گزشتہ ماہ کی 17 تاریخ کو دنیا بھر میں انسدادِ غربت کا عالمی دن منایا گیا، تو بہت پرانے زخم ہرے ہوگئے کہ بقولِ شاعر:
رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالَم تنہائی کا
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پرُ وائی کا
غربت کا ذکر چھڑا تو بے ساختہ حضرت بُومؔ میرٹھی یاد آگئے۔ قبل اس کے کہ بات کچھ آگے بڑھے مختصر تعارف میرٹھ کا جو ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اُتّر پردیش ( یو۔ پی) کا وہ تاریخ ساز شہر ہے جہاں سے 1857 میں فرنگی حکمرانوں کے خلاف جنگ آزادی کی چنگاری پھوٹ کر شعلہ ِ جوالہ بنی تھی اور جس نے پورے برصغیرکو اپنی لپیٹ میں لے کر بالآخر فرنگی حکمرانوں کو 1947 میں آزادیِ ہندوپاکستان پر مجبور کر دیا تھا۔ سچ پوچھیے تو قیام ِ پاکستان بھی اسی جدوجہدکا ثمر ہے۔ میرٹھ کے یہ جیالے آج بھی انتہاپسند ہندو تنظیموں کے سامنے سینہ سپرہیں۔
میرٹھ کی شہرت کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہاں کی چھریاں اور قینچیاں بھی بہت مشہور ہیں۔ میرٹھ کا "نوچندی " میلہ بھی اس شہرکی شہرت کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہندوستان کے نامورقوال کلّن خاں کا تعلق بھی میرٹھ ہی سے تھا۔ تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے میرٹھ کے نواب محمد اسماعیل کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔
اس کے علاوہ انھی کے ہم نام مولانا اسماعیل نے اردو زبان کی تعلیم اور ترقی کے لیے جو خدمات درسی کتابیں لکھ کر انجام دی ہیں اردو والوں پر ان کا احسان ِ عظیم ہے۔ مولانا کے نام کے ساتھ جڑا ہوا میرٹھ کا لاحقہ ان کے اسم گرامی کا اٹوٹ انگ بن گیا ہے۔
بات نکلی تھی غربت کی تو بُوم ؔ اس لیے یاد آگئے کہ موصوف خود ایک نابغہ روز گار عوامی شاعر ہونے کے باوجود تمام عمر غربت اور مفلسی کا شکار رہے۔ شاعری ہی ان کا ذریعہ معاش رہی وہ عوامی موضوعات پر نظمیں لکھ کر انھیں سستے کاغذ پر چھپوانے کے بعد شہر بھر میں با آواز ِبلند اپنے مخصوص انداز میں لہک لہک کر پڑھتے ہوئے گزرتے تو لوگ بے حد لطف اندوز ہوتے اور ان کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتیں۔ حضرت بُوم ؔ بڑی عجیب وغریب شخصیت کے حامل شاعر تھے جیسا کہ ان کے تخلص سے صاف ظاہر ہے، اگر چہ برصغیر پاک وہند میں بُوم کو اُلّوکہا جاتا ہے جس سے مراد بے وقوف یا احمق انسان ہے مگر مغرب میں یہی بُوم یا اُلّو دانش کی علامت تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہمارے وطن میں یہ چلن عام ہے کہ لیڈر عوام کو اُلّو بنا کر الیکشن جیت کر برسرِ اقتدار آتے ہیں اور پھراس کے بعد پورے عرصے اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ بُومؔ نے چونکہ اپنی ساری عمر غربت میں گزار دی اس لیے غربت کے حوالے سے ان کی شاعری میں آپ بیتی کی چاشنی کا ذائقہ اور رنگ نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر غربت کے حوالے سے ان کی ایک طویل اور انتہائی مقبول اور اثر انگیز نظم سے یہ اقتباس پیش ِ خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اور داد پر داد دیجیے:
کبھی امّاں کہا کرتی تھیں میرا لاڈلہ لالہ
کبھی جورُو کہا کرتی تھی میرا پیارا گھر والا
مگر جب مفلسی کا آن کر گھرکو لگا تالا
مراد آباد کو اماں گئی میرٹھ گئی خالہ
بوقت تنگ دستی آشنا بیگانہ می گردد
صراحی چُوں شَود خالی جدا پیمانہ می گرد د
بُوم ؔ میرٹھی نے غربت کے حوالے سے جو کچھ فرمایا ہے وہ حرف بہ حرف بجا ہے۔ غریبی بڑی بلا ہے۔ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ یہ اپنوں کو بیگانہ کردیتی ہے۔ غربت میں سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جس طرح تاریکی میں سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑدیتا ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ باپ بھلا نہ بھیا، سب سے بھلا روپّیہ۔ غریب کی جو رُو سب کی بھابھی۔
اس سال غربت کا عالمی دن ایسے موقعے پر منایا گیا جب ساری دنیا کوکو رونا کی انتہائی خوف ناک اور سنگین وباء کا چیلنج درپیش ہے۔ جس میں غربت نے بے تحاشہ اضافہ کرکے عوام کا جینا ہی نہیں بلکہ مرنا بھی حرام کر دیا ہے۔ بقول ِ غالبؔ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کوویڈ 19 کی عالمگیر وباء نے دنیا کی معیشت کی چُولیں ہلا کررکھ دی ہیں۔ عالمی ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی (U.N.D.P)کے تازہ ترین جائزے کے مطابق پاکستان سمیت کورونا وائرس کے تباہ کن اثرات نے دنیا کے 70 ممالک کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں 480 ملین عوام معاشی اعتبار سے 9 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔
وطن عزیزکے چالیس فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک جانب مہنگائی کا تیزی سے بڑھتا ہوا طوفان ہے تو دوسری جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سیلاب ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو آپس کی لڑائی اور رسّہ کشی سے ہی فرصت نہیں۔ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان مسلسل پستے ہوئے بے بس عوام حیران و پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟ کیفیت یہ ہے کہ "ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم۔"
وطن عزیز کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے بعد اسے کوئی متبادل لیڈر میسر نہیں آیا۔ ہم کوئی لی کوان یُوپیدا کر سکے اور نہ کوئی مہاتیر محمد۔ نہ ہی رجب طیب اردوان اور نہ کوئی ایبی احمد۔ عمران خان کے بارے میں ہمارا گمان تھا کہ ہمیں وہ مسیحا مل گیا جس کی قوم کو تلاش تھی لیکن عقدہ یہ کھلا کہ شاید یہ ہماری خوش فہمی تھی۔
یہ بات غور طلب ہے کہ عمران خان نے ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد کے وزیر اعظم بننے کے صرف چند ماہ بعد ہی پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ لیکن اگر ان دونوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد کم عمری کے باوجود ہمارے وزیر اعظم پر بازی لے گئے ہیں اور وہ ایک مثالی وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