فرینک کیپریو امریکا کا ایک میونسپل چیف جج اب پھر سے سوشل میڈیا کے ذریعے مقبول ہو رہا ہے، حالات کے مارے دکھیارے لوگ جن کے ساتھ اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ فرینک کیپریو جیسے مہربان جج کے رویے پھر مشہور ہو رہے ہیں اور دنیا بھر سے لوگ ایسے مستحق لوگوں کے لیے جرمانے کی رقوم بھروانے کے لیے انھیں پیسے بھیجتے رہتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہمیں ایسی باتیں ماضی میں سننے کو ملیں۔ ہمارے خلفائے راشدین کے عہد کو دیکھ لیں، قاضی کے کردار میں آپ کو جھول نظر نہیں آئے گا لیکن اس دور میں جب ہمیں قاضی اور وکلا کے تلخ واقعات و حادثات بھی سننا پڑ رہے ہیں۔
اسی دور میں فرینک کیپریو ایک اچھی مثال بن کر سامنے آیا ہے گو اس سے پہلے بھی اور اب بھی دنیا بھر میں بہت سے جج حضرات کا کردار اور فیصلے انصاف کے تقاضوں پر اس قدر پورے نظر آئے کہ کتنا ہی اونچا سیاسی شملہ ہو یا مالی اعتبار سے شاندار اور باحیثیت شخصیات انصاف کے ترازو پر پورا تول کے فیصلہ کیا گیا اور شاید ایسے ہی اچھے لوگوں سے یہ دنیا قائم ہے، وہیں ڈاکٹر عافیہ کا کیس انصاف کے ترازو میں ڈھیروں خامیوں کے ساتھ لڑکھڑاتا نظر آتا ہے۔
فرینک کیپریو اپنے ماضی کو نہیں بھولا، اسے یاد ہے کہ اس کا باپ ایک غریب آدمی تھا جو اٹلی سے ہجرت کرکے آیا تھا اس کے دل میں اپنے بچوں کی ترقی اور خوشیوں کے بہت سے خواب بسے تھے ان کو فرینک نے کسی حد تک پورا بھی کیا، وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور اب چیف جج کی حیثیت سے لوگوں کو انصاف فراہم کر رہا ہے، فرینک نے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھیں۔
اس کا کہنا ہے کہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ لینا ہی بڑی بات نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ سیڑھی کو نیچے سے اوپر آنے والوں کے لیے وہیں رکھ دینا چاہیے تاکہ دوسرے بھی اس سیڑھی پر چڑھ کر اوپر کی جانب بڑھ سکیں۔ ہمارے یہاں اس نظریے کو صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے۔
اس کو عام زبان میں بیان کریں تو کچھ اس طرح سے کہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، یہاں تک کہ ہمارا روپیہ پیسہ، ہنر، ذہانت اور لیاقت بھی ان ہی خوبصورت نعمتوں میں شمار ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رب العزت نے جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ہم ان سے فیض یاب ہوں اور پھر انھیں اپنے تک ہی محدود رکھیں۔
روپیہ پیسہ بینکوں میں بھر دیں اور اس پر ہی بس نہ چلے تو لوگوں کی نظروں اور ریکارڈ کی نظروں سے اوجھل بوریوں میں بند کرکے کہیں بھی چھپا دیں اس نعمت سے کوئی اور مستفید نہ ہو، اسے آپ حسد بھی کہہ سکتے ہیں جلن ہوگی کہ اگر کوئی اور بھی اس پیسے کو استعمال کرے گا فیض یاب ہوگا یا ہم پڑھ لکھ کر ڈگریاں اکٹھی کرلیں۔
