پچیس ستمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں جونیئر اسکول ٹیچرزکی بھرتیوں کے آئی بی اے سکھر نے ٹیسٹ کے نتائج جاری کیے، جن کے مطابق سندھ بھر سے ایک فیصد امیدوار بھی ٹیسٹ پاس نہ کرسکے۔ صرف 0.78 فیصد امیدوار ہی یہ ٹیسٹ پاس کرسکے۔
صوبے بھر سے اس ٹیسٹ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار امیدواروں نے شرکت کی تھی۔ سنا یہ بھی تھا کہ جو لوگ ٹیسٹ میں پاس ہوئے ہیں ان کا انٹرویو نہیں ہوگا بلکہ جاب آفر کی جائے گی جب کہ 2 اکتوبر کی ایک اخباری خبر کے مطابق آئی بی اے سکھر نے سندھ میں پرائمری اسکول ٹیچرزکی بھرتی کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کا اعلان کردیا جس میں ایک لاکھ 83 امیدواروں نے شرکت کی اور گیارہ ہزار امیدوار پاس ہوئے یوں کامیابی کا تناسب 6.5 فی صد رہا۔ اب خبر کے مصدقہ اور غیر مصدقہ کے جھنجھٹ میں نہ ہی پڑیں تو بہتر ہے، لیکن آج تک ہمارے یہاں بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کا کیا معیار ہے یہ بات سب سے اہم ہے۔
اس لیے کہ پرائمری جماعت وہ ہے جہاں سے کسی بھی بچے کے ذہن کی تختی پر لکھنے اور پڑھنے کے عمل کو شروع کیا جاتا ہے اور اگر ابتدا میں اس تختی پر اچھے حروف پکی سیاہی سے لکھے جائیں تو یہ ناپختگی سے پختگی تک کی عمر میں ان کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں لیکن افسوس ہمارے یہاں اس قدر اہم جماعتوں کے طلبا و طالبات کو غیر شعوری طور پر محض بچہ ہی سمجھا جاتا ہے مستقبل کا معمار نہیں۔
وہ امریکا کے ایک اسکول میں چھوٹے بچوں کو پڑھاتی ہیں لیکن دل سے پاکستانی اور مسلمان ہیں۔ تعلیم و تدریس کے شعبے کے ساتھ لکھنے لکھانے سے بھی خاصا شغف رکھتی ہیں۔ امریکا سے ہی نکلنے والے ایک اردو روزنامے میں ان کے کالمز گاہے بگاہے چھپتے رہتے ہیں۔
امریکا میں مسلمان بچوں کے حوالے سے خاص کر رمضان کے مبارک مہینے کے لیے انھوں نے انگریزی زبان میں سادہ الفاظ میں ایک کتاب لکھی جو وہاں خاصی مقبول ہوئی۔ مسلمان بچوں کے روزے اور اس سے متعلق ہلکے پھلکے دلچسپ انداز میں آگاہی کی یہ باتصویر کہانی (Natasha Prepares for Ramzan) "نتاشا کی رمضان کی تیاریاں)۔ چھوٹے بچوں کے لیے بہت خوبصورت اور اہم تحفہ ہے۔ تسنیم ثنا خان کا کہنا ہے کہ جس وقت وہ بی ایس کے ملٹی پل سبجیکٹ کریڈینشل کی کلاسز لے رہی تھیں تو ان کی پروفیسر وہ خاتون تھیں جو تیس سالوں سے پہلی کلاس کے بچوں کو اے بی سی ڈی پڑھا رہی تھیں اور اب بھی پڑھا رہی ہیں۔ ان کی قابلیت پی ایچ ڈی تھی اور ان کی نظر میں بچوں کو حروف سکھانے سے زیادہ معتبر کام کوئی نہیں تھا، میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے کبھی نہیں سوچا تھا کہ پرائمری اسکول کا ٹیچر پی ایچ ڈی ہوگا اور بی ایڈ کی کلاسز پڑھاتا ہوگا۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ امریکا میں عام طور پر پرائمری اسکولز کے اساتذہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ہوتے ہیں وہاں نظام اس قدر سخت ہے کہ ٹیچر کا لائسنس لینے کے لیے محض دو سیمسٹرز کی پڑھائی سے ماسٹرز مکمل ہو جاتا ہے اس کے بعد اسکول ڈسٹرکٹ اتنی مراعات دیتے ہیں کہ ٹیچرز پی ایچ ڈی کے لیے بھی داخلہ لے لیتے ہیں۔ امریکا میں پرائمری (ایلمنٹری) اسکول کا ٹیچر بننے کی کیا قابلیت ہے؟ اس گفتگو کو وسیع کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے حساب سے انٹر کے بعد چار سال کی یونی ورسٹی لینا ہوتی ہے جس میں تقریباً 130-120 کے درمیان یونٹس ہوتے ہیں اور ریاضی، الجبرا، بائیو، فلاسفی، آرٹ اور ہسٹری سے لے کر دنیا کا ہر مضمون ان چار برسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
