یوں تو دنیا بھر کے سکھ اپنے پیشوا بابا گرو نانک دیوجی کا یوم پیدائش ہر سال انتہائی عقیدت اور احترام و اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کا 50 واں جنم دن جس آن بان اور شان سے منایا گیا وہ ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے جسے مورخ سنہری الفاظ میں "مسلمان سکھ بھائی بھائی" کے خوبصورت عنوان سے تحریر کرے گا۔
اس مبارک موقع پر ایک انمٹ تاریخ رقم کی گئی جو کرتار پور راہداری کھلنے کے تاریخی واقعے سے عبارت ہے جو کسی انہونی سے کم نہیں۔ نو نومبر کو پیش آنے والا یہ واقعہ ناممکن کو ممکن بنا دینے کے عزم محکم کے سحر انگیز اثر کا کمال ہے جس کا سہرا وزیر اعظم عمران خان کی بصیرت اور ولولہ انگیز قیادت کے سر ہے۔
عمران خان کا یہ اقدام ان کی دور اندیش اور خدا داد قائدانہ صلاحیت پر مہر ثبوت سے کم نہیں ہے جس کے ثمرات آنے والے وقت میں ظاہر اور نمایاں ہوں گے۔ تاہم اس کا فوری جادوئی اثر یہ ہے کہ اس نے دو عظیم بہادر قوموں (Martial Races)کے درمیان اعتبار کی سازش کی پیدا کی ہوئی بدگمانی، بداندیشی اور مخاصمت پر مبنی برسوں پرانی حائل خلیج کو ایک جنبش میں پاٹ دیا ہے جس کا چمتکار یہ ہے کہ:
آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
مسلمانوں اور سکھوں کی مخالف قوتوں کو ان دونوں دلیر قوموں کی مشترک اقدار اور طاقت کا خوب اندازہ تھا اور انھیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر ان میں اتفاق و اتحاد قائم ہو گیا تو ان کی دال نہیں گل سکتی۔ چنانچہ ان مخالف قوتوں نے جن میں اول اونچی ذات والے تعصب پسند ہندو اور دوم فرنگی حکمران شامل تھے "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان شدید نفرت کے بیج بو دیے۔
جس کے نتیجے میں سب سے پہلے مسجد شہید گنج کا واقعہ پیش آیا جس میں فرنگی حکمرانوں نے منگل سنگھ اور کھڑک سنگھ کو ملوث کرکے مسلمانوں کو سکھوں کے خلاف اکسا کر بھڑکایا اور پھر اس کے بعد برصغیر کی 1947 میں تقسیم کے وقت آر ایس ایس کے پروردہ انتہا پسند ہندوؤں نے اس وقت کی عاقبت نا اندیش سکھ قیادت کو جس کے سرخیل ہندو نواز ماسٹر تارا سنگھ تھے بانی پاکستان قائد اعظم کی بات نہ ماننے پر بہکا کر مسلمانوں کے خلاف سکھوں کو لڑوا کر خون خرابا کروایا جن کا انتقام قدرت نے کئی برس بعد اس وقت لیا جب بھارت کی پردھان منتری اندرا گاندھی کی ان کے سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد راجدھانی دلی میں سکھوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جس کے دوران ہندو بلوائیوں نے سکھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور یوں سکھوں کی ہندو نواز قیادت کی گمراہی کی سزا پوری سکھ قوم کو ملی اور 1947 میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام اور مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کا حساب برابر ہوگیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سکھ قیادت نے دھوکے میں آکر سکھ قوم کا سستا سودا کرلیا۔
توفے فروختند و چہ ارزاں فروختند
اس وقت ہمیں سالار احرار مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی یہ تاریخی پیش گوئی یاد آرہی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ سکھ مسلمانوں سے اتحاد و اتفاق کی بھیک مانگیں گے۔ سکھوں کو عمران خان اور حکومت پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے سکھ برادری کو بھیک مانگنے کی نوبت آنے سے قبل ہی دعوت اتحاد دے کر ان کی لاج رکھ لی۔
علامہ سید عطا اللہ شاہ بخاری نے اپنی حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعصب اور جھوٹے ہندوؤں کی اس عیاری کا پردہ بھی یہ بات کہہ کر چاک کردیا کہ "ہندو پریس کی بے ایمانی و بددیانتی اور آزادی وطن کے لیے کام کرنے والوں سے غداری ملاحظہ ہو کہ شہید گنج کے ساتھ مسجد شہید گنج نہیں لکھتے بلکہ گوردوارہ شہید گنج لکھتے اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے گوردوارہ پر دھاوا بول دیا۔" سکھوں اور مسلمانوں کی غالب اکثریت شاید اس بنیادی حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ اسلام اور سکھ مت میں کئی قدریں مشترک ہیں جن میں توحید سرفہرست ہے۔ مسلمانوں کی طرح بابا گرو نانک بھی بت پرستی کے قطعی مخالف اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر پختہ و کامل یقین رکھتے تھے جب کہ مورتی پوجا ہندو دھرم کا سنگ بنیاد ہے۔
اس اعتبار سے سکھ مت اور ہندو دھرم میں قطبین کا فاصلہ حائل ہے۔ اس کے برعکس سکھ مت اسلام کے بنیادی عقیدے وحدانیت و توحید سے گہری مطابقت و مناسبت کا حامل ہے۔ دیگر یہ کہ بابا گرو نانک نے ہندو مذہب کے ذات پات کی تفریق کے بنیادی نظریے کی مخالفت اور "ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز" کے اسلامی عقیدے کی پیروی اور تبلیغ کی۔
