میں گاڑی میں بیٹھی تھی اور بیٹی کیمسٹ کی دکان سے دودھ، کچھ دوائیں، ماسک اور سینی ٹائزرلینے کے لیے اتری تھی۔ چونکہ پارکنگ کا ہر جگہ مسئلہ ہوتا ہے اور یوں بھی کوئی تنہا گھر سے نہ نکلے… تو یہی انتظام طے ہے کہ ایک شخص گاڑی میں بیٹھتا ہے اور دوسرا دکان یا مارکیٹ کاکام کر لیتا ہے۔
تھوڑی دیر میں میرے ساتھ ہی ایک اور گاڑی آ کر پارک ہوئی اور اس میں سے ڈرائیونگ سیٹ سے ایک نوجوان اور اس کے ساتھ ایک خاتون اترے۔ اس نوجوان نے گاڑی کی چابی اپنے ڈرائیور کے حوالے کی جو کہ اسی گاڑی کی پچھلی سیٹ سے نکل کر باہر کھڑا تھا۔ وہ دونوں دکان میں چلے گئے اور ان کا ڈرائیور گاڑی کے پاس ہی فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا، اتنی گرمی تھی مگر غالبا اس کی برداشت کافی تھی۔
بیٹھ کر پہلے اس نے طائرانہ نظروں سے دائیں بائیں کا جائزہ لیا اور پھر ایک پاؤں کی چپل اتار کر اسے اپنے دوسرے گھٹنے پر رکھ لیا اور گاڑی کی چابی سے اپنے پیروں کے ناخنوں کی صفائی کرنے لگا۔ مجھے یہ دیکھ کر اتنی کراہت آئی کہ میں نے منہ پھیرلیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو وہ وہی عمل دوسرے پیر پر دہرا رہا تھا۔ اسی اثنا میں بیٹی دکان سے نکلی اور اس نے سامان پچھلی سیٹ پر رکھا اور گاڑی میں واپس بیٹھنے سے پہلے اپنے ہاتھوں سے مومی دستانے اتار کر اس لفانے میں ڈالے جو کہ اسی مقصد کے لیے گھر سے لایا گیا تھا۔ اس لفافے کو بھی پچھلی سیٹ کے پیروں میں رکھا اور واپس اپنی نشست پر آن بیٹھی۔
" اوہو ماما!! آپ کو چاہیے تھا کہ آپ اس ڈرائیور کو ڈانٹتیں یا کم از کم اس گاڑی کے مالک کو بتاتیں کہ ان کا ڈرائیور ان کی گاڑی کی چابی کے ساتھ کیا کر رہا تھا… " بیٹی نے تشویش سے کہا، جب میں نے اسے اس ڈرائیور کے بارے میں بتایا۔" کیا پتا وہ نوجوان اس چابی کو کسی وقت اپنے کان، ناک یا منہ میں خواہ مخواہ ڈال لے… حتیٰ کہ اسے ہاتھوں میں پکڑنا بھی کتنا برا ہے!!"
