اس کی عمر اندازاً بائیس تئیس برس ہوگی، اچھا بھلا صحت مند نظر آرہا تھا لیکن ہاتھوں میں دو تین ایکسرے رپورٹیں تھیں۔ اچانک دانت میں اس قدر درد اٹھا کہ نہ پوچھیں۔ ساری رات جاگتا رہا پھرکسی نے اس اسپتال کا بتایا، ویسے سامنے ہی میری دکان ہے لیکن پتا نہیں تھا کہ یہاں دانتوں کا بھی علاج ہوتا ہے۔"پھرآپ کو فائدہ ہوا علاج سے؟ "
"جی۔"
"کہاں تو میری نیندیں حرام تھیں پر اب شکر ہے خدا کا، بہت فائدہ ہے۔ انھوں نے دوائی دی تھی اور پھر ایکسرے کرانے کا کہا تھا۔"
"دانتوں کا ایکسرے؟ "
"دراصل میری روٹ کینال ہوگی۔"
"روٹ کینال؟ " ذرا استعجاب ہوا۔
"جی وہ جراثیم آگئے ہیں ناں۔" ایک کم پڑھے لکھے عام نوجوان کے منہ سے اپنی صحت کے حوالے سے آگاہی کا سن کرکچھ مسرت ہوئی، روٹ کینال دانتوں کے اس چھوٹے سے آپریشن کو کہتے ہیں جس کے ذریعے دانتوں میں موجود چھوٹی چھوٹی نالیوں میں سے جراثیم کو نکالا اور صاف کرکے بندکیا جاتا ہے، یہ پورا عمل ایک ماہر دندان ساز بخوبی کرتا ہے، اس کے لیے متاثرہ دانت کا ایکسرے کروایا جاتا ہے جس سے جراثیم کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔
ہمارے یہاں دانتوں کی صحت کے حوالے سے احتیاط نہیں برتی جاتی جب کہ دیکھا جائے تو دانت ہمارے جسم کا وہ اہم حصہ ہیں جو ہمارے لیے مضبوط بیرونی دروازے کی مانند ہیں کہ جن کی مدد سے ہم کھاتے، چباتے اور غذاؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے دانتوں کی حفاظت مناسب طریقے سے کریں تو ساری زندگی ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اگر بے پروائی برتی تو پریشان رہیں گے۔
دانت کا درد انسان کو اس قدر بے چین کردیتا ہے کہ سوائے اس سے نجات کے کچھ اور نہیں سوجھتا۔ ہم جو بھی غذا کھاتے ہیں اسے سب سے پہلے اپنے دانتوں سے توڑتے اور پھر اچھی طرح چباتے ہیں، وہ لوگ جو غذا کو اچھی طرح چبا کر نہیں کھاتے وہ اکثر پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔
لہٰذا غذا کو اس قدر چبانا ضروری ہے کہ اس کے بعد اس کے ہضم کے نظام میں آسانی رہے۔ آریو ویدک کیمطابق انسان کو اپنی غذا تقریباً بیس سے بائیس مرتبہ چبانی چاہیے بلکہ ایسی غذائیں مثلاً آئس کریم جو منہ میں جاکر ہی پگھل جاتی ہے، اسے بھی کسی حد تک چبانا ضروری ہے۔ قدرتی طور پر مختلف قسم کے مرکبات کوکھانے اور ہضم کرنے کے علاوہ سانس لینے، منہ کھولنے اور باتیں کرنے سے جراثیم کسی نہ کسی انداز میں منہ میں داخل ہو جاتے ہیں، ایسے جبڑے ان جراثیم کے لیے بہترین محفوظ گاہ ثابت ہوتے ہیں جو اپنے صفائی ستھرائی کے عمل پر توجہ نہیں دیتے۔
یہ جراثیم دانتوں کے ارد گرد، اندرونی جانب میل کی صورت میں جمتے رہتے ہیں یہ پیلاہٹ سا میل پلاک کہلاتا ہے، کئی بار یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ پلاک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ دانتوں کو ان کے اصل مقام سے سرکانے لگتا ہے، اسی طرح جراثیم دانتوں میں پرورش پاتے ہیں، جب آپ کوئی غذا کھاتے ہیں تو اس غذا میں ملی ہوئی شکر کو پلاک ایسے تیزاب میں تبدیل کردیتا ہے جو دانتوں کی (Enamel) پر حملہ آور ہوتا ہے اسے نقصان پہنچاتا ہے اور کچھ عرصے بعد دانتوں کی چمکیلی تہہ متاثر ہوتی ہے اور یوں یہ تیزاب دانتوں کے اندرونی حصے تک پہنچ جاتا ہے۔ دانتوں میں بیماری کے باعث منہ سے بدبو بھی آنے لگتی ہے، یہ ناگوار بدبوکئی بار ہمیں سماجی روابط میں شرمندگی سے دوچارکرتی ہے۔