بعض روایات کے مطابق بابا گرو نانک نے حج کی سعادت حاصل کی اور نبوت کا دعویٰ بھی نہیں کیا نیز قرآن مجید کو صحیفہ آسمانی و آخری بھی تسلیم کیا نہ اپنی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب کے آسمانی صحیفہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ دین اسلام سے سکھ مت کی قرابت کا ایک نہایت اہم اور قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ امرتسر میں قائم سکھوں کے عظیم گردوارے گولڈن ٹیمپل کا سنگ بنیاد بھی اپنے عہد کے جانے مانے ولی اللہ حضرت میاں میر نے بابا گرو نانک کے بے حد اصرار پر اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا تھا۔ نیز یہ کہ گروگرنتھ صاحب نامی بابا گرو نانک کی تحریر کردہ مقدس مذہبی کتاب میں شامل حضرت میاں میر کا عارفانہ کلام گرنتھ صاحب کا جزو لاینفک ہے جسے سکھوں کی متبرک مذہبی کتاب کی روح رواں کا درجہ حاصل ہے۔
اسلام اور سکھ مت کے بنیادی اور اثاثی عقائد اور نظریات میں گہری مماثلت نے اردو زبان کے دو ممتاز شعرا نظیر اکبر آبادی اور علامہ اقبال کو بابا گرو نانک کی عظمت کے گن گانے اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے پر مائل کیا ہے۔ منفرد لب و لہجے کے حامل درویش صفت عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے گرو نانک کی عظمت یوں بیان کی ہے:
ہمیں کہتے نانک شاہ جنھیں وہ ہیں پورے آگاہ گرو
وہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ناہ گرو
مقصود مراد امید سبھی بر لاتے ہیں دل خواہ گرو
نت لطف و کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا …گرو
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
شاعر اسلام علامہ اقبال نے عظیم مواحد بابا گرو نانک کی توحید پرستی اور وحدانیت کی شمع روشن کرنے کے حوالے سے گرو نانک کو ان الفاظ میں خراج عقیدت و تحسین پیش کیا ہے:
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
ایسے نامساعد حالات میں جب کہ بھارت کے حکمرانوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے غلط فیصلے کے اعلان کے ذریعے انصاف کا خون کرکے بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور سیکولرزم کا جنازہ نکالا جا رہا ہے وزیر اعظم عمران خان کے زیر قیادت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جانب سے سکھ برادری کے لیے ویزا کے بغیر ان کے مقدس گردوارے تک آزادانہ اور باسہولت رسائی کے لیے کرتارپور راہداری کھولنے کا اقدام ایک شیردلانہ کارنامہ ہے۔
جس نے دنیا بھر کے 14 کروڑ سکھوں کے دل جیت لیے ہیں۔ چنانچہ سکھ برادری کے اہم نمایندے اور بھارت کے ممتاز سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کا یہ کہنا کہ "عمران خان پہلا ببر شیر وزیر اعظم ہے جس نے دل کی بات سنی۔" حرف بہ حرف درست اور بجا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھوں کی چار نسلوں نے جو سپنا دیکھا تھا وہ عمران خان نے پورا کردیا۔ اپنے اس تاریخ ساز اقدام کی وجہ سے عمران خان آج 14 کروڑ سکھوں کے دل کی آواز بن چکے ہیں۔ سدھو نے کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا کہ کچھ لوگ عمران خان جیسے ہوتے ہیں جو اتہاس (تاریخ) بنایا کرتے ہیں۔
تقریب میں سابق بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل، مرکزی وزیر ہرسمرت کوربادل و دیگر اہم شخصیات کے علاوہ کینیڈا، یورپ، امریکا اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے ہزاروں سکھوں نے شرکت کی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کے فقید المثال منصوبے کی افتتاحی تقریب سے اپنے تاریخی خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین تمام انسانوں کے لیے ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدؐ بھی رحمت للعالمین تھے۔ انھوں نے بابا گرو نانک کی درویشی کے حوالے سے برصغیر کے عظیم صوفیائے کرام بشمول بابا فریدؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کا تذکرہ کیا جنھوں نے انسانیت، انصاف، رواداری اور بھائی چارہ کا درس دیا۔ وزیر اعظم نے بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کا نام نہ لیتے ہوئے کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو نفرت پھیلانے کے بجائے لوگوں کو متحد کرے۔ اسی تناظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اشارۃً کہا کہ آج ہمیں سوچنا چاہیے کہ خطے میں نفرت کے بیج کون بو رہا ہے۔
توقع ہے کہ کرتار پور رواداری کے کھل جانے سے مسلم سکھ اتحاد کے نئے باب کھلیں گے اور اس تاریخ ساز فیصلے کے برصغیر پاک و ہند کے مستقبل کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ انشا اللہ! بقول شاعر:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