سوچا تھا اس بار لاہور جانا ہوا تو ماضی کی مشہور فلمی اداکارہ نیلو سے ضرور ایک انٹرویوکیا جائے۔ ماضی میں پاکستانی فلم انڈسٹری نے جس ترقی کے منازل طے کیے تھے، نیلو بیگم نے اس وقت اسے خاصا قریب سے دیکھا کیونکہ وہ خود اس منزل کی مسافر تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب فنکار جی جان سے کام کرتے اور ہدایت کار اپنے آرٹسٹوں کو اس طرح سے ٹریٹ کرتے جیسے کسی دیہات کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر پرائمری جماعت کے بچوں سے کرتے ہیں۔ انتہائی سخت اور بہت نرم بھی، یہ دھوپ چھاؤں کا سفر چلتے چلتے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایسی جگہ لے کر آگیا تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری گو ہمیشہ سے ہی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے مقابلے میں بڑی رہی ہے لیکن مقابلے کی بات ہو جاتی تھی اسی کی دہائی کے بعد نوے کی دہائی سے پاکستانی فلم انڈسٹری تنزلی کی سیڑھیاں اترتی گئی۔
ایک ملاقات میں ماضی کی بڑی اداکارہ روزینہ نے بتایا تھا کہ ہم تمام فنکار سخت محنت کرتے تھے، یہاں تک کہ سیٹ پر ہی کئی کئی روز ریہرسلز میں لگ جاتے تب کہیں جا کر ایک مہارت نظر آتی، بات ہو فلم انڈسٹری کی اور نیلو کا نام نہ آئے یہ ممکن نہیں کیونکہ ان کی ذات سے جڑے تمام ہیرے فلم انڈسٹری میں اب بھی چمک رہے ہیں۔ ریاض شاہد کے نام سے کون واقف نہیں ایک ماہر لکھاری اور فلم ڈائریکٹرکہ جن کے قلم کی کاٹ اور پردہ سیمیں پر ان کے شاہکار چلتی پھرتی حقیقت محسوس ہوتے، ریاض شاہد ایک بڑے متمول خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
سچ کہنے کا فن انھیں قلم اور فلم تک لے آیا اور یہ حق انھوں نے اپنی زندگی کے آخری وقتوں میں بھی نبھایا۔" نیلوکا تعلق ایک ترقی پسند گھرانے سے تھا، اداکاری اور رقص کا انھیں بہت شوق تھا، وہ غیر منقسم ہندوستان، پنجاب کے علاقے بھیرہ (ضلع سرگودھا) میں پیدا ہوئی تھیں، یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں فلمی صنعت کو قدم رکھے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا۔ ایک نئے تفریحی میڈیا کو برصغیر کے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا وہیں نوجوان دلوں میں فلمی صنعت میں اپنے فن کو سلور اسکرین پر جلوہ گر کرنے کا شوق پیدا ہوا یہ اس دور کی عام بات تھی جب لڑکے دلیپ کمار اور لڑکیاں ثریا بننے کی خواہش کرتیں، غالباً 1955 میں لاہورکی نوخیز فلم انڈسٹری میں ایک تہلکہ سا مچ گیا، جب ہالی وڈ سے ایک فلم کے سلسلے میں بڑی فلم کمپنی کی پاکستان آمد ہوئی یہ فلم ایک قدیم بڑی کمپنی ایم جی ایم کے تحت بنی۔
پرانی فلموں خاص کر بلیک اینڈ وائٹ کے شروع میں ببر شیرکا مخصوص دھاڑنا اس کی علامت تھا، اس فلم کا نام تھا "بھوانی جنکشن" جو غالباً غیر منقسم برصغیرکی کہانی تھی، اس کی کچھ شوٹنگ پاکستان اورکچھ بھارت میں بھی ہوئی تھی۔ اس کے ستاروں میں ایک بڑا نام اداکارہ ایوا گارڈنر کا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے لیے کو اسٹارز کی بہت ضرورت تھی جس کے لیے بڑے انتخابات ہوئے نوجوان لڑکے لڑکیاں بے تاب تھے کہ انھیں ہالی وڈ کی اس فلم میں انٹری ملے۔ انھی نوجوان چہروں میں ایک چہرہ نیلوکا بھی تھا، اس فلم میں ایک جھلک دکھلانے کے لیے نوجوان فنکار بے تاب تھے۔
کہا جاتا ہے بھوانی جنکشن میں نیلو کے علاوہ کچھ اور بھی نوجوان فنکاروں کو منتخب کیا گیا تھا جس میں مرحوم ساقی کا بھی نام آتا ہے۔ نیلو اس وقت خاصی کم عمر تھیں اور ان پر ہالی وڈ کی فلم کا ٹھپہ بھی لگ چکا تھا لیکن پھر بھی ان کے فلموں کے سفرکی کہانی میں بے شمار رکاوٹیں تھیں۔ کیونکہ اس وقت منجھی ہوئی اداکارائیں انڈسٹری میں کام کر رہی تھیں جن میں صبیحہ خانم، سورن لتا، نور جہاں اور مسرت نذیر شامل تھیں۔ بھوانی جنکشن 1956 میں ریلیز ہوئی تھی۔