بی ایس مکمل کرنے کے بعد یونی ورسٹی سے ہی کریڈینشل (Credential) کا کورس کروایا جاتا ہے اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد CBEST کا امتحان لیا جاتا ہے جس میں انگریزی اور ریاضی کے سمجھنے جیسے کریٹیکل تھنکنگ (Critical Thinking) کے امتحانات ہوتے ہیں اس کے بعد سی سیٹ کا امتحان لیا جاتا ہے جس میں کم ازکم تین مضامین کا اعلیٰ امتحان ہوتا ہے یہ ایک مشکل امتحان ہے جس میں تین مضامین کا ملغوبہ سا بنا کر امیدوار کی قابلیت کو جانچا جاتا ہے جس میں پڑھنے (حروف) کا امتحان ہوتا ہے۔
ہر نظام کے مختلف قوائد ہیں تو اس لحاظ سے فنگر پرنٹس اور طبی امتحان کے بعد کسی بھی پرائمری (ایلیمنٹری) اسکول میں اے بی سی ڈی پڑھانے کی نوکری ملتی ہے۔ اتنی زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر اساتذہ پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کے بعد مزے سے پرائمری اسکول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
بچوں کے مسائل یہ ماہرین پلان بناتے ہیں، تعلیم کے حوالے سے تسنیم ابھی تک اپنے آپ میں تشنگی محسوس کرتی ہیں گو ان کا اپنا تعلیمی سفر اور تدریسی سفر خاصا طویل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں جس قسم کے معیار اختیار کرلیے گئے ہیں انھیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ کئی اسکولوں میں بچوں کے بجائے گدھے اور خچر بندھے ہیں، گاؤں میں اسکول اصطبل اور نشئی افراد کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
رہی سہی کسر ٹیوشن سینٹرز اور جلد ازجلد پیسہ کمانے والے نوخیز لوگوں نے بھی اس معزز شعبے کو کاروبار بنا لیا ہے۔ ٹیوشن کے معاملے میں امریکی ماہر تعلیم تسنیم ثنا خان کا کہنا ہے کہ امریکا میں بیشتر اساتذہ مفت میں ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور اگر ان کی جماعت کا کوئی ایک بھی بچہ کمزور ہو یا فیل ہو تو بہت شرمندگی محسوس کرتے ہیں شاید یہی احساس انھیں مفت ٹیوشن پڑھانے کی جانب مائل کرتا ہے۔
جونیئر ٹیچرز کی بھرتیوں کے ٹیسٹ کو چھ ڈویژن میں منعقد کیا گیا تھا جن میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، شہید بے نظیر آباد، میرپور خاص اور لاڑکانہ شامل تھا۔ اس ٹیسٹ میں شامل ایک خاتون جن کی میٹرک سے لے کر یونی ورسٹی لیول تک اعلیٰ تعلیمی قابلیت ہے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری رکھنے والی امیدوار کے مطابق ٹیسٹ میں فزکس اور حساب کے کچھ سوالات مشکل تھے جس پر کراچی سینٹر پر کچھ امیدواروں نے احتجاج بھی کیا لیکن ان کے انھی مضامین میں اچھے نمبر آئے کیونکہ وہ حساب اور فزکس میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
تعلیمی قابلیت اور اہلیت کے ساتھ نظم و ضبط بھی ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے معیار میں شامل ہے کیونکہ وہ کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں جو قوم کے معماروں کو اقبال کے شاہین بننے کی تیاری کرواتے ہیں اگر ہمیں ترقی کے سفر کی جانب گامزن رہنا ہے تو ہمیں میرٹ کو دیکھ کر ہی قوم کے معماروں کے اساتذہ کو منتخب کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل انگریز اس اہم ذمے داری کے لیے تعلیمی قابلیت اور اہلیت کے ساتھ خاندانی پس منظر بھی دیکھتا تھا۔