ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ معیاری ریستورانوں کے داخلی دروازوں کے باہر آویزاں تختی پر واضح اور نمایاں الفاظ میں لکھا ہو ا ہوتا تھا کہ "Dogs and indians not allowed "یعنی "کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے " اسی حقارت آمیز عبارت سے گوروں کی ذہینت کی پستی کا با آسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے اس دن کو دنیا کی تاریخ کا سب سے منحوس اور سیا ہ ترین دن بھی کہا جا سکتا ہے جب کولمبس نامی فرنگی سیاح نے ہندوستان کی تلاش کی جستجو میں امریکا کو دریافت کر لیا جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے اور افریقہ سے لا کر امریکا میں خدمت گزاری کے لیے بسائے سیاہ فام غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز بدسلوکی کا آغاز ہوا۔

    چنانچہ ابھی حال ہی میں امریکی ریاست مِنی سوٹا میں منیا پولیس کے پڑوس میں واقع پوڈر ہوون پارک میں گورے امریکی سپاہی کے ہاتھوں انسانیت سوز ظلم و تشدد کے باعث سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی لرزہ خیز ہلاکت کا تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے ا سکے بارے میں یہی کہ جا سکتا ہے کہ :

    وقت کرتا ہے پرورش برسوں

    حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

    نسل پرستی کے گھمنڈ میں مبتلا امریکیوں کی بربریت کا یہ پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ اس قسم کے سیاہ واقعات سے امریکا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ امریکی مطلب کے یار ہیں بوقت ِ ضرورت یہ گدھے کو بھی اپنا باپ بنا لیتے ہیں اور اس کے بعد اسے یکسر فراموش کر دیتے ہیں یا صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ بہت سوں کو انھوں نے مسندِ اقتدار پر بٹھایا اور جب مطلب نکل گیا تو انھیں نشانِ عبرت بنادیا۔

    ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں

    مثل مشہور ہے کہ " گھوڑے کی اگاڑی سے بھی ڈریے، پچھاڑی سے بھی ڈریے"امریکا سے تعلقات کے حوالے سے یہ مثل حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بقول "امریکا سے دشمنی مول لینا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن امریکا سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے" اس بات کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم پاکستان کے لوگ اس دوستی کا ذائقہ خوب چکھ چکے ہیں۔ بزبان ِ غالب:

    ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

    میں نے جب ویڈیو میں گورے پولیس کانسٹیبل کو بے بس فلائیڈ کی گردن کو عفریت کی طرح نہایت سفاکی سے دباتے ہوئے دیکھا تو غم و غصے کے مارے میرا خون کھول گیا اور میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔

    "ظا لمو تمہیں خدا غارت کرے"اُف!کتنا انسانیت سوز اور کرہیہ تھا وہ منظر، گورا امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کا دم گھونٹ کر ظالم امریکا کے منہ پر پڑا ہوا مکھوٹا اُتار کر امریکا کا اصلی ڈریکولائی خونیں مکروہ چہرہ پوری دنیا کے آگے بے نقاب کر رہا تھا۔ وہ امریکی مجسمۂ آزادی کا بھیانک رُوپ دنیا کو دکھلا رہا تھا۔

    وہ گرین کارڈ کے لالچ میں وطنِ عزیز اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر امریکا جانے والوں کو آگاہ و خبردار کررہا تھا۔ وہ ان کی امریکی گماشتوں کوبھی بے نقاب کررہا تھا کہ جوانسان حقوق کے علمبرداروں کے بھیس میں ہمارے جیسے ممالک میں عوام کو گمراہ کر کے اپنے مقاصد اور اہداف حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