اس فلم میں گو نیلو کا کردار بھی بہت سے دوسرے پاکستانی اداکاروں کی طرح مختصر سا تھا لیکن فلم نگری میں ان کو پہچانا جانے لگا اور یہی وجہ تھی جب مشہور زمانہ فلم سات لاکھ بنی تو اس میں انھیں بھی چانس ملا اس زمانے میں آج کل کی طرح آئٹم سانگ تو نہیں چلتے تھے لیکن "آئے موسم رنگیلے سہانے" جیسے رشید عطرے کی خوبصورت موسیقی نے اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔
شایقین نے ایک معصوم کچھ شوخ سی لڑکی کو جھوم جھوم کرگاتے دیکھا، سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کی دوپٹہ اسٹار کی موجودگی میں انھیں آئٹم گرل کے طور پر محسوس کرلیا گیا۔ فلم "سات لاکھ" جہاں اپنی منفرد کہانی کے باعث مقبول ہوئی وہیں اس سپرہٹ گانے نے نیلو کو فلمی صنعت میں ایک شناخت دی آج بھی یہ گانا کھویا نہیں۔ بلکہ لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ سات لاکھ 1957 میں ریلیز ہوئی۔
پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم "سنگم" تھی جو غالباً 1964 میں ریلیز ہوئی تھی لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری میں ابتدا سے ہی فلم ساز اور ہدایت کار ان کوششوں میں لگے تھے کہ پاکستان میں رنگین فلم بنے۔ گو اس وقت نامساعد حالات اور سرمائے کی عدم دستیابی کے باعث یہ خاصا مشکل نظر آتا تھا کیونکہ اس وقت ہندوستان میں بھی رنگین فلموں کے پرنٹ برطانیہ میں دھلا کرتے تھے، ایسے میں پہلی بار ایک نوجوان فلم ڈائریکٹر ایم ایس اعجاز نے پنجابی زبان میں ایک فلم بنائی۔"جگنی" کے کچھ گانے رنگین تھے۔
اس فلم میں نیلو کو مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا گیا ان کے ہمراہ یوسف خان تھے ان کے علاوہ کمال ایرانی، نذر، الیاس کاشمیری اور اسمٰعیل وغیرہ شامل تھے۔ یہ فلم 1959 میں ریلیز ہوئی اور یوں نیلو ہیروئن کے طور پر فلم انڈسٹری میں قدم جماتی آگے بڑھتی رہیں ایک کے بعد ایک فلم ان کے حصے میں آتی رہی نیلو کو اگر اس زمانے کی بابرہ شریف کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ خوبصورت چہرہ، شوخی و شرارت کے ساتھ وہ کم عمر ہیرو رتن کمار کے ساتھ بھی جلوہ گر ہوئیں۔
نیلو کو پہلا ایوارڈ 1959 میں فلم "کوئل" پر ملا جس میں انھوں نے بہترین معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔ ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال نے فلم انڈسٹری کو بھی خاصا متاثر کیا۔ 60 کی دہائی میں نوجوان خوبصورت رائٹر ریاض شاہد کو نیلو سے محبت ہوگئی، دونوں نے ساتھ رہنے کے عہد و پیماں کیے۔ اس حوصلہ مند خاتون نے آخری وقت تک اپنے خاندان کو جوڑے رکھا۔ ایک باوفا بیوی، بہادر حوصلہ مند ماں اور اچھی اداکارہ کے طور پر زمانہ نیلو بیگم کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
ریاض شاہد سے شادی کے بعد نیلو نے معرکۃالآرا فلموں میں کام کیا جن میں "زرقا" سرفہرست ہے جو 1969 میں ریلیز ہوئی۔ اس کا ایک مشہور نغمہ "رقص زنجیر پہن کر" حبیب جالب نے لکھا تھا جو دراصل ان کی حقیقی محبت کی کہانی اور کار جبر سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا۔ ریاض شاہد کا انتقال کم عمری میں ہی ہو گیا ان کے بعد نیلو کی زندگی میں ابھی ایک اور صحرا عبور کرنا باقی تھا یوں انھوں نے اپنے تین چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر پھر فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور کئی بہترین فلمیں دیں۔
سنا ہے کہ ابتدا میں ہی ان کے بھائی انور بھی اداکاری کے شوق میں ان کے ساتھ آئے تھے لیکن خاص کامیاب نہ ہوئے۔ بعد میں انھوں نے پی آئی اے جوائن کرلی، البتہ نیلو اور ریاض شاہد کے بچوں میں سے شان خاصے کامیاب رہے۔ فلم انڈسٹری کا ایک عہد تیس جنوری 2021 کو عابدہ ریاض عرف نیلو بیگم انتقال کے ساتھ ختم ہو گیا-