کسی بھی شہرکی ترقی میں اس کے بنیادی خدوخال کی مضبوطی سب سے ضروری ہے، اس بنیادی انفرا اسٹرکچر میں سڑکوں اور پلوں سے لے کر برساتی نالوں، پانی اور بجلی کے انتظامات وغیرہ شامل ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ہونے والی مون سون کی بارشوں نے پاکستان کے بہت سے بڑے شہروں کے بنیادی ڈھانچوں کی قلعی کھول دی۔
کراچی اس فہرست میں اول نمبر پر ہے جہاں بارشوں نے اس قدر تباہی مچائی کہ پورا شہر جیسے پانی میں ہی ڈوب گیا۔ برساتی نالے کچرے سے بھرے تھے اور برساتی پانی سڑکوں پر ندی کی طرح شور مچاتے بہتے چلے جا رہے تھے یہ برساتی ندیاں شہر کی ہر بڑی چھوٹی شاہراہ پر نظر آرہی تھیں۔ پھر سنا گیا کہ ایک ارب اور بیس کروڑ روپے کی رقم ان برساتی نالوں کی صفائی ستھرائی پر خرچ کی جائے گی جن کے باعث شہر میں منچلوں کو سڑکوں پر کشتی دوڑانے کا شوق ابھرا تھا۔
کیا کراچی میں ایک مضبوط انفرااسٹرکچرکی ضرورت ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے ستر سال بعد بھی اس قدیم شہرکے بنیادی ڈھانچوں کی مضبوطی اور پلاننگ کے بارے میں باتیں سننے کو ملتی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ماضی میں اس اہم مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شہر کے بڑے اور چھوٹے علاقے میں نکاسی آب کے ذرایع موجود ہیں یہاں تک کہ بیشتر علاقوں میں پچاس سال پرانا نظام اچھی طرح کام کر رہا ہے، البتہ اس کی صفائی ستھرائی اور توڑ پھوڑ کی مرمت ہوتی رہی ہے جب کہ نئے تعمیر ہونے والے وہ علاقے جن کو تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس معاملے میں قدیم علاقوں سے پیچھے ہیں۔
کیا اس کی وجہ نا تجربہ کار انجینئرز اور ورکرز ہیں یا کچھ اور ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسے رشوتی ٹھیکیداروں اور ماہرین نے تو بنا بارش کے بھی سڑکوں کو گندے تعفن زدہ پانیوں سے کالا کردیا تھا۔ بارشوں کے زمانے کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہی کچھ کم تھیں کہ ان پر بہتے گندے پانیوں نے صورتحال کو مزید دگر گوں کردیا تھا شکایات کبھی سیر توکبھی سوا سیر ہو جاتی ہیں، کبھی سرکاری نلکوں سے گندے پانیوں کا بہاؤ ہمارے اداروں کی پول کھولتا ہے۔
ویسے توکراچی میں تین سو سے زائد چھوٹے بڑے ناولوں کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن بڑے اڑتیس نالوں میں سے محض سات نالے ایسے ہیں کہ اگر ان پر پوری طرح سے توجہ دی گئی تو نکاسی آب کے نظام میں بہتری نظر آسکتی ہے پچھلے پچیس برسوں کے درمیان شہر کے بیشتر علاقوں میں بلند و بالا عمارات، اپارٹمنٹس اور فلیٹوں کے قیام نے جہاں آبادی کے گنجان ہونے میں ایک نئی صورتحال سے روشناس کرایا وہیں ان کے نکاسی آب کے نامناسب نظام نے ایک گنجلک سی کیفیت ان اداروں کے لیے پیدا کردی ہے جو مجبوراً اب اس پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
مثلاً وہ آہنی مضبوط ریلوے ٹریکس کہ جن پرکبھی سرکلر ٹرینیں دوڑا کرتی تھیں اب برساتی نالوں اور گندے نالوں کی صورت میں شہرکے نسبتاً پوش علاقوں میں رواں دواں ہیں یہاں تک کہ اگر ان نئے پروجیکٹس جن کی تاریخ پیدائش بیس سال بھی پرانی ہے تو ذرا ریسرچ کریں کہ ان میں سے کتنے سیوریج کے بلز ادا کرتے ہیں کیونکہ زیادہ تو یہ بلز جاتے ہی نہیں اور جائیں بھی کیسے کہ ان کا واسطہ ان اداروں سے نہیں، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہت سے مکین خود بھی یہ بلز ادا نہیں کرتے کہ ان کے خیال میں کیونکہ ان کے یہاں پانی نہیں آتا یا بورنگ کا پانی آتا ہے تو وہ ان بلز کی ادائیگی کیوں کریں۔
بہرحال اس وقت شہر کے نالوں کے حوالے سے ہی بات ہو رہی ہے۔ گلستان جوہر کراچی کا تیزی سے آبادی کی شرح کو بلند معیارکو چھوتا علاقہ ہے جہاں پچھلے مون سون کے موسم میں بارشوں کی ہنگامہ خیزیوں سے نہایت بری صورتحال پیش کی اور یوں کہ وہ ریلوے ٹریکس جو پہلے ہی نالوں کی صورت میں چل رہے تھے اس طوفانی بارش میں ابل کر قابو سے باہر ہوکر گھروں تک امڈ آئے یہاں تک کہ سرکاری اداروں نے ان ریلوے ٹریکس کو باقاعدہ نالوں کی تھری صورت دینے کی خاطر سیمنٹ کے بنے دیو ہیکل پائپ ڈھیر کردیے اور یوں دو سرکاری اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ ہوا جو یقینا ایک ناقص پلاننگ کے باعث پیدا ہوا تھا، کیا حکومت نے برسہا برس پہلے باقاعدہ ایک شہری پلاننگ کے ساتھ ریلوے ٹریکس سیوریج نالوں کے متبادل استعمال ہونے کی غرض سے بنائے تھے؟