اس کے یوں کہنے سے مجھے اور بھی پریشانی اور الجھن ہوئی۔ میں نے اسے دیکھ کر ہی اتنا برا محسوس کر رہی تھی، کجا کہ یہ تصور کرنا کہ اسی چابی کو کوئی اور آدمی اپنے ناک یا منہ میں ڈال لے۔ ہم لوگ کتنے لاپروا ہوتے ہیں، اسی طرح گھنٹوں مارکیٹ یا کام میں گزار کر، چہل قدمی یا جاگنگ کر کے، اسکول کالج یا یونیورسٹی سے واپسی پر گاڑیوں، ویگنوں یا بسوں میں کئی سطحوں کو چھوتے ہوئے باہر سے لوٹ کر گھر آتے ہیں اور ایسے ہی گندے سندے ہاتھوں سے سامنے پڑی کوئی چیز کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ گھر والوں سے مصافحہ کرتے ہیں یا گلے ملتے ہیں، اپنے بچوں اور ماؤں کو بوسہ دیتے ہیں، پالنے میں پڑے شیر خوار کو اٹھا کر چٹا چٹ چومنا شروع کر دیتے ہیں، اسے اٹھا کر ہنسانے کو اس کے ہونٹوں کو چھوتے ہیں اور وہ رو پڑے تو چپ کروانے کے لیے، اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔
کورونا کے باعث جو احتیاطی تدابیر ہمیں اختیار کرنا پڑ رہی ہیں ان سے اندازہ تو یہی ہوا ہے کہ اگر یہی احتیاطی تدابیر ہم اپنی عام زندگی میں بھی اپنائے رکھیں تو کوئی بیمار ہی نہ ہو۔ ہم عموماً موسمی بخار، نزلہ یا کھانسی میں مبتلا ہوتے ہیں تو نہ صرف اپنے گھر بلکہ دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی منہ کھول کھول کر کھانستے ہیں، بغیر ہاتھ سامنے رکھے زور زور سے چھینکتے ہیں، ہاتھوں سے ناک صاف کر کے اسے سڑکوں پر پھینکتے ہیں اور اپنے انھی ہاتھوں کو اپنی قمیض کے دامن سے صاف کر لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد انھی ہاتھوں سے کچھ کھانا شروع کردیتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ہاں جب کسی کو موسمی فلو یا زکام، کھانسی ہوتا ہے تو وہ ساری سردیاں کسی وفادار دوست کی طرح ساتھ نبھاتا ہے اور اس کے باعث اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی ہم مبتلا رکھتے ہیں۔
ماسک کا استعمال ہمارے ہاں، ہماری دانست میں یہی ہوتا ہے کہ اسے ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے مریضوں کو دیکھنا ہوتا ہے اور اگر کوئی مریض کسی چھوتی مرض میں مبتلا ہو تو اس سے ڈاکٹربھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی معمول میں ماسک پہنے تو اس پر کس کس طرح کے لیبل لگ سکتے ہیں؟ ہمارے گاؤں میں ایک فوتیدگی کے موقع پر ایک خاتون جو کہ لندن سے آئی ہوئی تھیں، انھوں نے ماسک پہن رکھا تھا اور اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ان کا حال ہی میں آپریشن ہوا تھااور ان کی قوت مدافعت کم تھی اور ڈاکٹر نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ماسک پہن کر رکھیں تا کہ کسی سے کوئی چھوتی مرض نہ لے لیں۔ ان کے ماسک پہننے پر جو چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں وہ میرے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔
"دیکھو، کتنی ماڈرن بنی ہوئی ہے… گئی تو یہیں سے تھی نا، اب سے ہم لوگوں سے بو آتی ہے! "
" لگتا ہے کہ اس کے منہ کو کوئی مسئلہ ہے جو اسے مسلسل ڈھکن لگا کر بند کیا ہوا ہے! "
