Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Faislon Ke Samrat

Faislon Ke Samrat

پہلی جنگ عظیم 1914-18 تک عالم اسلام کا بڑا حصہ مسائل سے دوچار تھا، برطانیہ، فرانس اور دوسری بڑی مغربی قوتیں بڑے اسلامی حصے پر قابض تھیں، سلطنت عثمانیہ کے شیرازہ بکھیرنے سے عالم اسلام شکستہ تھا، پھر دنیا بھر میں جنگیں شروع ہوئیں جنگ عظیم اول کے بعد دوم نے دنیا کے نقشے میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں۔

ان آزاد ممالک میں بالخصوص مشرق وسطیٰ، خلیجی ریاستوں اور عرب ممالک اپنی قیمتی معدنی طاقت تیل کے باعث ایسے ابھرے کہ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگر دنیا کی ترقی کے پہیے کو کوئی طاقت روک سکتی ہے تو ایسا سعودی عرب نے کرکے دکھایا جب کنگ فیصل نے 1973 میں اسرائیلی نواز عرب پالیسی کے خلاف اپنے ایک انٹرویو میں یہ بم پھوڑا۔ آج کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ یقیناً ایک جرأت مندانہ اقدام تھا انھوں نے اپنی اس طاقت کو استعمال کرنے اور اس سے موثر فیصلوں کے حصول کے لیے بخوبی استعمال کیا۔

یہ سچ ہے کہ صحیح فیصلہ صرف ایک انسان کے لیے ہی نہیں بلکہ قوموں کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ لیڈران کے درست اور پرخلوص فیصلے قوموں کے لیے راہیں متعین کرتے ہیں، پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم ایسے ہی فیصلوں کا اثر تھیں جس نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جانوں کو تلف کیا، مالی طور پر بے انتہا نقصان پہنچا، ایک طویل عرصہ انسانی نفسیات ان جنگوں کے اثرات سے ملول رہی۔ جب کہ بہت سے ایسے فیصلے جو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جائیں یقیناً مثبت اثرات لے کر ابھرتے ہیں، فیصلوں سے متعلق بھی عجیب سی فلاسفی ہے، یہ آخر ہے کیا؟

یہ کیوں کیے جاتے ہیں، کس لیے کیے جاتے ہیں اور ماضی، حال اور مستقبل سے فیصلوں سے کس حد تک رشتہ ہے۔ آگے بڑھ کر ترقی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرگزرنے کا سوچنا مادی اعتبار سے تو درست فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن یہ بہت سی دشواریوں، رکاوٹوں اور معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کا باعث بھی بن سکتا ہے، عام طور پرکم عمر میں نوجوان اس طرح کے فیصلے کرکے اپنے مستقبل کی راہ کو متعین کرتے ہیں، اس طرح ظاہری طور پر تو بہت سے اشخاص کافی کچھ حاصل کر لیتے ہیں جب کہ ان کو دیکھنے والے سرد آہیں بھرتے ہیں کہ ہم بھی یوں کر لیتے تو ہم بھی یہ سب کچھ حاصل کرسکتے تھے جب کہ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایسے اشخاص کی ترقی اور اس تک پہنچنے کے راستے کو جانتے ہوئے بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ جو بھی ہیں جہاں بھی ہیں شکر ہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، تیسری دنیا کے افراد ہوں یا ترقی پذیر ممالک کے لوگ مادی اور نفسیاتی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے جن میں بیشتر ممالک یورپ میں شمار ہوتے ہیں متاثر ہیں، ان کے اخلاق، فیشن، جدت سے بھرپور مشینی زندگی، چمک دمک سے مزین ایسی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن جب رب العزت کی جانب سے دنیا بھرکی دولت بخشی گئی ہو پھر بھی اہل مغرب کی طرز پر چلنے کی کوشش کرنا یا یوں کہہ لیں کہ کوا چلا ہنس کی چال تو۔۔۔۔۔ اس سے آگے کی کیا کہیں لیکن جو کچھ 2020 سے آج تک سنتے پڑھتے آئے ہیں اسے دیکھ کر انسانی فطرت کی بے چینی یا اضطراب کا آخر یہ کون سا پیمانہ ہے جو بھرے چلا جا رہا ہے۔

