رمضان المبارک کی شروعات میں ہی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی مختلف پوسٹ گردش کر رہی ہیں مثلاً رمضان مبارک مختلف رنگوں اور روشنیوں کے ساتھ چمکتا دمکتا، کہیں پھولوں سے سجا، مقدس مقامات کی تصاویر، احادیث نبوی اور حکایات، زندگی گزارنے کے اسلامی طریقے، زندگی کامیاب گزارنے کے مجرب نسخے، افطارکی تراکیب، روزے میں پیاس سے بچنے کے ٹوٹکے اور بہت کچھ۔ ایسے میں زکوٰۃ وصول کرنے والے مختلف اداروں، مدارس، اسپتال، خیراتی مراکز، ٹرسٹ اور بہت سارے وہ ادارے بھی جو سال بھر نجانے کہاں ہوتے ہیں اور بس ان مقدس مہینوں میں اچھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے کہ اس سے بندے کا مال پاک ہو جاتا ہے اور دیگر الفاظ میں آپ کے مال کی سیکیورٹی ہو جاتی ہے، یہ بہت خوبصورت اور منفرد نظام ہے جو خوش قسمتی سے رب العزت کی جانب سے ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ ہم اس کی ادائیگی کو فرض سمجھتے ہیں لیکن اس بھرپور تیزی سے دوڑتی بھاگتی زندگی میں چیزیں اس حد تک تبدیل ہو چکی ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ زکوٰۃ کے حقدار کون ہیں۔ اس سلسلے میں اب اس قدر دشواریاں بھی ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔
اس بار سوچا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کچھ ضروریات زندگی کا سامان خریدا جائے اور قریب کی کچھ بستیوں میں لوگوں میں تقسیم کیا جائے سو کافی سارا سامان خریدا اور کچھ دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچے جہاں بہت سی کچی پکی جھونپڑیوں میں لوگوں کو دیکھا خواتین، مرد، بچے، نوجوان غرض ہر عمر کے انھوں نے جو سامان کو دیکھا تو پل پڑنے کو بڑھے۔ اپنی سوچ کے مطابق صاحب نے اپنی محبت میں ایک اثرانگیز تقریرکی اور پیشکش کی کہ ہم فوری طور پر آپ کو نوکری دینے پر آمادہ ہیں۔
لہٰذا جن حضرات کو مالی، ڈرائیور اور خواتین کو کام کرنے کی نوکری چاہیے تو ابھی حاضر ہے لیکن دوسرے شہروں سے آئے یہ پردیسی بہانے تراشنے لگے، خواتین کا کہنا تھا کہ انھیں کام کرنے کی اجازت نہیں تو نوجوان پانی بھرنے کے بہانے بنانے لگے مرد حضرات بیماری کا عذر پیش کرنے لگے یوں وہ سب صحت مند فارغ حضرات صرف مفت کے سامان بٹورنے کے منتظر تھے۔ ایسے میں کیا ان پر زکوٰۃ لینا فرض ہے؟
یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بھر میں اور خاص کر کراچی میں ایسے خاندانوں کی بھرمار ہے جو سارا دن سر کھجاتے، سگریٹ کے مرغولے اڑاتے، خواتین، بچوں کے کپڑے دھوتی، جوئیں چنتی اور لڑائی جھگڑوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ انھیں نوکری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی زندگی تو بڑے مزے میں بسر ہو رہی ہے۔ دوسری جانب وہ حضرات جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں چہرے سے کمزور، حالات کے مارے، اولاد کا بوجھ اٹھائے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور انھیں روپے پیسے سے مدد کی پیشکش کی جاتی ہے تو وہ بہت شرم سے کہتے ہیں نہیں سر! ہمیں آپ ملازمت دلوا دیں، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
ایسے بہت سے ادارے ملک بھر میں اور خاص کرکراچی میں سرگرم عمل ہیں جو یقینا بہت خلوص کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کے دستر خوان ایسے بھرپور ہوتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں ایک اوسط تنخواہ والا سوچ بھی نہ سکے، اسی طرح سحری اور افطارکی بھرپور دعوتیں کہ انسان کا دل للچا جائے ایسے بھاری بھرکم دسترخوان والے جو لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، خدمات لٹاتے رہے اور پھر ہر پل کے نیچے سڑک کے کسی چوک پر ان کے اشتہارات زکوٰۃ وصولی کے نظر آئے تو کچھ عجیب نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس طرح اپنے اندر سہل پسند افراد کی تعداد میں اضافہ تو نہیں کر رہے کہ یہاں سب کچھ ملتا ہے اور جھولی بھر بھر کے ملتا ہے کھانے پینے کی تو فکر ہی نہیں کہ ترس کھانے والوں کی کمی نہیں ہے۔
