ہر شخص زندگی میں کسی نہ کسی وقت ایسے مقام پر ضرور پہنچتا ہے جب اس کا من چاہتا ہے کہ اس کے خاندان، علاقے یا ملک نے اسے جو کچھ دیا ہے، وہ اسے بمعہ سود واپس لوٹائے۔
ہمارے گاؤں میں کسی اچھے اسکول کا نہ ہونا، ہم سب کا ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر " دی ویلج اسکول" کی پہلی برانچ کی صورت میں، ہمارے گاؤں بھدر میں ہوئی، جو اب کافی پھل پھول چکا ہے اور اس کے فارغ التحصیل بچے اب اپنی زندگیوں میں ایسے مقامات پر ہیں کہ وہ اپنے اسکول کا نام روشن کر رہے ہیں۔
اس اسکول کے قیام کے وقت سب سے اولین مقصد یہ تھا کہ گاؤں کے بچوں کو بھی تعلیم کا وہی معیار ملے جو کہ شہروں کے بچوں کو ملتا ہے، اسی لیے نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اس ادارے نے خاصا نام کمایا۔
شعبہ تعلیم سے وابستہ ہونے کے باعث، اسکول کے پرنسپل نے دنیا بھر کے تعلیمی نظام کے بارے میں ممکنہ ریسرچ کر رکھی تھی اور اس میں جو چیزیں انھیں سب سے زیادہ اچھی لگیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ جاپان اورچین جیسے دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ نظام رائج ہے کہ بچے اسکول آ کر مل کر سب سے پہلے اپنے کمرہء جماعت کی صفائی کرتے ہیں اور اسکول سے جاتے وقت بھی دوبارہ یہی فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ یہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، جس سے بچوں کو اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے کی عادت ہوجاتی ہے۔
یہ بات اسکولوں تک ہی محدود نہیں ہے، وہاں ہر دفتر کا انچارج، ہر ادارے کا سربراہ تک صبح اپنے دفتر کو کھول کر سب سے پہلے اس کی صفائی کرتا ہے… ہمارے ہاں کی طرح جمعداروں کی فوج نہیں ہوتی۔ ان سب باتوں سے متاثر ہو کر اسکول میں اسی اچھے نظام کو متعارف کروایا گیا اور باری رکھی گئی کہ آدھی کلاس سویرے اور آدھی کلاس چھٹی کے وقت کمرۂ جماعت کی صفائی کا کام کرے گی۔ بچے خوشی خوشی اس کام کو سر انجام دیتے تھے، اساتذہ تک بسا اوقات ان کے ساتھ مل کر صفائی کا کام کرتے اور دوستانہ ماحول میں کام بھی ہوجاتا۔
ظاہر ہے کہ بچوں نے اپنے گھروں میں جا کر اپنے دن کی باقی مصروفیات کے ساتھ صفائی کے طریقہء کار اور ڈیوٹی کا بھی ذکر کیا ہو گا۔ وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ چند دن بھی نہیں گزرے تھے کہ گاؤں کے مختلف گھروں سے اعتراض کی آوازیں اٹھائی جانے لگیں کہ ہمارے بچے کوئی جمعدار تو نہیں، جن سے اسکول کی صفائی کا کام لیا جایا ہے۔ ہم ان کی فیس پڑھائی کے لیے دیتے ہیں اور اسکول والے صفائی کا عملہ رکھنے کی بجائے بچوں سے صفائی کروا کر اپنے پیسے بچاتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہی مسئلہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ گندگی اور کوڑا پھیلاتے ہیں اور کم یا غیر تعلیم یافتہ لوگ ان کے لیے صفائی کا کام کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے یا کوڑا صاف کرنے کو اتنا برا سمجھا جاتا ہے جب کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اس ملک کوکوڑے کرکٹ سے بھر کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ زمین پر گرا ہوا کاغذ کا ایک ٹکڑا اٹھا لینے سے ان کی اتنی توہین ہو جاتی ہے۔ بچوں کے اذہان نا پختہ ہوتے ہیں اور ان کے سافٹ وئیر میں جو چیز چھوٹی عمر سے بھر دی جاتی ہے وہ ان کی زندگی میں آخری دم تک ان کے ساتھ چلتی ہے۔