    میری سانس رک رہی ہے "مظلوم فلائیڈ نے فریاد کی جس کے جواب میں گورے ستم گر نے اپنی گرفت مزید سخت کر دی تاآنکہ کہ بے چارے نے دم توڑ دیا۔۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے " والی کہاوت کے مصداق اس قتل کے حوالے سے سرکاری بیانیہ یہ تھا کہ مجرم نے گرفتاری سے بچنے کی کوشش کی تھی جس کے جواب میں پولیس والے کو یہ کارروائی کرنا پڑی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جائے واردات پر موجود لوگ اور پولیس والے اس انسانیت سوز منظر کو محض تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔ بقول شاعر:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    امریکا کا آئین بھی جو یہ کہتا ہے کہ "تمام انسان برابری کی حیثیت سے تخلیق ہوئے ہیں "اس ستم گری پر خاموش تماشائی بنا رہا۔ جارج فلائیڈ کی المناک موت کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں احتجاج کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی ہے جس کے نتیجے میں برطانیہ کے شہر برسٹل میں احتجاج کرنے والوں میں اٹھارویں صدی میں غلاموں کی تجارت کرنے والے بیوپاری کے مجسمے کو توڑپھوڑ کر زمیں بوس کر دیاگیا۔

    دوسری جانب غم و غصے سے پاگل مظاہرین نے کرسٹو فر کولمبس کے مجسموں کو تہہ بالا کر دیا۔ اُدھر بیلجیئم میں احتجاج کرنے والوں نے ہوی پولڈ دوئم کے مجسّمے کو اپنا ہدف بنایا ہے کیونکہ یہ وہ ظالم شخص تھا جس نے کانگو کے سیاہ فاموں کو اپنا ذاتی غلام سمجھا ہوا تھا اور جس کی حکمرانی میں لاکھوں افریقیوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا اُن کے ہاتھ پاؤں توڑ کر انھیں معذور کر دیا گیا۔ درحقیقت جارج فلائیڈ کے المیے نے نو آبادیاتی نظام اور ان کی باقیات کے خلاف ایک طوفان کا آغاز کر دیا ہے۔

    اس واقعے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لگائے ہوئے زخم بھی ہرے کر دیے ہیں اور برطانوی دور میں قحطِ بنگال کی تلخ یادیں بھی زندہ کر دی ہیں۔ جارج فلائیڈ کے قتل نے برصغیر میں برطانیہ کی حکمرانی کے دور میں ہونے والے جلیاں والاباغ کے قتل ِ عام کی خونی داستاں بھی یاد دلادی ہے۔

    دنیا کے مختلف حصوں میں اسی المیے کے خلاف (BLM) BLACK LIVES MATTER کے جھنڈے تلے نسلی امتیاز کے خلاف ایک زبردست تحریک شروع ہو چکی ہے جس سے متاثر ہو کر ایک پاکستانی مصّور حیدر علی نے کراچی میں ٹرک آرٹ TRUCK ART کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے فلائیڈ کا ایک پورٹریٹ بنایا ہے جسے اس نے عقیدت کے طور پر پھولوں سے آراستہ کیا ہے۔ ابھی فلائیڈ کی المناک موت کے سانحے کی خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ 12 جون 2020بروز جمعہ امریکا میں ایک اور سیاہ فام امریکی شہری جس کے اجداد کا تعلق افریقہ سے تھا نسلی امتیاز کی بناء پر ہلاک کر دیا گیا۔ اس مرتبہ یہ ہلاکت پولیس کی گولی کے نتیجے میں واقع ہوئی۔

    27 سالہ ریشارڈبُروکس اٹلانٹا، جارجیا میں تعاقب کرتی ہوئی امریکی پولیس کی گولی کا نشانہ بنا۔ اس سے قبل جولائی 2014 میں افریقی نژاد امریکی سیا ہ فام ایرک گارنر بھی اسٹیٹن آئی لینڈ میں پولیس کی حراست میں ہلاک ہوا تھا تادمِ آخر اس کی زبان سے بھی گیارہ مرتبہ یہی الفاظ نکلے تھے۔"میر سانس رُک رہی ہے۔" جارج فلائیڈ اور ایرک گارنر کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ امریکا ہی نہیں بلکہ نسل پرستی کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرین کی پکار اور نعرہ بن چکے ہیں۔ انکل سام کی بھڑکائی ہوئی نسل پرستی کی یہ آگ اب بجھ نہیں سکے گی کیونکہ:

    ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

    خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

    (ساحر لدھیانوی)