بھارت میں راجستھان دوسرے علاقوں کے مقابلے میں خاصا پسماندہ ہے جہاں انٹرنیٹ کی رسائی ممکن نہیں ہے، کوروناکی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں تعلیمی ادارے دوسرے اداروں کی مانند تالابندی کا شکار زیادہ رہے ہیں کیونکہ ایک بڑی آبادی تعلیمی اداروں میں خاصا طویل وقت ایک ساتھ گزارتی ہے۔
کمسن بچوں سے لے کر جوانوں تک اور پڑھانے پر مامور اساتذہ اور دیگر عملہ الگ اس وبائی مرض کے نرغے میں نظر آتا ہے لہٰذا دیگر اداروں سے زیادہ کورونا کا شکار تعلیم اور اس سے منسلک افراد ہوئے ہیں اسی دوران آن لائن کا تصور اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ اجاگر ہوا۔ لیکن راجستھان میں انٹرنیٹ کی رسائی مشکل اور غربت کے باعث اس سے منسلک آلات بھی دسترس سے خاصے دور ہیں ڈیڑھ برس سے بند اسکولز کے باعث تعلیم کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
لہٰذا بھارتی حکومت نے تعلیم کے اس مسئلے کے حل کے لیے اساتذہ کو اسکول جانے اور جماعتیں پڑھانے کا پابند کیا ہے اس کے لیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سخت گرمی میں اونٹوں پر سوار اپنے اسکول کے لیے نکلتے ہیں، حکومت کے اس اقدام کو راجستھان کے لوگ اچھی نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ڈیڑھ برس سے بند اسکولز نئی نسل کے لیے تعلیم سے غیر دلچسپی کے عناصر ابھار رہے ہیں وہیں کورونا کی وبا سے خوف والدین کو ہراساں کر رہا ہے لیکن دنیا بھر میں کورونا کے کم ہوتے کینسر اور پابندیوں میں نرمی نے حکومت کو اس امر پر مجبور کیا۔
بھارت میں سرکاری اسکولوں کا حال ہمارے ہاں کے سرکاری اسکولوں کے جیسا ہی ہے اس انیس بیس کے فرق میں بہت کچھ آجاتا ہے وہیں ہمارے ہاں گھوسٹ اسکولز، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طلبا کا رجحان بھی نظر آنے لگا ہے ابھی حال ہی میں کراچی میں ایک ایسے ہی گھوسٹ طلبا کا اسکول سوشل میڈیا پر نظر آیا جہاں چار بچے اور بارہ اساتذہ دیکھے گئے گویا ایک بچے پر تین استاد مامور ہیں، ان بارہ اساتذہ کی لاکھوں روپے کی تنخواہیں، بجلی، پانی، گیس کے بل الگ، اسکول کی زبوں حالی پر تو ویسے بھی کسی کا دل نہیں پگھلتا، لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ وہ چار بچے اس ویران اسکول میں اب تک پڑھ کیسے رہے ہیں، یہ سوال تو ان بچوں سے پوچھ کر ہی مطمئن ہوا جاسکتا ہے، لیکن بارہ سرکاری اساتذہ کی سرکاری تنخواہیں یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
کراچی میں ہی ایسے گھوسٹ بچوں کے اسکولز اچھے خاصے ہیں جب کہ اندرون سندھ میں گھوسٹ سرکاری اداروں کے بہت سے خانوں میں سمائے ہوئے ہیں البتہ تعلیمی اداروں میں آدھے دن کی مزدوری کے حوالے سے یہ آنکھیں خیرہ کرتی ہے۔
یہ اسکول یہاں کافی سالوں سے قائم ہے اس وقت یہ تھا کہ اگر آپ کے علاقے میں سرکاری اسکول نہیں ہے تو آپ درخواست دے کر کھلوا سکتے ہیں تو یہاں ایسا ہی ہوا، ایک صاحب خاصے متحرک تھے حالانکہ یہاں اس وقت کم گھر تھے نزدیک کے بلاکس میں بھی سرکاری اسکول ہیں لیکن ان صاحب نے درخواست دی اور تمام گلی کے لوگوں کے گھر جا جا کر دستخط کروائے اس طرح درخواست منظور ہوگئی اور یہ اسکول بن گیا اس کے بننے سے پوری گلی بند ہوگئی، پچھلی گلی والوں نے درخواست دی تو اس جانب اسکول کا گیٹ بند کردیا گیا، یہ دراصل پہلے پارک کی جگہ تھی اگر اسے دیکھیں تو یہاں اسکول کے بجائے پارک زیادہ بہتر رہتا اسے دیکھیں تو اس میں خاصے نقائص ہیں پیچھے اور ارد گرد دیکھیں صاف پتہ چلتا ہے بہرحال اسکول میں بچوں کی تعداد پہلے کچھ تھی بھی، پر اب اس پرائمری اسکول میں بچوں کی تعداد کم اور تدریسی عملے کی اور دیگر کی زیادہ ہے۔