اب سوچتی ہوں کہ ماسک پہننا کتنا فائدہ مند ہو سکتا ہے، اس کا احساس ہمیں کتنا کچھ گنوا کر ہوا ہے۔ ماسک پہننا اور اپنے ہاتھوں کو صاف رکھنا کتنا اہم ہے۔ ہماری ایک عزیزہ ہیں جو کہ بار بار ہاتھ دھونے کے خبط میں مبتلا ہیں، انھیں سب لوگ بیمار سمجھتے ہیں۔ وہ باہر سے گھرلوٹتی ہیں تو سب سے پہلے اپنے ہاتھ دھوتی ہیں، پھر کپڑا گیلا کر کے اپنے پرس کو صاف کرتی ہیں، پھر اپنی چابیوں کے گچھے کو دھوتی ہیں اور دھوپ میں رکھ دیتی ہیں … اس کے بعد پھر ہاتھ دھوتی ہیں اور ٹونٹی بند کرنے سے پہلے اپنے ہاتھوں میں پانی بھر لیتی ہیں، ہاتھ کی پشت سے لیور دبا کر ٹونٹی بند کرتی ہیں اور پھر اس پانی کو اپنے دونوں ہاتھوں کی فائنل صفائی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اگر ٹونٹی گھما کر بند کرنیوالی ہو تو اسے آخر میں ٹشو پیپر ہاتھ میں پکڑ کر بند کرتی ہیں۔
تولیہ کہیں بھی استعمال نہیں کرتیں، ماسوائے اپنے گھرکے اور اپنے تولیے کے۔ اپنے پاس وافر تعداد میں ٹشو پیپر رکھتی ہیں تا کہ ہاتھوں کو خشک کرنے کے لیے اگرکہیں تولیہ میسر نہ ہو تو انھیں استعمال کر سکیں۔ ہم سب انھیں ذہنی بیمار سمجھتے ہیں اور" وہمن" کا لقب دے رکھا ہے اور اگر کوئی زیادہ صفائی پسند ہونے کی " کوشش " کرے تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں بندہ ان باجی کی طرح وہمی ہو گیا ہے۔ اب مجھے اس بات پر یقین ہے کہ ہم انھیں جتنا بھی ذہنی مریض کہیں مگر وہ جسمانی طور پر کبھی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئی ہوں گی۔
آپ اپنے گھر سے نکلیں اور جی ٹی روڈ پر چلے جائیں یا کسی اورمارکیٹ کی طرف تو آپ کو اب بھی چھلیوں والے چھلیاں بیچتے نظر آئیں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ لوگ ماسک اور دستانے پہنے یہ چھلیاں خرید بھی رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے دستانے یا ماسک پہن لینے سے وہ محفوظ ہو گئے ہیں۔ چھلیوں والا اپنے ہاتھوں سے انھیں مسالہ لگا کر کر دیتا ہے اور لوگ کھا بھی رہے ہیں۔ کسی کو کیا علم کہ چھلیاں بیچنے والا کورونا کا شکار نہ ہو چکا ہو… اسی طرح مارکیٹوں میں آلو کے چپس، بھنے ہوئے مکئی اور چنے کے دانے، لیمن سوڈا، برگر، گنے کا رس وغیرہ، اسی طرح بک رہے ہیں اور اسی طرح لوگ انھیں کھا اور پی رہے ہیں، بغیر سوچے کہ اس سے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
ان چیزوں کو بنانے والے اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں، اگر دستانے بھی استعمال کر رہے ہوں تو وہی دستانے دن بھر پہنے رکھتے ہیں۔ ان چیزوں کو آپ بغیر دھوئے کھا اور پی رہے ہیں۔ آپ کی ساری احتیاطیات، ہاتھ دھونا، سینی ٹائز کرنا، دستانے اور ماسک پہننا… سب بے کار ہے، اگر آپ اپنی بھوک یا پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر یا زبان کے ذرا سے چسکے کی خاطر، کورونا یا کسی بھی بیماری کو اپنے ہاتھوں سے خود اپنے گھر میں لارہے ہوں !!
گھر میں رہیں، محفوظ رہیں۔ باہر نکلیں تو ماسک پہننے سے زیادہ اہم ہے کہ فاصلہ رکھیں، باہر سے الا بلا کھانے کی بجائے کچھ دیر بھوکا رہ لیں۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کسی بھی چیز کو اپنے منہ، ناک اور آنکھوں سے دور رکھیں۔ بالخصوص اگر آپ اپنی گاڑی کی چابیاں کسی ڈرائیور کے ہاتھ میں دیتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ چابی سے صرف گاڑی چلتی ہے یا گھر کے دروازے کھلتے ہیں۔ مگر آپ کو علم ہی نہیں کہ وہ آپ کی چابیوں کو کس کس طرح سے استعمال کرتے ہیں۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور سب کو محفوظ رکھے۔ آمین!