روایت ہے کہ جب اللہ تعالی فرشتوں کو ان کی ذمے داریاں تفویض کر رہے تھے اور عزرائیل علیہ السلام کو موت کے فرشتے کے طور پر مقرر کیا گیا تو انھیں احساس ہوا کہ ان کی ذمے داری تو ایسی ہے کہ لوگ انھیں بر ا بھلا کہتے رہیں گے۔ جب بھی کسی کے پیارے کی موت ہو گی تو وہ انھیں مورد الزام ٹھہرائے گا۔ اس پر اللہ تعالی نے ان سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں، لوگ کسی کے مرنے پر بھی یہ نہیں کہیں گے کہ اس کی جان عزرائیل نے امر ربی پر لی ہے بلکہ وہ دیگر عناصر کو قصور وار ٹھہرائیں گے۔
فلاں کو فلاں نے قتل کر دیا، فلاں بیماری سے مرا، فلاں کینسر سے اور فلاں حادثے سے۔ پیدائش اور موت کا وقت اور جگہ تو ہر کسی کی مقرر ہیں مگر کسے کس طرح موت سے ہمکنار ہونا ہے، وہ اصل میں اللہ کے مقرب ترین فرشتوں میں سے ایک فرشتے، عزرائیل علیہ السلام کا کام ہے۔
کسی ایک جگہ پر ایک وقت میں اٹھانوے لوگوں کو مرنا ہو تو ان اٹھانوے لوگوں کے لیے ایک پرواز میں بیٹھنے کے حالات پیدا کرنا۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ممالک سے پی ایچ ڈی مکمل کر کے آ رہی ہے، اس کی اور اس کے بچوں کی موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے، مگران کے ساتھ اس عورت کے شوہر کو بھی مرنا ہے، تو وہ کراچی سے لاہور آتا ہے اور اس پرواز پر ان پیاروں کے ساتھ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتا ہے۔
ایک نوجوان جو کہ اسی پرواز کی ٹکٹ کے حصول کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا تھا مگر یقینا اس نے لنک ڈاؤن ہونے اور ٹکٹ نہ مل سکنے پر سسٹم کو کئی گالیاں دی ہوں گی۔ بعد ازاں جب اسے علم ہوا کہ اسی پرواز کو حادثہ پیش آیا ہے جس پر وہ نہ جا سکا تھا اور اس نے صد شکر ادا کیا ہوگا۔ مگر اسے علم ہونا چاہیے کہ یہ سب اتفاقات نہیں ہیں، اگر وہ اس پرواز پر چلا بھی جاتا تو بھی وہ اس وقت ان لوگوں میں ہوتا جو اس پرواز پر ہوتے ہوئے بھی اس المناک حادثے میں زندہ بچ گئے ہیں۔ وہ دو لوگ، جن کا وقت موت مقرر نہ تھا، اسی پرواز پر روانہ ہوئے مگر اس کے زندہ اجسام جہاز سے باہر گر گئے اور وہ لوگ لقمہء اجل نہیں بنے۔
آپ سوچیں، ہم سب اس وقت کورونا کے باعث جس خوف میں مبتلا ہیں، ہر کوئی اپنے طور احتیاطی تدبیر کرتا ہے، دوسروں کے لیے نہ سہی، اپنے لیے تو ہر کوئی بچاؤ کے طریقوں پر عمل کرتا ہے۔ اس پرواز سے جانے والے بھی احتیاط کے کن کن مرحلوں سے گزر کر جہازمیں بیٹھے ہوں گے کہ کہیں سے کورونا کا وائرس ساتھ نہ چل دے اور مبتلا نہ کردے۔
لوگوں نے ماسک لگا رکھے تھے، دستانے پہن رکھے تھے، ہاتھوں کو کئی کئی بار دھویا یا sanitize کیا ہوگا۔ بچ بچ کر چلے ہوں گے، کسی سطح کو نہیں چھوا ہو گا کہ خطرہ ہر طرف منڈلا رہا تھا۔ ہر کوئی مجبوری سے سفر کر رہا تھا، عید سے دو دن قبل اپنے پیاروں کے پاس پہنچ کر ان کے ساتھ عید منا کر خوشیاں دوبالا کرنے کے لیے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں اس سے بڑ ھ کر احتیاط لازم تھی کہ کوئی ہوائی سفر بھی نہ کرے مگر ان بد قسمت مسافروں کے سفر کی منصوبہ بندی تو کسی بڑے دماغ کی کاوش تھی، انھیں تو اس سفر پر روانہ ہونا ہی تھا!