جواب صاف ظاہر ہے کہ یہ برسہا برس پرانے ریلوے ٹریکس جو ان گندے نالوں تلے دفن ہیں یا انھیں اکھاڑ کر اونے پونے بیچ دیا گیا ہے بہرحال سیوریج کے استعمال کی غرض سے ہر گز نہیں بنائے گئے تھے۔ یہ تو ہو رہی ہے اندرون شہر کی بات۔ اب ذرا ان بڑے بڑے نالوں کی جانب نظر دوڑائیے تو گجر نالہ، اورنگی نالہ، ملیر اور لیاری ندی، منظور کالونی نالہ، نہر خیام کا نالہ ایسے ہیں کہ جن کی مناسب دیکھ بھال اور توجہ پانی کے نکاسی کو بہتر بناسکتی ہے۔
آج سے پہلے ہمیں ان نالوں کی صفائی، تجاوزات کا خیال صرف اس لیے نہیں آیا تھا کہ قدرت نے شاید سب کو یہ موقع فراہم کردیا تھا کہ کون اپنی اپنی ذمے داریاں کس انداز سے نبھاتا ہے اور شاید پچھلے ان تمام برسوں میں ہم سب اور ہمارے ادارے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے بیٹھے تھے، ایک کے بعد ایک گھر بن رہے تھے خرید و فروخت کا سلسلہ بھی جاری تھا مفت کی زمین کے دام تو ویسے بھی میٹھے ہی محسوس ہوتے ہیں یوں یہ سلسلہ اس قدر بڑھا کہ نالے تنگ ہوگئے اور قریب ہی تھا کہ ان پر تالے بھی لگ جاتے پر قدرت کو جوش آیا اور ہماری سرکار کو ہوش۔
وزیر اعظم عمران خان کے ایک بڑے کراچی پیکیج کے اعلان کے بعد برساتی نالوں پر قائم تجاوزات کو ہٹانے اور ان بارہ ہزار خاندانوں کی آبادکاری کے علاوہ یہ پہلا بڑا منصوبہ ہے جس کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور تین اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، کچی آبادی، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر اداروں نے اس بڑے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کا عندیہ دے دیا ہے، امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ ابھی این ای ڈی یونیورسٹی نے محمود آباد نالے سے متعلق ایک تفصیلی سروے اور اپنی اسٹڈی مکمل کی ہے جس کے مطابق محمود آباد نالے کے دونوں اطراف بارہ فٹ چوڑی روڈ، تین فٹ کی فٹ پاتھ ہوگی نالے کی تعمیر سے چھپن گھر متاثر ہوں گے اور ان مکانات کو نشان زد بھی کردیا گیا ہے جو اس نالے کی تعمیر میں گرائے جائیں گے۔
امید ہے کہ اس طرح منظور کالونی، محمود آباد کے نالے کی تعمیر سے مزید صورتحال اچھی ہوگی لیکن اس کے ساتھ پھر ماضی کی طرح سلوک کیا گیا تو شاید ہم پھر کبھی اپنے آپ کو کرپشن کے گرداب سے نکال نہیں پائیں گے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کے بہاؤ کے لیے ہر دور میں باقاعدہ پلاننگ کے تحت کام کیا جاتا ہے جو اس علاقے کی تعمیر و ترقی سے پہلے ہی مکمل کیا جاتا ہے کیونکہ اس پر اس کی مستقبل کی رپورٹ کی بنیاد رکھی جاتی ہے ورنہ ایسے علاقے آفت زدہ قرار دے کر اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔
سرجانی ٹاؤن کے ایسے بیشتر سیکٹرز پانی کے سیلاب میں مکینوں کے لیے عذاب بن گئے وہیں نیا ناظم آباد اور گلستان جوہر کے بہت سے بلاکس اپنی ناقص منصوبہ بندی کے باعث مہینوں خبروں کی نظر میں رہے۔ ہم پانی سر سے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں، مسائل کے انبار اسی لیے بڑھتے چلے جاتے ہیں کہ ہم ساری ذمے داری سرکار پر چھوڑکر خود ہاتھ جھاڑکر فلم دیکھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
یاد رکھیے آج کی مضبوط پلاننگ کل ہماری نسلوں کے لیے پرسکون ماحول مہیا کرے گی لیکن ہم آج صرف اپنی ذات تک محدود ہیں دوسرے ممالک کی ترقی اور بہترین انتظامات دیکھ کر صرف واہ واہ ہی کرتے ہیں لیکن ان کی طرح بننے کی کوشش نہیں کرتے، پچاس کی دہائی کے بنے پل اور سڑکیں آج بھی مضبوط ہیں جب کہ یہاں تو یہ حال ہے کہ مہینہ بھر بعد ہی مرمت شدہ سڑک پھر سے مرمت کے قابل رہ جاتی ہے ایک ادارہ سڑک ادھیڑتا ہے اور اپنی لائنیں ڈالتا ہے تو دوسرا گڑھے کھودتا ہے اور اپنے کام درست کرتا ہے پر سچ تو یہ ہے کہ فی الحال تو سارے ادارے صرف اپنا کام کر رہے ہیں اور اگر سارے ادارے مل کر کام کریں تو شاید کچھ بات بنتی نظر آئے اور ہم تو ہیں۔۔۔۔۔۔ امید بہار رکھنے والے۔