اردگرد کے علاقے کے بچے پرائیویٹ اسکولز میں پڑھتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سی این جی اوز کے اسکولز بھی یہاں نزدیک ہی سب سے زیادہ ہیں ایسے میں اس سرکاری اسکول کی اہمیت اور بھی کم ہوتی ہے۔ ایک مشہور اسکول بھی قریب ہے ایک مزے کی بات یہ ہے کہ وہ صاحب جنھوں نے درخواست لے کر گھر گھر سے دستخط کروائے تھے، ان کی اہلیہ ہی اس اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ان صاحب نے اپنی اہلیہ کو ہیڈ مسٹریس بنوانے کے لیے یہ ساری محنت کی تھی۔
صرف سرکاری اسکول ہی نہیں بلکہ سرکاری کالجز کی حالت بھی کچھ اسی قسم کی ہے اوپر سے لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں آن لائن کلاسز نے بہت سے دھکا مار کر چلانے والوں کو خاصا ہڈ حرام کردیا ہے اور وہ اس نئی علت پر خاصے گرم ہیں۔ ہمارے یہاں سرکاری اسکولوں کی خراب صورتحال کے ذمے دار ہم سب ہیں جو ہو رہا ہے اسے ہونے دیں تو اسی طرح ہوتا رہے گا اور ہوتا چلا آیا ہے۔ باہر کے خیراتی اداروں نے تری کھا کھا کر تعلیمی اداروں پر جس طرح کی کرم نوازیاں کی ہیں اس نے ان اداروں کی افادیت کو غیر موثر بنادیا ہے۔
1970 سے پہلے تعلیمی اداروں کی صورتحال بہت مختلف تھی، اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز میں پڑھانے والے اور پڑھنے والوں میں تعلیم کی محبت و تقدس کا رشتہ سب سے مضبوط تھا لیکن وقت کے بہتے دھارے نے بہت سی چیزوں کو اس قیمتی رشتے سے محروم کردیا آج نوجوان اس انجام سے بے خبر کہ جس کاغذ کی ڈگری کو وہ بڑے اعزاز سے تھام رہے ہیں کیا وہ اس کے اہل بھی ہیں یا نہیں؟
آج ایم ایس سی، ایم اے اور دیگر بڑی ڈگریاں جو کسی زمانے میں اس قدر متبرک تھیں کہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ فلاں بی اے، فلاں ایم اے لگایا کرتے تھے لیکن آج ایم اے کی ڈگریاں رکھنے والے کو شاید اپنے نام کے معنی تک نہ معلوم ہوں بہت سے تعلیمی ادارے آج بھی ایسے ہیں جنھوں نے اپنے معیار تعلیم کو برقرار رکھا ہوا ہے اس میں غیر سرکاری ادارے زیادہ ہیں جب کہ سرکاری ادارے بمشکل ایک یا دو فیصد کے قریب ہیں گو عالمی معیار پر کبھی ان کا مقام خاصا بلند تھا لیکن تعلیم کے معیار اور اہمیت کو درگزر کرکے بہت سے مادی عوامل کو سامنے رکھ کر استاد جیسے اہم پیشے کو جس طرح رسوا کیا جا رہا ہے اس کی مثال ہمارے ہی ملک میں ملتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں تعلیم جیسی اہم ضرورت کو خالصتاً نوکری سے جوڑ کر کھلواڑ کیا گیا ہے۔
کمانے کے لیے اور بھی پیشے ہیں لیکن عالمی خیراتی اداروں نے ہمارے ہاں اس پیشے کو لالچ اور ہوس کا ایک پیمانہ بنا دیا جسے حاصل کرنے کے لیے اسی طرح رشوت ستانی کا بازار گرم رہتا ہے، اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے ویران، اصطبل اور چرسی جواریوں کی آماجگاہ نظر آتے ہیں، علاقہ کوئی بھی ہو تعلیمی اداروں کو کمائی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، نقل اور اس سے منسلک عناصر امتحانات میں سرگرم نظر آتے ہیں کہ ہزاروں اور لاکھوں کے بینک کھل جاتے ہیں پھر کیا پانی پلانے والا اور کیا چپراسی سب کی جیبیں گرم۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جو کچھ کرچکے، دیکھ چکے اور برت چکے ہیں آنے والی نسلوں کے لیے اس بدقسمت سبق کو دہرانے کی ضرورت نہیں ایک نیا دستور بنائیے ایک نیا قانون بنائیے کہ پڑھنے والے پڑھانے والے اور پڑھائی جانے والی جگہ کا تقدس لوٹ آئے، نجی اداروں اور سرکاری اداروں کی تنخواہوں کے گراف پر بھی غور کیا جائے تاکہ سرکاری اداروں میں لالچ کا عنصر چھٹ جائے تو شاید کہیں سے چھپی تعلیم کی محبت اپنا جلوہ دکھائے کہ ہم تو بس اسی امید پر ہیں۔