ہم سب شور تو مچاتے ہیں کہ ملک میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، ہر طرف گندگی ہے، لوگوں میں civic sense نہیں ہے، لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ اس میں ہم کس حد تک ذمے دار ہیں!! ہمارے مذہب کی تعلیمات میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے اور اس سے یہ اخذ کرنا قطعی مشکل نہیں کہ ایسا کیوں کہا گیا ہے۔ یہی طرز عمل لے کر ہم بچپن سے لڑکپن اور وہاں سے عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور ہماری شخصیت کا سب سے اہم خاصہ یہ بن چکا ہوتا ہے کہ ہم نے گند پھیلانا ہے اور اسے صاف ان لوگوں نے کرنا ہے جو کہ اس کام پر مامور ہیں۔
ہمارے ہاتھوں سے پھیلائے جانے والے کوڑا کرکٹ میں اور اس کی صفائی کرنیوالوں کی اہلیت اور سکت میں بہت بڑا فاصلہ ہوتا ہے، جسے پاٹا نہیں جا سکتا، اسی لیے ملک میں کوڑے کے ڈھیر جگہ جگہ کلنک کے ٹیکوں کی طرح سجے ہیں اور دنیا بھر میں اس ملک کا برا تاثر پیش کرتے ہیں۔ آج کل، جب کہ بارشوں کا موسم ہے اور زمین میں دفن ہوئے گندگی کے " خزانے " بھی ابل ابل کر باہر آرہے ہیں تو یہ ہماری اصلیت کا پول کھولتے ہیں۔ کہیں ان کی وجہ سے سیورج کا نظام بند ہو جاتا ہے اور کہیں یہ پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے راہی گیروں کے لیے کوفت کا باعث بنتے ہیں۔
ہمارے منہ پر بھلا اس سے بڑا طمانچہ کیا ہو گا کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ وڈیو، جس میں جرمنی کے سفیر کو ہمارے ملک میں وہ کوڑا اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جسے ہمارے لوگوں نے پھیلایا ہوا تھا۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور دنیا میں ہر جگہ ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی خبر لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہے اور ہمارے ملک کا تاثر خراب ہوتا ہے۔ ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارا من چاہتا ہے اور جس کام سے منع کیا جائے وہ تو اور بھی جذبے سے کرتے ہیں۔
اب ہوا یہی کہ لاکھوں کروڑوں کی رقوم ان جھنڈوں اور جھنڈیوں کی خریداری میں صرف ہوئی اور چودہ اگست کا سورج غروب ہوتے ہی وہ سب کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گیا۔ اگلے ہی روز زمین پر گری ہوئی جھنڈیاں، پرچم کی توہین کی مثال پیش کرتی اور ہمارے جذبہء حب الوطنی کا منہ چڑاتی ہوئیں، جس کا ہم نے ایک دن پہلے ہی شان و شوکت سے اور دھوم دھام سے مظاہرہ کیا تھا۔ لڑکیوں کو تو شاید پھر کبھی نہ کبھی صفائی کرنا سکھا دیا جاتا ہے مگر لڑکے… اور کوڑا کرکٹ سمیٹیں، کام کریں، اٹھ کر پانی پی لیں، کسی کی مدد کر دیں، اس سے شاید ان کی مردانگی کی توہین ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں ان کے بچپن کے ماحول سے جا کر ملتی ہیں، جہاں لڑکوں کو ایسی مخلوق سمجھا جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں سے ہر معاملے میں افضل ہیں۔
ان کے، بلکہ ہم سب کے ذہنوں میں جو چیز ہمیشہ سے ڈالی گئی ہے وہ کوڑے کرکٹ کو پھیلانے کی ہے نہ کہ سمیٹنے کی، جو جہا ں پڑا ہے، اسے وہیں پڑا رہنے دو، جو کچھ راستے میں آتا ہے، اسے ہٹانے کی بجائے ٹھوکر مار کر مزید پھیلا دو۔ ہم سوائے زمین پر گری ہوئی اپنی کسی قیمتی چیز یا دوسرے کی رقم کے، کسی چیز کو نہیں اٹھاتے۔ اس بار، کسی کے کہنے سے نہیں بلکہ خود سے، اپنے دل میں جذبہ پیدا کریں کہ ملک میں سبز پرچم کی بجائے ایک سبز درخت کا اضافہ کریں۔
پرچم لگانا چاہتے ہیں تو وہ بھی لگائیں مگر اس کی عزت کریں، استعمال کے بعد اسے سمیٹ کر سنبھال لیں اور آئندہ برس بھر استعمال کر لیں، مگر گھر کا ہر فرد ایک ایک درخت بھی لگائے تو صرف پرچم کی حد تک ہی نہیں بلکہ ملک واقعی سر سبز و شاداب ہو جائے گا، انشا اللہ!