بڑی بڑی تراکیب سیکھ لیں اپنے تجربات سے خود ہی مستفید ہوں اور ان کو اپنے سینے میں دفن کرکے ہی دنیا سے گزر جائیں کیونکہ ہمارے اندر کا بغض ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کرے گا کہ میں اپنا تجربہ جو میں نے برسوں کی محنتوں کے بعد حاصل کیا ہے ایسے ہی نئے آنے والوں کو دے دوں لیکن ہمارے اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے ہمارے یہاں صدقہ جاریہ ایک ایسا خوب صورت پیکیج ہے کہ جس کے فوائد ہم مرنے کے بعد بھی حاصل کرتے رہیں گے کیونکہ ہمارے تجربے، پیسے، عطیات اور رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں کو شیئر کرنے کے بعد جتنے بھی لوگ اس سے مستفید ہوں گے تو ہمیں ثواب ملتا رہے گا۔
مغرب کے ججوں کی کہانیاں، قصے اور ویڈیوز تو آج کل کے سوشل میڈیا کے ذریعے مقبول ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اس دور کی بات بھی کرتے ہیں جب یہ میڈیا نہ تھا، کراچی کی ہی سیشن کورٹ کا قصہ ہے کوئی بیس اکیس سال پہلے کی بات ہے۔
وہ جج صاحب اپنی کرپشن کے معاملے میں خاصے مشہور تھے۔ محترمہ کہ جن کے ایڈوانس کے پیسوں کا یہ کیس تھا مجبور اور عزت دار تھیں ان کو کرائے کا گھر چھوڑے مہینوں ہو چکے تھے لیکن مالک مکان ان کا ایڈوانس دینے میں حیل و حجت کر رہا تھا دراصل وہ مکان فروخت کرچکا تھا اور نئے مالک مکان سے اس نے اپنے سارے معاملات طے کرلیے تھے اور خاتون کے ایڈوانس کی موٹی رقم ہضم کرچکا تھا ویسے تو یہ سیدھا سا فراڈ کا کیس تھا لیکن یہاں مدعی کی کون سنتا ہے۔
تاریخ پڑتی اور مجبور خاتون چپکے سے جا کر کورٹ میں بیٹھ جاتی مالک مکان عیار تھا کبھی تاریخ پر نہ آیا، خاتون کے وکیل ایک مہربان نیک دل بزرگ وکیل تھے جو اکثر ایسے مقدمات میں سوائے دعاؤں کے کچھ نہ لیتے اور آج ان کے انتقال کے بعد بھی یقینا ان کی مغفرت میں ان تمام مجبور لوگوں کی دعائیں بھی شامل ہیں۔ آخر خاتون نے تنگ آ کر جج صاحب سے مودبانہ گزارش کی اور بقول لوگوں کے کرپٹ جج ہے۔ انھوں نے سخت آرڈر دیے اور یوں جج صاحب کے حکم کے مطابق پولیس بھی حرکت میں آئی، بوڑھے عیار مالک مکان کو عدالت آنا ہی پڑا۔
جج نے فوری پیسوں کی ادائیگی کا حکم دیا۔ بوڑھے کا چالاک بیٹا عدالت سے باہر انتظار میں تھا کہ کب اس کا والد اپنے بڑھاپے کا فائدہ اٹھا کر، رو پیٹ کر پلٹے اور وہ دونوں پھر سے رفو چکر ہو جائیں۔ جیساکہ ہماری عدالتوں میں ہو رہا تھا پھر ایسا نہ ہوا بلکہ بالآخر بیٹے کو بھی عدالت میں آنا پڑا اور قرار پایا کہ وہ مقررہ تاریخ پر پیسے جمع کرائیں گے، یوں ان مظلوم خاتون کو اپنی رقم ملی۔ جج صاحب کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ وہ آؤٹ آف وے جا کر یہ کارروائی کر رہے ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو خاتون کو کبھی ان کا حق نہیں مل سکتا۔
آج ہمارے بہت سے ادارے اپنا مقام کھو رہے ہیں اعلیٰ ذمے داران اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں لیکن اب بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو انفرادی طور پر اپنا کردار انصاف کے ترازو کی جانب دیکھ کر اور خوف سیاست سے بھرپور ادا کر رہے ہیں، بس بھیڑ چال میں کبھی نظر نہیں آتے۔