ہماری اپنی والدہ مرحومہ بچپن میں یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ " جو جھوٹ زیادہ بولتے ہیں، ان کے منہ سے بدبو آتی ہے" جب کہ درحقیقت یہ بدبو ان جراثیم کے انفیکشن کا نتیجہ ہوتی ہے جو ہم سستی اور بے پروائی میں اپنے منہ میں پال لیتے ہیں۔ دانتوں کے ایک چینی معالج کے مطابق خوب پانی پینا، سادہ غذا کھانا، مسالے دار اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیزکرنا اور اچھی نیند لینے سے بھی دانتوں کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
کینیڈا کی ایک ریسرچ ڈائریکٹر اینی چوائس کا کہنا ہے کہ منہ سے ناگوار بُو آنے کی سب سے بڑی وجہ منہ کے جراثیم ہیں۔ یہ جراثیم منہ میں اس طرح سے رچ بس جاتے ہیں کہ آپ کے منہ سے مستقل بُو آتی ہے۔ دانتوں کی حفاظت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ان سوراخوں یا گڑھوں کا خاص خیال رکھیں جو دانتوں کی اوپری سخت سطح سے بنتے ہوئے نچلی ملائم سطح تک پہنچ جاتے ہیں، دانتوں میں گڑھے یا سوراخ پڑنے کا سبب وہ نقصان دہ جراثیم ہوتے ہیں جو آپ کے منہ میں رہتے ہیں۔
اسی لیے دانتوں کو کھانے کے بعد صاف کرنا ضروری ہے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کم ازکم اچھی طرح پانی سے منہ کو صاف ضرور کرلینا چاہیے تاکہ غذائی ذرات دانتوں سے نکل جائیں ورنہ وہ دانتوں کے درمیان رہ کر سڑ جاتے ہیں اور جراثیم کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آج کل بازار میں پیسٹ کے نام پر خریدے جانے والے مضر اجزا جو دانتوں کو صاف کرنے کے بجائے ان میں کمزوری پیدا کرنا شروع کردیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ خاص کار آمد ثابت نہیں ہوتے لہٰذا ہر ایک گھلا ہوا چونے پر مشتمل پیسٹ لینے کے بجائے کوالٹی پر توجہ دیں یہی نہیں بلکہ بار بار ایک ہی جیسے پیسٹ کو استعمال کرنے کے بجائے بدل بدل کر استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح بازار میں اس طرح کے سستے منجن بھی دستیاب ہیں جن کو نجانے کیا کچھ جلا کر بنایا جاتا ہے جو صریحاً دانتوں کے لیے مضر ہے۔
اس کے بجائے اگر گھر میں ہی منجن تیارکر لیا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے لیے چالیس فیصد پھٹکری کو پیس کر باریک کرلیں اور اس میں ساٹھ فیصد کے تناسب سے باریک پہاڑی نمک شامل کرلیں تو یہ منجن دانتوں اور مسوڑھوں کی صحت کے لیے بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔ ویسے انار کا موسم تو اب گزر ہی چکا ہے لیکن دانتوں کے لیے انار کے چھلکوں کو اچھی طرح دھوپ میں سکھا لینے کے بعد اسے گرائنڈ کرکے ایک صاف بوتل یا جار میں بھر لیں یہ دانتوں کی صفائی اور صحت کے لیے زبردست نسخہ ہے۔ یاد رہے کہ پہلے اناروں کو اچھی طرح پانی سے دھو لیا جائے تاکہ دھول مٹی اور جراثیم کا اندیشہ نہ رہے، یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔
آج کل دانتوں کے ڈاکٹرزکی فیس عام معالجین کے مقابلے میں اچھی خاصی ہے، دانتوں کے معمولی سے کام کے لیے بھی ہزاروں روپے نکل جاتے ہیں اور تب بھی تکلیف سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے لہٰذا کوشش یہی کرنی چاہیے کہ روزانہ اس قیمتی اور اہم عضوکی حفاظت کی جائے۔ روز رات کو سونے سے پہلے برش کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ بہت سے لوگ صبح اٹھ کر برش کرنے کو اہمیت دیتے ہیں لیکن اگر سونے سے پہلے اچھی طرح برش یا مسواک استعمال کرلی جائے تو بہترین ہے کیونکہ رات بھر سونے کے دوران منہ میں جمع دانتوں کے درمیان پھنسے غذائی ذرات منہ کے بہترین درجہ حرارت میں خوب پلتے ہیں۔ آج کل ڈاکٹرز مسواک کو اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے مسواک استعمال کریں۔