اس المناک سانحے پر پوری قوم رنج میں ڈوب گئی، عید سے عین دو دن پہلے جب ہر کوئی دل میں خوشیاں اور امنگیں لیے ہوئے تھا اور اللہ کی طرف سے ماہ رمضان کے اختتام پر عید سعید کی خوشیوں کے استقبال کی تیاریوں میں مگن تھا، ایسے میں لگ بھگ نوے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کون جانتاہے کہ کس وقت موت کا فرشتہ ہماری گھات میں ہوتا ہے۔ ہم بظاہر اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں مگر دراصل ملک الموت خود ہماری زندگی کی حفاظت کرتے ہیں، اس لمحے اور اس مقام تک، جہاں پر ان کا اہم ترین فریضہ مقرر ہوتا ہے۔
ہم دریا یا سمندر میں ڈوب کر مرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں مگر جب کسی کو پانی سے ہی مرنا ہو تو باتھ ٹب میں بھرا ہوا پانی بھی اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔ پہاڑوں سے یا کسی بھی بلندی سے گرنے کا تصور ہمیں خوفزدہ کرتا ہے تو کسی دو انچ کی جگہ سے بھی پاؤں پھسلنا، موت کا سبب بن جاتا ہے۔ بھڑکتی ہوئی آگ سے انسان موت کا خوفناک تصور کرتا ہے مگر ایک ذرا سا چولہا پھٹ جانے اور تھوڑا سا بجلی کا کرنٹ لگ جانے سے بھی انسان ختم ہو جاتا ہے۔ سواری پر حادثے کا ڈر رہتا ہے تو پیدل چلنے والے بھی تو مرتے ہی ہیں۔
بیماری میں مبتلا انسان کی طرف سے ہر وقت موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے مگر کبھی کبھار کوئی صحت مند انسان اس کی عیادت کو آتا ہے اور اچانک وہ مر جاتا ہے۔ بعض لوگ سالوں کسی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں اور بالآخر صحت یاب ہو جاتے ہیں اور کئی لوگ بظاہر صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں مگر اچانک ان پر کسی بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور علم ہوتا ہے کہ وہ بیماری سال ہا سال سے اندر ہی اندر پنپ رہی تھی اور ظاہر ہوئی ہے تو بالکل آخری اسٹیج پر ہے اور اچھا خاصا انسان دنوں میں چٹ ہو جاتا ہے۔
اگر ہم موجودہ حالات کو دیکھیں تو کورونا وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ اور اس سے واقع ہونے والی اموات نے ہمیں اس طرح خوفزدہ نہیں کیا جیسے کہ کوئی اور خطرہ کرتا ہے۔ ملک میں چند سالوں سے ڈینگی سے بھی ہزاروں اموات واقع ہو چکی ہیں اور اب کورونا کہ جس نے ساری دنیا کو بے بس کردیا ہے مگر ہم پاکستانی قوم اتنی مجاہد ہیں اور ایسی ایسی پوسٹ نظر سے گزرتی ہیں کہ کورونا شاید ہم سے ڈر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور کوئی اسے چین کی اور کوئی امریکا کی سازش کہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ بل گیٹس نے اس بیماری کے جراثیم دنیا بھر میں پھیلائے ہیں، اب اس کے بعد وہ اس کی ویکسین متعارف کروائے گا، جو کہ اصل میں مایع " چپ" chips ہوں گی اور وہ دنیا کے ہر شخص کے جسم میں داخل کر دی جائیں گی اور ان کے ذریعے ہم سب کو ہر وقت track کیا جا سکے گا، اسی وجہ سے ہمارے ہاں اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ابھی تو یہ شکر ہے کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کو اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو کورونا کے پھیلاؤ کا سبب قرار نہیں دیا گیا۔