ایک وقت تھا جب تیل جیسی معدنی دولت کے ساتھ عالمی افق پر خلیجی ممالک چمکتے ہوئے ابھرے تھے اس دوران بھی بہت سے دوسرے مقامات پر مسلمان اقوام اپنی آزادی کے لیے برسر پیکار تھیں جن میں فلسطین، قبرص اور کشمیر شامل تھے گو آج کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مودی سرکار نے اپنے سرکاری آرٹیکلز کے تحت بظاہر اس کی شناخت کو معدوم کردیا ہے لیکن آج بھی فلسطینی اور کشمیری عوام اپنے آزادی کے حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے نتیجے میں دنیا بھر میں اسلام ایک مقبول مذہب بنتا جا رہا ہے اور اکثر یورپی ممالک کو خدشہ ہے کہ کہیں غیر مسلم یورپی باشندے اقلیت میں نہ بدل جائیں۔

تہذیبوں کے درمیان تصادم کو روکنے اور مسلمانوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بے ہودہ الزام تراشی کرنے کے بعد انھیں ہدف بنانے سے مغربی دانشوروں اور تنظیموں کو باز رہنے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، تمام مذاہب کے ماننے والوں کے دلی جذبات کا احترام کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، وہیں فرانس، ڈنمارک اور جرمنی اور دیگر مغربی ممالک سے اسلام مخالف دشمنی اور شان رسالت کی توہین کے واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دور حکومت ان مذموم حوالوں سے سرفہرست ہے، شاید اس لیے بھی کہ درپردہ امریکا کا آرڈر چلنے کے حوالوں سے بہت سے اسلام مخالفانہ عوامل کو ہوا ملی اور ٹرمپ ذاتی طور پر جارحانہ انداز کے حامل رہے ہیں۔

معاشرہ کس نہج پر چل رہا ہے یا چلنا چاہیے اس کا فیصلہ اقدارکو رکھ کر کیا جاتا ہے اور اس کا تعلق ثقافت کے ساتھ ساتھ مذہب سے زیادہ جڑا ہے جو کام مغربی ممالک یا کلچر میں کیا جاتا ہے، اسے برصغیر کے اقدار کو دیکھتے ہوئے اگر یہاں رائج کیا جائے تو اسے بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ بھارت اپنے کلچر میں تبدیلی لانے کے لیے جٹا ہوا ہے کیونکہ وہاں بہت سے علاقوں میں خاص کر راجستھان میں خواتین بہت لمبا گھونگٹ رکھتی ہیں جو وہاں کی ثقافت و اقدار کا حصہ ہے اور گھونگھٹ یا پردے کا تعلق کیونکہ مذہب اسلام سے ہے اور مودی سرکارکسی بھی سرے سے اپنے خطے پر خاص کر ہندو مذہب کے ماننے والوں کو صرف اس لیے بے پردہ کرنے کی خواہ ہے کہ انھیں اسلام کے نام سے کوفت محسوس ہوتی ہے۔

چند مہینوں پہلے اس مہم کو بڑے زور شور سے چلایا گیا لیکن پردے سے پیار کرنے والے اپنی ثقافت و اقدار سے جڑے لوگوں نے مودی سرکارکی اس مہم کو ناکام بنا دیا کیونکہ ان کے خیال میں ان کے کلچر کے گھونگھٹ کا تعلق ان کی نسلوں سے ہے۔ لمبا گھونگھٹ کرنے والی خواتین ڈاکٹرز بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں اور زندگی کے کئی میدانوں میں کامیاب ہیں حالانکہ وہ مسلمان نہیں ہیں لہٰذا اپنی خواتین کو بے پردہ کرنے کا مودی حکومت کا پلان فیل ہو گیا۔

زمانہ جدید میں زندگی مشینی انداز سے دوڑ رہی ہے کامیابی حاصل کرنے کی دوڑ میں لوگ پہلے سے تیز قدم اٹھا رہے ہیں، یہ قدم اس قدر تیز ہیں کہ لوگوں کے رویے، ثقافت و اقدار، نظریات اور مذہبی اخلاقیات خانوں میں بند کردیے گئے کہ ترقی کی دوڑ میں وہ ان سے بار بار نہ الجھے۔