وہیں سوال ہماری اپنی ذمے داری پر بھی اٹھتے ہیں جیسے ابھی ذکر کیا تھا ایک صاحب کا جو درد مند دل لیے غریبوں کی مدد کے لیے کچی بستی پہنچے تو وہاں کا احوال دیکھ کر ہی وہ چکرا گئے کیونکہ ریٹائرمنٹ کے باوجود وہ کاروبار زندگی میں الجھے ہیں یہاں تک کہ ان کی اپنی اولاد اور بہوئیں بھی ملازمت کر رہی ہیں پھر وہ غریب خاندان محنت سے کیوں کترا رہے ہیں؟
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب امریکا کی ایک ریاست میں ایک مخیر شخص نے مفت کھانے کا اسٹال لگایا ضرورت مند آئے بھی لیکن ابھی خبر زیادہ نہ پھیلی تھی کہ علاقے کی پولیس پہنچ گئی اور مخیر شخص کو اس دریا دلی کو بہانے سے روک دیا۔ اب اس میں گوروں کو کیا علت تھی کیا وہاں غریبوں کو یوں کھلے عام کھلانے پر پابندی ہے، کیا وہاں فلاحی تنظیموں پر روک ہے یا کچھ اور؟ بہرحال اتنا تو علم ہے ہی کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو، اس میں کوئی تو حکمت ہے اور یہ خوبصورتی مذہب اسلام میں ہے۔
1926 میں علامہ راشد الخیری نے اپنے رسالے "عصمت" میں جو اس دور میں مسلم خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت مشہور تھا اور اس نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام بھی کیا، اپنے ایک مضمون میں اپنی عزیزہ اور ڈپٹی نذیر احمد کی نواسی اور مولوی اشرف حسین مرحوم کی بیوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جن کی تربیت اور پرورش کا زمانہ 1857 کی جنگ آزادی کے آٹھ دس برس بعد کا ہے گو یہ مضمون تو "لڑکیوں کی تربیت" کے عنوان سے ہے لیکن خدا ترسی کے حوالے سے یہ بہت خوبصورت ہے کہ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک راز تھا جو علامہ صاحب نے لڑکیوں کی تربیت کے حوالے سے فاش کیا، لکھتے ہیں:
"ان کی فراخ ہوصلگی کا ایک واقعہ جو آج تک راز تھا اور میرے علم میں ہے بیان کرتا ہوں۔ ایک عزیز کی بیوی بیمار ہوئی اور علاج میں اس قدر روپیہ صرف ہو گیا کہ ان کو قرض لینے کی ضرورت ہوئی۔ بے چارے نے پچاس روپے ایک عزیز سے جو اب تک زندہ ہیں قرض مانگے مگر نہ ملے۔ بیگم صاحب کو بھی خبر ہوئی ان کو دیکھنے گئیں اور چلتے وقت نہایت خاموشی سے پچاس روپے کا نوٹ ان کی جیب میں ڈال دیا۔ میں اس وقت وہاں موجود تھا اور میں نے دیکھ لیا لیکن حاجت مند کو پتا نہ چلا۔ انھوں نے مجھ سے ذکر بھی کیا مگر میں خاموش رہا۔
پچھلے برس رمضان المبارک کووڈ19 کے چکر میں گزرے ہیں اس طرح کے ضرورت مند جن کا ذکر کیا جاچکا تھا روز قطاروں میں لگ جاتے اور رکشے بھر بھر کے سامان لے کر جاتے اور عام دکانداروں کو فروخت کردیتے۔ یہ وہ ضرورت مند نہیں تھے بلکہ ان خورونوش کی اشیا کے بیوپاری تھے اور اصل ضرورت مند قرض لے لے کر گزارا کرتے۔ اس ایک سال کے عرصے میں کتنے بے روزگار ہوئے کتنے قرض دار ہوئے کون جانے جب کہ پروفیشنل ضرورت مند غریبوں اور ضرورت مندوں کے کوٹے کو پُر کرتے رہے۔
ہم حقیقی اور پروفیشنل ضرورت مند کسی کے بھی خلاف نہیں ہیں لیکن ذرا اپنے ذہنوں پر زور ڈالیے تو یاد آ ہی جائے گا کوئی صدیوں پرانی بات نہیں ہے جب ہمارے پیارے قائد اعظم محمد علی جناح سخت علالت میں بھی شب و روز کام کرتے اور آپ کا کہنا تھا کام، کام اور صرف کام۔ تو پھر ہماری قوم میں یہ کاہلی کا گھن کیسے لگ رہا ہے؟ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے کی نہیں بلکہ ہاتھ چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ محنت میں ہی عظمت ہے۔ اس کی اہمیت جانیے، دیتے ہوئے بھی اور لیتے ہوئے بھی۔