جن ممالک نے سخت ترین اقدامات کیے ہیں اور مکمل لاک ڈاؤن کیا ہے ان کے ہاں صورت حال سنبھل گئی ہے۔ ہماری حکومت کی طرف سے یہ غوغا ہے کہ دیہاڑی دار متاثر ہوتا ہے اس لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کی جانا چاہیے۔ حکومت اگر جائزہ لے تو علم ہو گا کہ اس ملک میں صاحب حیثیت لوگ، صاحبان دل بھی ہیں، کسی بھی ابتلا کی صورت میں کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیتے اور اپنے ہاتھ کھلے کردیتے ہیں۔
کیا گزشتہ تین ماہ میں کسی دیہاڑی دار کی بھوک کی وجہ سے موت رپورٹ ہوئی ہے؟ جن لوگوں کو آپ نے گھروں کا چولہا جلانے کے لیے بارہ ہزار روپے کی امدادی رقوم دی ہیں وہ اس رقم سے عید کی خریداری کرنے کو نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک اپنے گاؤں کی مثال دوں تو ہمارے گاؤں کے غریبوں کے گھروں میں کسی ایک نے نہیں بلکہ دس دس لوگوں نے ایک ایک ماہ کا راشن بھجوایا ہے۔
جن بچوں کے تحفظ کی خاطر آپ نے تعلیمی ادارے بند کیے تھے… وہ سارا رمضان اپنے والدین کے ساتھ پہلے دکانوں میں اور عین عید کے قریب بڑے بڑے مالز میں عید کی خریداری کے لیے سر عام گھوم رہے تھے۔ جہاں بھی چلے جائیں لوگوں کے جم غفیر ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو حکومت نے عید کے قریب کھول دیا کہ لوگ محفوظ فاصلہ قائم رکھتے ہوئے سفر کرلیں مگر سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی، پبلک ٹرانسپورٹ کی تصاویر نے خوف میں مبتلا کردیا۔ جو ملازمین ہمارے گھروں میں کام کرتے ہیں اور عید پر اپنے گھروں پر عید منانے کے لیے گئے ہیں، کیا وہ واپس آکر چودہ دن کے لیے قرنطینہ کریں گے یا ہماری اپنی مجبوریاں ہمیں بغیر احتیاط کے انھیں اپنے گھروں کے اندر آنے اور ہمیں بھی خطرے میں مبتلا کر دیں گے؟
سوشل میڈیا پر یہ بھی خبریں ہیں کہ حکومتی ارکان نے بڑے مالز اور مارکیٹیں کھولنے کی اجازت دینے کے لیے تاجروں سے رقوم وصول کی ہیں؟ یوں تو ہمارا نظام ایسا ہی ہے مگر تف ہے ایسے لوگوں پر جو ایسے اقدامات کر کے نہ صرف حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ انسانی جانوں سے کھیل بھی رہے ہیں۔
ماہ رمضان کے اواخر سے ہمارے ہاں، ہر روز بڑھتے ہوئے کورونا کے مریضوں کی تعداد خطرے کے نشانات کو چھو رہی ہے۔ ابھی اگر حکومت چاہے تو اس بلی کو تھیلے میں بند کرنے کی ایک کوشش کر سکتی ہے کیونکہ ہم ایک غریب اور محدود طبی وسائل رکھنے والے ملک کے باشندے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم جہاں کرپشن اور کئی اور منفی پہلوؤں سے دنیا میں سر فہرست ہیں، کہیں کورونا میں مبتلا ملکوں میں بھی سر فہرست نہ ہو جائیں !